Visit Our Official Web اُردو شاعری سے انتخاب Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

اُردو شاعری سے انتخاب

 


سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں

ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں


تیور ترے اے رشک قمر دیکھ رہے ہیں

ہم شام سے آثار سحر دیکھ رہے ہیں


میرا دل گم گشتہ جو ڈھونڈا نہیں ملتا

وہ اپنا دہن اپنی کمر دیکھ رہے ہیں


کوئی تو نکل آئے گا سر باز محبت

دل دیکھ رہے ہیں وہ جگر دیکھ رہے ہیں


ہے مجمع اغیار کہ ہنگامۂ محشر

کیا سیر مرے دیدۂ تر دیکھ رہے ہیں


اب اے نگہ شوق نہ رہ جائے تمنا

اس وقت ادھر سے وہ ادھر دیکھ رہے ہیں


ہر چند کہ ہر روز کی رنجش ہے قیامت

ہم کوئی دن اس کو بھی مگر دیکھ رہے ہیں


آمد ہے کسی کی کہ گیا کوئی ادھر سے

کیوں سب طرف راہ گزر دیکھ رہے ہیں


تکرار تجلی نے ترے جلوے میں کیوں کی

حیرت زدہ سب اہل نظر دیکھ رہے ہیں


نیرنگ ہے ایک ایک ترا دید کے قابل

ہم اے فلک شعبدہ گر دیکھ رہے ہیں


کب تک ہے تمہارا سخن تلخ گوارا

اس زہر میں کتنا ہے اثر دیکھ رہے ہیں


کچھ دیکھ رہے ہیں دل بسمل کا تڑپنا

کچھ غور سے قاتل کا ہنر دیکھ رہے ہیں


اب تک تو جو قسمت نے دکھایا وہی دیکھا

آئندہ ہو کیا نفع و ضرر دیکھ رہے ہیں


پہلے تو سنا کرتے تھے عاشق کی مصیبت

اب آنکھ سے وہ آٹھ پہر دیکھ رہے ہیں


کیوں کفر ہے دیدار صنم حضرت واعظ

اللہ دکھاتا ہے بشر دیکھ رہے ہیں


خط غیر کا پڑھتے تھے جو ٹوکا تو وہ بولے

اخبار کا پرچہ ہے خبر دیکھ رہے ہیں


پڑھ پڑھ کے وہ دم کرتے ہیں کچھ ہاتھ پر اپنے

ہنس ہنس کے مرے زخم جگر دیکھ رہے ہیں


میں داغؔ ہوں مرتا ہوں ادھر دیکھیے مجھ کو

منہ پھیر کے یہ آپ کدھر دیکھ رہے ہیں


نواب مرزا داغ دہلوی

⭐♥⭐♥⭐


ہم  ہیں  متاعِ کُوچہ و بازار  کی  طرح

اٹھتی  هے ہر  نگاہ  خریدار  کی  طرح


اس کوئےِ تشنگی میں بہت ہے کہ ایک جام

ہاتھ آ  گیا هے ، دولت بے دار کی طرح


وہ تو کہیں هے اور مگر دل کےآس پاس

پھرتی هے کوئی شے ، نگاہِ یار کی طرح


سیدھی هےراہِ شوق پہ یُونہی کہیں کہیں

خُم هو گئی هے، گیسوئےِ دِل دار کی طرح


بے  تیشہِ  نظر  نہ  چلو ،  راہِ  رفتگاں

ہر نقشِ پاء بلند هے ،  دیوار کی طرح


اب جا کے کچھ کھلا ،  ہُنرِ ناخنِ جُنوں

زخمِ جگر هوئے لَب و رُخسار کی طرح


مجروحؔ لکھ رهے ہیں ، وہ اہلِ وفا کا نام

ہم بھی کھڑےهوئے ہیں گنہگار کی طرح


(مجروح سُلطان پُوری)

