زمیں کا حسن پودے ہیں
زمیں کا حسن پودے ہیں
تحریر
سکندر بیگ مرزا
کہا جاتا ہے کہ انسان کی موت حقیقت میں اس وقت واقع ہوتی ہے جب اسے کوئی آخری شخص آخری مرتبہ کہیں بیٹھ کر یاد کرتا ہے میرے ننھیالی گاوں موضع خورد ضلع جہلم سے تعلق رکھنے والے میرے عزیز نوجوان مرزا اکمل بیگ نے اپنے والد مرزا اسلم بیگ مرحوم کی یادوں کو تازہ رکھنے اور خلق خدا کے لئے ان کے جذبہ خیر سگالی کو آگے بڑھانے کے لئے مرزا اسلم بیگ فاونڈیشن قائم کر رکھی ہے جس کے زیر انتظام یوسی چوٹالہ کے ایریا میں دیگر فلاحی کاموں کے علاوہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں پھلدار اور سایہ دار پیڑ اگائے جاتے ہیں اس مرتبہ بھی موسم بہار کا آغاز ہوتے ہی فاونڈیشن کے اراکین نے دس ہزار سے زائد پودے گھروں میں تقسیم کرنے کے علاوہ سکولوں کالجوں ہسپتالوں قبرستانوں اور مختلف پبلک مقامات پر لگائے ہیں
مرزا اسلم بیگ مرحوم سابقہ فوجی تھے ان کا تعلق 37 پنجاب رجمنٹ سے تھا انہوں نے 1965اور 1971کی پاک بھارت جنگوں میں حصہ لیا وہ بنیادی طور پر ایک سپورٹس مین تھے ان کا شمار یونٹ کے بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا تھا تیراکی کشتی رانی اور باکسنگ میں وہ ارمی کے کلر ہولڈر تھے یونٹ کو ان کی کارکردگی پر ناز تھا وہ بھی آخری دم تک اپنی یونٹ سے گہری محبت کا دم بھرتے رہے وہ انتہائی مخلص ملنسار اور شاخسار آدمی تھے اپنی محنت دیانت لگن اور خوبصورت ڈیل ڈول اور جاذب نظر شخصیت کے باوصف ملازمت کے آخری دس سالوں تک مسجد الحرام مکہ شریف میں سیکورٹی افیسر کی خدمات پر مامور رہے جہاں ان کا رجحان مکمل طور پر مذہب کی طرف ہو گیا فاونڈیشن کے چیرمین مرزا اکمل بیگ نے ملک میں شجر کاری کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے عوام آگاہی پروگرام انتہائی منصوبہ بندی اور موثر انداز سے مکمل کیا اور اپنا ہدف کامیابی سے حاصل کیا ضلع کے ڈپٹی کمشنر میثم علی آغا اے سی جہلم کے علاوہ مختلف ضلعی افسران اور معززین علا قہ کو اس کار خیر میں شامل کیا نوابزا دی راحیلہ مہدی سینیئر صحافی اور سیاست دان محمود مرزا جہلمی مرزا نثار بیگ (ڈسٹرکٹ اکاونٹس آفیسر جہلم ) پروفیسر زاہد حسین ساہی پرنسپل گورنمنٹ کالج جی ٹی روڈ جہلم مرزا ظفر محمود سابقہ کونسلر موضع خورد مرزا سلیمان بیگ آف چنگس ماسٹر عبدالحمید جرال ماسٹر مرزا محمد خلیل مرزا آصف بیگ بابا شیر راجہ احسن رضا سنگھوئی ملک محفوظ صدر تنظیم نوجواناں مرزا قدر داد نمبردار اور دیگر معززین نے اپنے ہاتھوں سے پودے لگا کر فاونڈیشن کے اراکین کی حوصلہ افزائی کی قدرتی آفات اور بڑھتی ہوئی صنعتی ترقی نے ماحولیاتی آلودگی اور فضا میں موجود زہریلی گیسوں کی مقدار میں خطرناک حد تک اضافہ کر دیا ہے جس نے انسانی زندگی کی بقا کے لئے بڑے بڑے خطرات پیدا کر دئیے ہیں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر صورتحال بدستور خراب ہوتی رہی تو مستقبل میں دم کھینچنا بھی دشوار ہو جائے گا ان تیزی سے بڑھتے ہوئے حقیقی خطرات کا مقابلہ صرف سر سبز پودوں اور سر سبز وشاداب کھیت کھلیانوں کی مدد سے ہی ممکن ہے انہی خطرات کے پیش نظر رسول اللہ ص نے درختوں کی اہمیت پر بہت زیادہ زور دیا اور درخت اگانے کو صدقہ جاریہ قرار دیا رسالت ماب ص