جناب ِوزیر اعظم اُوووو
احمد خان لغاری
کوہ سلیمان سے
گذشتہ روز ایک ریٹائرڈ دوست نے فون کیا اور کہا کہ وزیر اعظم پاکستان نے اپنے دورہ جاپان کے موقع پر صنعتی ملازمین کا احتجاج دیکھا جو انہوں نے پاکستانی قوم کو سمجھا تے ہوئے بانفس نفیس کرکے دکھایا اور اپنی قوم کو سمجھایا کہ یہ بھی احتجاج کا ایک طریقہ ہے اور قومیں اسطرح بنتی ہیں۔ میرے اس بزرگ دوست کا مقصد اور مدعا یہ تھا کہ آپ بھی اس اہم مسئلہ پر قلم اٹھائیں اور اپنا فریضہ پورا کریں۔ چونکہ اس احتجاجی انداز کا چارسو چرچا ہے اور لوگ اسے پسند کررہے ہیں۔ لہذا جتنا مجھ سے ہوسکتا ہے میں بھی احتجاجی اوووو میں شامل ہوکر ان لوگوں کو بتا سکوں اور پسماندہ طبقہ کو سنا سکوں کہ جناب دراصل احتجاج اسطرح ہوتا ہے، سیاسی جماعتیں ہوں یا سرکاری ملازمین کی تنظیمیں اگر احتجاج کرنا چاہیں تو یہی انداز اپنائیں تاکہ دنیا میں نام بھی پیدا ہو اور مطالبات تسلیم ہونے کے بھی امکانات بڑھ جائیں۔ ہم اپنے مسائل کہاں سے شروع کریں اور کہاں ختم کریں، مسائل ہی مسائل ہیں جو ازل سے حل طلب ہیں، سیاسی جماعتیں ہوں یا سرکاری ملازمین جب تک کھل کر اظہار نہ کریں انہیں بھی مزا نہیں رہیں لہذا ہماری بھی عادت بن چکی ہے کہ ہمارے لوگوں نے ڈی چوک کے علاوہ کہیں احتجاج نہیں کرنا اور صوبائی سکریٹریٹ کے سامنے کیمپ نہ لگائیں تو پھر احتجاج کیسا؟ محض اُوووو سے ہمارے مسائل حل نہیں ہونگے۔ تمام دوستوں کیلئے باالخصوص اپنے بزرگ ریٹائرڈ ملازمین ہر سال اپنی پنشن میں اضافہ کیلئے دیگر سرکاری مالزمین کے ساتھ ملکر احتجاج میں شرکت کرتے ہیں لیکن سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں خاصہ اضافہ کردیا جاتاہے اور ریٹائرڈ ملازمیں کو معمولی اضافے پر ٹرخادیا جاتا ہے، اب انہیں گھر بیٹھ جانا چاہیے یا پھر کسی جگہ پر بوڑھے مل کر اُووو، اُووو کرتے رہیں یا پھر اس دم کے بڑے بڑے بورڈ آویزاں کریں جو ہر شہر کے چو ک چوراہے پر لگادیے جائیں تاکہ ہمارے منتخب نمائندے وہاں سے گذریں تو کسی قسم کے نعرے ان کی طبعیت پر ناگوار نہ گذرے بلکہ انہیں بھلا محسوس ہوا، ریٹائر ڈ سرکاری ملازمین کئی سالوں سے گروپ انشورنس کی رقوم کا مطالبہ کر رہے ہیں، اعلی عدالتوں نے طے بھی کر دیا، کئی صوبے مبینہ طورپر عملدرآمد بھی کررہے ہیں لیکن ریٹائرڈ لوگوں اور پنشنر کو مجموعی طور پر کچھ نہیں ملا، لہذا ُوووو تو بنتا ہے۔ اسکے برعکس وزیر اعظم پاکستان نے آفس کے ملازمین کی اضافی تنخواہوں کا اعلان کیا، ایم پی اے اور منتخب نمائندوں کی تنخواہوں میں پانچ سو فیصد د تنخواہوں کا اضافہ کردیا گیا۔ اور سب دیکھتے رہ گئے جو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں وہ بس! اُوووو، اُوووو کرتے رہیں