⭐🔶🔷🔶🔷🔶⭐


ہےچلو  وہ  عشق  نہیں  چاہنے  کی  عادت ہے

پہ کیا کریں ہمیں‌ اِک دوسرے کی عادت ہے


تو  اپنی  شیشہ  گری  کا  ہنر  نہ  کر  ضائع

میں  آئینہ  ہوں‌ مجھے  ٹوٹنے  کی عادت ہے


میں کیا کہوں کہ مجھے صبر کیوں نہیں آتا

میں کیا کروں کہ تجھے دیکھنے کی عادت ہے


تیرے نصیب میں اے دل ! سدا کی محرومی

نہ  وہ  سخی، نہ  تجھے مانگنے کی عادت ہے


وصال  میں‌  بھی  وہی   ہے   فراق  کا  عالم

کہ  اسکو  نیند مجھے رت جگے کی عادت ہے


یہ  مشکلیں  تو  پھر  کیسے  راستے طے  ہوں

میں  ناصبور  اسے   سوچنے   کی  عادت  ہے


یہ  خود  اذیتی  کب  تک  فراز  تو  بھی  اسے

نہ  یاد  کر  کہ  جسے  بھولنے  کی  عادت  ہے


احمد فراز 

⭐❤❤❤⭐



دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں 

ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں 


ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس 

جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں 


گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا 

ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں 


کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اٹھ کر چپ چاپ 

ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں 


ان کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے 

جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں 


یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن 

لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں 


ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابشؔ 

جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں


عباس تابش


⭐⭐⭐⭐⭐


یہ بد قماش جو اہل عطا بنے ہوئے ہیں 

بشر تو بن نہیں سکتے خدا بنے ہوئے ہیں 


میں جانتا ہوں کچھ ایسے عظیم لوگوں کو 

جو ظلم سہہ کے سراپا دعا بنے ہوئے ہیں 


وہ مجھ سے ہاتھ چھڑا لے تو کچھ عجب بھی نہیں 

اسے خبر ہے کہ حالات کیا بنے ہوئے ہیں 


لڑھکتا جاؤں کہاں تک میں ساتھ ساتھ ان کے 

مرے شریک سفر تو ہوا بنے ہوئے ہیں 


تو خلوتوں میں انہیں دیکھ لے تو ڈر جائے 

یہ جتنے لوگ یہاں پارسا بنے ہوئے ہیں 


کبھی کبھار تو ایسا گماں گزرتا ہے 

ہمارے ہاتھ کے ارض و سما بنے ہوئے ہیں 


ہمیں سے ہو کے پہنچنا ہے تم کو منزل تک 

گزر بھی جانا کہ ہم راستا بنے ہوئے ہیں 


ہزاروں لوگ بچھڑتے رہے ہیں مل مل کر 

سو زندگی میں بہت سے خلا بنے ہوئے ہیں 


کسی سے مل کے بنے تھے جو زرد لمحوں میں 

وہ سبز خواب مرا آسرا بنے ہوئے ہیں

⭐⭐⭐⭐⭐⭐


میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو

مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو


دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو

وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو


ہم خاک نشیں تم سخن آرائے سر بام

پاس آ کے ملو دور سے کیا بات کرو ہو


ہم کو جو ملا ہے وہ تمہیں سے تو ملا ہے

ہم اور بھلا دیں تمہیں کیا بات کرو ہو


یوں تو کبھی منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو

جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو


دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو


بکنے بھی دو عاجزؔ کو جو بولے ہے بکے ہے

دیوانہ ہے دیوانے سے کیا بات کرو ہو

کلیم عاجز

⭐⭐⭐⭐⭐


کیوں کسی اور کو دُکھ دَرد سُناؤں اپنے ؟

اپنی آنکھوں سےبھی میں زخم چُھپاؤں اپنے


میں تو قائم ہوں تِرے غم کی بدولت ورنہ

یُوں بِکھر جاؤں کہ خُود ہاتھ نہ آؤں اپنے


شعر لوگوں کےبہت یاد ہیں اوروں کےلئے

تُو مِلے تو میں ، تُجھے شعر سُناؤں اپنے


تیرے رَستے کا جو کانٹا بھی ، میسر آئے

میں اسے شوق سے کالر پر سجاؤں اپنے


سوچتاهوں کہ بُجھا دوں میں یہ کمرےکا دِیا

اپنے سائےکو بھی کیوں ساتھ جگاؤں اپنے ؟


اُس کی تلوار نے وہ چال چلی هے انور

پاؤں کٹتے ہیں ، اگر ہاتھ بچاؤں اپنے


آخری بات مجھے یاد هے اُس کی انورؔ

جانے والے کو گلے سے  نہ  لگاؤں اپنے


( انور مسعود )

⭐⭐⭐⭐⭐

بے   نیازِ   غمِ   پیمانِ   وفا ،  هو   جانا
تم بھی اوروں کی طرح مجھ سےجُدا هو جانا

میں بھی پلکوں پہ سجا لُوں گا لہو کی بوندیں
تم  بھی  پا بستۂِ  زنجیرِ  حِنا  هو  جانا