نے جنگوں کے دوران بھی اپنے کمانڈروں کو سر سبز و شاداب کھیتوں کھلیانو ں اور ہرے بھرے درختوں کو کاٹنے سے منع فرمایا زمین پر انسان کے سب سے بڑے غمخوا ر اور مخلص دوست درخت ہی ہوتے ہیں ان کے بغیر کراہ ارض پر زندگی کا تصور کرنا بھی محال ہے یہ جانداروں کو پھل فروٹ اور سایہ دینے کے علاوہ ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائڈ گیس جذب کرتے ہیں اور زمین پر زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لئے بڑی مقدار میں آکسیجن خارج کرتے ہیں پاکستان جیسے گرم مرطوب ملکوں میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو معمول پر رکھنے کے لئے پودوں کی افزائش انتہائی ضروری ہے اپنے شہریوں کو سیلابوں اور زمینی کٹاو سے محفوظ رکھنے کے لئے درختوں کا کلیدی رول ہوتا ہے ایندھن کے علاوہ عمارتی لکڑی اور فرنیچر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اشجار سب سے بڑا ذریعہ ہیں ان کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر سرکار کو جنگی بنیادوں پر (War footings basis) شجر کاری کی مہمات میں اضافہ کرنا چاہیے اس طرح فضائی اور ماحولیاتی آلودگی کو کم کر کے سانس اور پھیپھڑوں کی روز افزوں بیماریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے علاوہ ازیں درختوں کے ان گنت فوائد ہیں یہ مختصر کالم جس کا متحمل نہیں ہو سکتا بد قسمتی سے پاکستان میں جہالت اور پسماندگی کے باعث درخت اگانے کی بجائے درختوں کو کاٹنے کا رجحان زیادہ ہے یہاں وسائل کو بروے کار لانے کی بجاے بے قدرتی وسائل کو بے دریغ ضائع کیا جاتا ہے حالانکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہیے بے شمار سرکاری اراضی اور شاہراہوں کے اطراف میں میلوں کے حساب سے رقبے بنجر پڑے ہیں جنہیں درخت اگا کر بے روزگاری کو بھی کم کیا جا سکتا ہے ہرے بھرے درختوں کا شمار بھی لائیوسٹاک میں ہوتا ہے گو کہ یہ نقل و حرکت نہیں کر سکتے البتہ ان کے بیج آندھیوں اور تیز ہواوں کی مدد سے دور دراز ایریاز میں منتقل ہوتے رہتے ہیں پودوں کو سب سے زیادہ خطرہ بھیڑ بکریوں اور جانوروں کے علاوہ خود شقی القلب انسانوں سے ہوتا ہے جو تیز دھار کلہاڑیاں ہاتھوں میں لئے جنگلوں میں گھس جاتے ہیں میں نے دیکھا ہے رکھ پبی کھاریاں میں کشمیر سے آئے ہوئے بکروال اور خانہ بدوش پٹھان پھلتے پھولتے درختوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں انہوں نے بھیڑ بکریوں کے بڑے بڑے ریوڑ پال رکھے ہیں جو ہر سال نئے اور پرانے اگنے والے پودوں کو نیست و نابود کر دیتے ہیں پیڑوں کی بربادی میں مافیا کے ساتھ ساتھ محکمہ جنگلات کے ملازمین بھی ملوث ہوتے ہیں سرکار کی طرف سے ہر سال شجر کاری مہم شروع کرنے کے باوجود عدم نگہداشت اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے پودے مرجھا کر سوکھ جاتے ہیں اس لئے شجر کاری کے بعد اگلا مرحلہ ضروری حفاظت کا ہوتا ہے حفاظت کے بغیر درختوں سے حقیقی ثمرات اور فوائد سمیٹنا ممکن نہیں ہوتا ۔۔
بقول اقبال کوثر ۔۔۔۔
پودا لگا دیا ہے تو اس میں نمو بھی لا
میرا بھی دل نچوڑ دے اپنا لہو بھی لا
مل کر بنائیے کوئی تصویر۔ زندگی !
کچھ نقش میں بھی دوں اسے کچھ رنگ تو بھی لا ۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