ضرور شفایاب ہونگے۔ جوڈیشل الاؤنس کے نام پر عدالتی اہلکاروں کی تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ کیا گیا، جج صاحبان کی تنخواہوں اور پنشن کے تفاوت کا بھی خاتمہ کر دیا گیا، اُوووو، اُوووو، اُووو۔ افسر شاہی کے اللے تللے ان کے پیٹرول کے اخراجات، ٹی اے ڈی اے دیکھیں تو ان کے ماتحت کام کرنے والے چھوٹے ملازمین، نائب قاصد، چوکیدار اور جونیئر کلرک یہ سب کچھ بڑے قریب سے دیکھتے ہیں اور کلرکس ایسوسی ایشنز کو اپنے کمروں میں بیٹھ کر اُوووو کے علاوہ کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ قارئین کرام! اسلام آباد کی مہنگی زمینوں کی الاٹمنٹ سستے داموں اپنے من پسند لوگوں کو الاٹ کر دی جاتی ہے وہ اس پر ہسپتال بنائیں تاکہ عام آدمی اعتراض نہ کرسکے، بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی اسلام آباد کلب جو 224ایکڑ سرکاری زمین پر ہے اس کا ریٹ صرف ایک روپے فی ایکڑ سالانہ مقرر ہوئی تو ادھر اُدھر سے اُووو، اُووو کی آوازیں آنے لگیں، شور بڑھا تو قیمت بڑھا کر گیارہ روپے فی ایکڑ طے کردی گئی۔ جوڈیشل الاؤنس کے اضافے ہوں یا دیگر نواز شات جو حکومت اپنی مرضی اور من پسند لوگوں کو دیکر مخصوص مقاصد کیلئے نواز نا چاہتی ہے تو وہ آئی ایم ایف سے قرض لیتی ہے اور ان کا سوداداکرنے کیلئے پھر قرض لیتی ہے تاکہ ان کا سودادا ہوسکے۔ 23فیصد شرح سود پر قرض لیے جاتے ہیں تاکہ عدالتی عہدے اور بیوروکریسی سے اپنی مرضی کے فیصلے لے سکیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پیارے پاکستان میں ہر سیاسی جماعت ایک دوسرے سے ناراض ہے، مذہبی جماعتوں کا ایجنڈا اپنا ہے بلکہ غیروں کو اپنے کندھے دیکر استعمال ہورہے ہیں۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کے مقبول رہنما ایک عرصہ سے جیل میں بند ہیں، دوسرے اور تیسرے درجہ کی قیادت بھی پس زنداں ہیں، سرکاری ملازمین،پنشنرز اپنے مطالبات کا ڈھول پیٹ رہے ہیں، کاشت کار، دکاندار سب ڈوبتی معیشت سے بیزار نظر آتے ہیں، مزدور طبقہ دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وزیر اعظم پاکستان کو جاپان میں باقی چیزیں بھی نظر آتیں جو ملک میں ترقی کا باعث بنتی ہیں تو پھر محترم وزیر اعظم انتظار کریں جب امیر طبقہ کو اسی طرح نوازا جاتا رہے گا، غریب، غریب تر ہوگا، محنت کش، مزدار کسان کو معاوضہ نہیں ملے گا، چھوٹے ملازمین پس کر رہ جائیں گے، ریٹائر ڈ لوگ اور پنشنر حضرات فاقہ کش ہوں گے تو پورے پاکستان کے ہر صوبے ہر شہر اور ہر گلی محلے کے چوک چوراہوں پر مظلوم طبقے کی اس آواز سے پورا ملک جاگ جائے گا۔ اُوووو، اُوووو، اُوووو!