گرچہ اب قرب کا امکاں هےبہت کم پھربھی
کہیں مِل جائیں ، تو تصویر نما هو جانا

صرف منزل کی طلب هو تو کہاں ممکن هے
دوسروں  کے لئے ، خُود  آبلہ پا  هو  جانا

خلق کی سَنگ زنی میری خطاؤں کا صِلہ
تم تو معصوم هو ،  تم  دُور  ذرا هو جانا

اب میرے واسطے تریاق هے الحاد کا زہر
تم کسی اور  پجاری  کے  خدا  هو  جانا

( احمد فراز )

⭐⭐⭐⭐⭐

میر تقی میر
(رئیس المتغزلین)

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

لگنے نہ دے بس ہو تو اس کے گوہر گوش کو بالے تک
اس کو فلک چشم مہ و خور کی پتلی کا تارا جانے ہے

آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے

عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے

چارہ گری بیماری دل کی رسم شہر حسن نہیں
ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارہ جانے ہے

کیا ہی شکار فریبی پر مغرور ہے وہ صیاد بچہ
طائر اڑتے ہوا میں سارے اپنے اساریٰ جانے ہے

مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے

کیا کیا فتنے سر پر اس کے لاتا ہے معشوق اپنا
جس بے دل بے تاب و تواں کو عشق کا مارا جانے ہے

رخنوں سے دیوار چمن کے منہ کو لے ہے چھپا یعنی
ان سوراخوں کے ٹک رہنے کو سو کا نظارہ جانے ہے

تشنۂ خوں ہے اپنا کتنا میرؔ بھی ناداں تلخی کش
دم دار آب تیغ کو اس کے آب گوارا جانے ہے

⭐⭐⭐⭐⭐

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے


مرزا غالب

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے 

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے 

ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر 

وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بدم نکلے 

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن 

بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے 

بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا 

اگر اس طرۂ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے 

مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے 

ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے 

ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی 

پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جام جم نکلے 

ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی 

وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے 

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا 

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے 

کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ 

پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

⭐⭐⭐⭐⭐

میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی

ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے دار پر ، جو نہیں کوئی تو ہم ہی سہی

سرِ طور  ہو ،  سرِ حشر  ہو ،  ہمیں  انتظار  قبول  ہے
وہ کبھی ملیں وہ کہیں ملیں وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

نہ ہو ان پہ میرا جو بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی

مجھے  بیٹھنے کی  جگہ ملے ، میری آرزو  کا بھرم  رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری انجمن سے قریں سہی

تیرا در  تو ہم کو نہ مل  سکا ، تیری رہگزر  کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی

میری زندگی کا نصیب ہے ، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے ، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی

جو  ہو  فیصلہ  وہ  سنائیے  ،  اسے  حشر  پہ  نہ اٹھائیے
جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ  ہزار  آنکھ  سے  دور  ہو  ،  وہ  ہزار  پردہ نشیں  سہی...!

نصیر الدین نصیر(گولڑہ شریف))


⭐⭐⭐⭐⭐


میں نعرۂ مستانہ میں شوخئ رندانہ 
میں تشنہ کہاں جاؤں پی کر بھی کہاں جانا 

میں طائر لاہوتی میں جوہر ملکوتی 
ناسوتی نے کب مجھ کو اس حال میں پہچانا 

میں سوز محبت ہوں میں ایک قیامت ہوں 
میں اشک ندامت ہوں میں گوہر یک دانہ 

کس یاد کا صحرا ہوں کس چشم کا دریا ہوں 
خود طور کا جلوہ ہوں ہے شکل کلیمانہ 

میں شمع فروزاں ہوں میں آتش لرزاں ہوں 
میں سوزش ہجراں ہوں میں منزل پروانہ 

میں حسن مجسم ہوں میں گیسوئے برہم ہوں 
میں پھول ہوں شبنم ہوں میں جلوۂ جانانہ 

میں واصفؔ بسمل ہوں میں رونق محفل ہوں 
اک ٹوٹا ہوا دل ہوں میں شہر میں ویرانہ 

واصف علی واصف

⭐⭐⭐⭐⭐


غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا

کسی طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کیا
مری وفا نے مجھے خوب شرمسار کیا

ہنسا ہنسا کے شب وصل اشک بار کیا
تسلیاں مجھے دے دے کے بے قرار کیا

یہ کس نے جلوہ ہمارے سر مزار کیا
کہ دل سے شور اٹھا ہائے بے قرار کیا

سنا ہے تیغ کو قاتل نے آب دار کیا
اگر یہ سچ ہے تو بے شبہ ہم پہ وار کیا

نہ آئے راہ پہ وہ عجز بے شمار کیا
شب وصال بھی میں نے تو انتظار کیا

تجھے تو وعدۂ دیدار ہم سے کرنا تھا
یہ کیا کیا کہ جہاں کو امیدوار کیا

یہ دل کو تاب کہاں ہے کہ ہو مآل اندیش
انہوں نے وعدہ کیا اس نے اعتبار کیا


داغ دہلوی

⭐⭐⭐⭐⭐

اُس کے نزدیک غمِ ترکِ وفا کچھ بھی نہیں
مطمئن ایسا ہے وہ جیسے کہ ہوا کچھ بھی نہیں

اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ہیں 
اُس کو کھو کر تو میرے پاس رہا کچھ بھی نہیں

کل بچھڑنا ہے تو پھر عہدِ وفا سوچ کے باندھ
ابھی آغازِ محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں

میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشہ نہ بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں

اے شمار آنکھیں اسی طرح بچھائے رکھنا
جانے کس وقت وہ آ جائے پتہ کچھ بھی نہیں

اختر شمار


⭐⭐⭐⭐⭐


کیوں صبا کی نہ ہو رفتار غلط 
گل غلط غنچے غلط خار غلط 

‏ایک دریا ہے بس اپنے رُخ پر
 ‏کشتیاں آر غلط۔۔۔۔ وار  غلط 

وہ بھی کچھ ضد پہ اُتر آئے ہیں
ہم بھی کچھ کرتے ہیں گفتار غلط

وقت الٹ دے نہ بساط ہستی 
چال ہم چلتے ہیں ہر بار غلط 

یہ غلط ہے کہ نہیں بولتا وہ یار غلط
مجھ سے ہر بات میں کہتا ہے وہ سو بار غلط

دل کے سودے میں کوئی سود نہیں 
جنس ہے خام خریدار غلط 

ہر طرف آگ لگی ہے باقیؔ 
مشورہ دیتی ہے دیوار غلط


باقی صدیقی


⭐⭐⭐⭐⭐


‏سلسلےتوڑ گیاوہ سبھی جاتےجاتے 
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے

شکوۂ ظلمت شب سےتو کہیں بہتر تھا 
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرناجاناں 
پھر بھی اک عمرلگی جان سےجاتےجاتے

اس کی وہ جانےاسےپاس وفا تھا کہ نہ تھا 
تم فرازؔ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے


احمد فراز
 


⭐⭐⭐⭐⭐


اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے 
مہتاب نہ سورج ، نہ اندھیرا نہ سویرا 
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن 
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا 
ممکن ہے کوئی وہم تھا ، ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا 
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید 
اب آکے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا 
اک بیر ، نہ اک مہر ، نہ اک ربط نہ رشتہ 
تیرا کوئی اپنا ، نہ پرایا کوئی میرا 
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے 
لیکن میرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے 

فیض احمد فیض


🔴🔵🔴🔵🔴



مانا کہ تیرے دل میں کوئی اور مکیں ہے
تو پھر بھی میرا دل ہے، عقیدہ ہے، یقیں ہے

یہ آئینے تجھے تیری خبر دے نہ سکیں گے
آ دیکھ میری آنکھ سے، تُو کتنا حسیں ہے

میں جبر کے سجدوں سے کہیں ٹوٹ نہ جاؤں
پتھر کے خداؤ ! میری شیشے کی جبیں ہے

پلکوں سے تراشا تھا کبھی ہم نے جو ہیرا
مت پوچھ اب وہ کس کی انگوٹھی کا نگیں ہے.

محسن نقوی


🔴🔵🔴🔵🔴

سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا سبھی راحتیں سبھی کلفتیں
کبھی صحبتیں کبھی فرقتیں کبھی دوریاں کبھی قربتیں

یہ سخن جو ہم نے رقم کیے یہ ہیں سب ورق تری یاد کے
کوئی لمحہ صبح وصال کا کوئی شام ہجر کی مدتیں

جو تمہاری مان لیں ناصحا تو رہے گا دامن دل میں کیا
نہ کسی عدو کی عداوتیں نہ کسی صنم کی مروتیں

چلو آؤ تم کو دکھائیں ہم جو بچا ہے مقتل شہر میں
یہ مزار اہل صفا کے ہیں یہ ہیں اہل صدق کی تربتیں

مری جان آج کا غم نہ کر کہ نہ جانے کاتب وقت نے
کسی اپنے کل میں بھی بھول کر کہیں لکھ رکھی ہوں مسرتیں

فیض احمد فیض 


🔴🔴🔴🔴🔴


مانا کہ تیرے دل میں کوئی اور مکیں ہے
تو پھر بھی میرا دل ہے، عقیدہ ہے، یقیں ہے

یہ آئینے تجھے تیری خبر دے نہ سکیں گے
آ دیکھ میری آنکھ سے، تُو کتنا حسیں ہے

میں جبر کے سجدوں سے کہیں ٹوٹ نہ جاؤں
پتھر کے خداؤ ! میری شیشے کی جبیں ہے

پلکوں سے تراشا تھا کبھی ہم نے جو ہیرا
مت پوچھ اب وہ کس کی انگوٹھی کا نگیں ہے.

محسن نقوی


🔴🔵🔴🔵🔴

واقف نہیں تم اپنی نگاہوں کے اثر سے
اس راز کو پوچھو کسی برباد نظر سے

اک اشک نکل آیا یے یوں دیدہ تر سے
جس طرح جنازہ کوئی نکلے بھرے گھر سے

رگ رگ میں عوض خون مے دوڑ رہی ہے
وہ دیکھ رہے ہیں مجھے مخمور نظر سے

اس طرح بسر ہوتے ہیں دن رات ہمارے
اک تازہ بلا آئی جو اک ٹل گئی سر سے

صحرا کو بہت ناز ہے ویرانی پہ اپنی
واقف نہیں شاید مرے اجڑے ہوئے گھر سے

مل جائیں ابد سے مرے اللہ یہ لمحے
وہ دیکھ رہے ہیں مجھے مانوس نظر سے

جائیں تو کہاں جائیں کھڑے سوچ رہے ہیں
اٹھنے کو خمارؔ اٹھ تو گئے ہم کسی در سے


خمارؔ بارہ بنکوی


⭕⭕⭕🔴⭕⭕⭕



آگ دامن میں لگ جائے گی، دل میں شعلہ مچل جائے گا
مرا ساغر نہ چھونا کبھی ساقیا، ہاتھ جل جائے گا

ایک دن وہ ضرور آئیں گے، درد کا سایہ ٹل جائے گا
اس زمانے کی پرواہ نہیں، یہ زمانہ بدل جائے گا

آ گیا مرا آنکھوں میں دم، اب تو جلوہ دکھا دیجئے
آپ کی بات رہ جائے گی، مرا ارماں نکل جائے گا

بے سبب ہم سے روٹھو نہ تم، یہ لڑائی بُری چیز ہے
صلح کر لو خدا کے لئے،یہ بُرا وقت ٹل جائے گا

مے کشو اُس نظر کی سنو، کہہ رہی ہے وہ شعلہ بدن
مے نہیں جام میں آگ ہے، جو پئے گا وہ جل جائے گا

کوئی آنسو نہیں آنکھ میں، بات گھر کی ابھی گھر میں ہے
تم جو یوں ہی ستاتے رہے، درد اشکوں میں ڈھل جائے گا

دور ہیں جب تلک تم سے ہم، کیسے ہو گا مداوا غم
ایک دفعہ تم ملو تو صنم، غم خوشی میں بدل جائے گا

گر یونہی گھر میں بیٹھا رہا، مار ڈالیں گی تنہایاں
چل ذرا میکدے میں چلیں اے فناؔ، دل بہل جائے گا...!

.فناؔ نظامی کانپوری


⭐⭐⭐⭐⭐

وہ اشعار جن کا ایک مصرعہ ضرب المثل کی حد تک مشہور ہوا اور دوسرا وقت کی دھول میں کہیں کھو گیا۔


ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام

بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

۔

خط ان کا بہت خوب' عبارت بہت اچھی

اللہ کر ے زورِ قلم اور زیادہ

۔

نزاکت بن نہیں سکتی حسینوں کے بنانے سے

خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے

۔

یہ راز تو کوئی راز نہیں ،سب اہلِ گلستان جانتے ہیں

ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا

۔

داورِ محشر میرا نامہ اعمال نہ کھول

اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

۔

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

۔

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کےخوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

۔

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو

خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

۔

غم و غصہ، رنج و اندوہ و حرماں

ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے

۔

مریضِ عشق پہ رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

۔

آخرگِل اپنی صرفِ میکدہ ہوئی

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
۔


بہت جی خوش ہواحالی سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

۔

نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے

۔

نہ گورِسکندر نہ ہی قبرِ دارا، 
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

۔

غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا

۔

جذبِ شوق سلامت ہے تو انشاءاللہ
کچے دھاگے سے چلیں آئیں گے سرکار بندھے

۔

قریب ہے یارو روزِمحشر، چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستین کا

۔

پھول تو دو دن بہارِجاں فزاں دکھلا گئے
حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

۔

کی میرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ

ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

۔

خوب پردہ ہے چلمن سے لگے بیٹھ ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں

۔

اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا

لڑتے بھی ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

۔

چل ساتھ کہ حسرت دلِ مرحوم سے نکلے

عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

  بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے

 ھوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے


⭕🔴⭕🔴⭕

دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا 
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا 

اب اسے لوگ سمجھتے ہیں گرفتار مرا 
سخت نادم ہے مجھے دام میں لانے والا 

صبح دم چھوڑ گیا نکہت گل کی صورت 
رات کو غنچۂ دل میں سمٹ آنے والا 

کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اس سے 
وہ جو اک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا 

تیرے ہوتے ہوئے آ جاتی تھی ساری دنیا 
آج تنہا ہوں تو کوئی نہیں آنے والا 

میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے 
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا 

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ 
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا 

احمد فراز

⭕♦⭕♦⭕

خوشی سے رنج کا بدلا یہاں نہیں ملتا 
     وہ مل گئے تو مجھے آسماں نہیں ملتا 

     ہزار ڈھونڈیئے اس کا نشاں نہیں ملتا 
     جبیں ملے تو ملے آستاں نہیں ملتا 

     مجاز اور حقیقت کچھ اور ہے یعنی 
     تری نگاہ سے تیرا بیاں نہیں ملتا 

      بھڑک کے شعلۂ گل تو ہی اب لگا دے آگ 
     کہ بجلیوں کو مرا آشیاں نہیں ملتا 

     تری تلاش کا فی الجملہ ماحصل یہ ہے 
     کہ تو یہاں نہیں ملتا وہاں نہیں ملتا 

     بتا اب اے جرسِ دور میں کدھر جاؤں 
     نشانِ گردِ رہِ کارواں نہیں ملتا 

✦✧مجھے بلا کے یہاں آپ چھپ گیا کوئی 
      وہ میہماں ہوں جسے میزباں نہیں ملتا

     تجھے خبر ہے ترے تیرِ بے پناہ کی خیر 
     بہت دنوں سے دلِ ناتواں نہیں ملتا
 
     کسی نے تجھ کو نہ جانا مگر یہ کم جانا 
     یہ راز ہے کہ کوئی رازداں نہیں ملتا 

     مجھے عزیز سہی قدر دل تمہیں کیوں ہو 
     کمی تو دل کی نہیں دل کہاں نہیں ملتا 

     دیارِ عمر میں اب قحطِ مہر ہے فانیؔ 
     کوئی اجل کے سوا مہرباں نہیں ملتا

     فانیؔ بدایونی


     ⭕⭕♦⭕⭕♦⭕⭕

اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے 

خواب ہو جاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے 

اب تو چہروں کے خد و خال بھی پہلے سے نہیں 

کس کو معلوم تھا تم اتنے بدل جاؤ گے 

اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھلا مت دینا 

سرخ شعلوں سے جو کھیلو گے تو جل جاؤ گے 

دے رہے ہیں تمہیں تو لوگ رفاقت کا فریب 

ان کی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاؤ گے 

اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو 

سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے 

خواب گاہوں سے نکلتے ہوئے ڈرتے کیوں ہو 

دھوپ اتنی تو نہیں ہے کہ پگھل جاؤ گے 

تیز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو 

بھیڑ میں سست چلو گے تو کچل جاؤ گے 

ہم سفر ڈھونڈو نہ رہبر کا سہارا چاہو 

ٹھوکریں کھاؤ گے تو خود ہی سنبھل جاؤ گے 

تم ہو اک زندۂ جاوید روایت کے چراغ 

تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جاؤ گے 

صبح صادق مجھے مطلوب ہے کس سے مانگوں 

تم تو بھولے ہو چراغوں سے بہل جاؤ گے 

اقبال عظیم

⭕⭕⭕⭕⭕

No Comment
Add Comment
comment url