Visit Our Official Web عالمی بساط اور پاکستان کی جمہوریت کی سیاست Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

عالمی بساط اور پاکستان کی جمہوریت کی سیاست


 افضال گل

میں نے اپنی سابقہ تمام تحریروں میں پوری دنیا کو یرغمال اور غلام بنانے کیلئے ابتک جو چالیں چلی گئیں ان کا ذکر اپنے انداز میں کر چکا ہوں۔اور اپنی تحریروں میں کچھ آنے والے وقت کے حوالے سے بھی پیشگی اقدامات کا کہہ چکا ہوں۔

آج کافی دنوں بلکہ مہینوں کے بعد لکھنے لگا ہوں۔میں اپنے اندر ہی اندر ایک جنگ لڑ رہا تھا کہ لکھوں یا نا لکھوں۔اس بے حسی اور امت مسلمہ کی بے بسی یا جان بوجھ کر اندھے ہونے کا ناٹک کرتے ہوئے حکمرانوں کو دیکھ کر بلکل ٹوٹ گیا تھا۔

فلسطینیوں کے قتلِ عام پر ہمارے لیڈروں کی خاموشی اور دشمنوں کی چالوں میں آ جانے والی میرے ملک کی قوم کو دیکھ کر سکتے میں چلے جانے والی کیفیت بن گئی تھی۔ایک کے بعد ایک صدمہ مل رہا تھا۔پہلے حماس کے رہنما کی شہادت اور پھر حزب اللّٰہ کے رہنما اور اس کے بعد پے در پے شہادتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔اسرائیل فلسطین کے بعد لبنان اور پھر شام یمن پر حملہ آور ہو گیا۔اس سارے ظلم کو دیکھنے کیلئے باقی مسلم ممالک کبھی کبھی اکھٹے بیٹھتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔

میں لطف اندوز ہی کہہ سکتا ہوں۔کیونکہ اگر ان کو درد ہو رہا ہوتا تو اب تک کم از کم سرکاری سطح پر اسرائیلی پراڈکٹ کا ہی بائکاٹ کر چکے ہوتے۔

کیا بات موضوع سے دور چلی گئی؟

نہیں بلکہ موضوع بھی بساط ہی ہے۔اور یہ سب اسی بساط کے تحت ہی ہو رہا ہے۔اسرائیل کے پہلے وزیراعظم نے دنیا میں اگر کسی سے خطرہ ہے تو پاکستان کا نام ہی کیوں لیا تھا؟

کیونکہ ان دونوں ممالک کے وجود میں آنے کا مقصد ہی واضح ثبوت ہے۔ایک ملک اللّٰہ تعالیٰ کے قانون کو نافذ کرنے اور دوسرا اللّٰہ تعالیٰ کے وجود سے انکاری کرنے والوں اور شیطان کے پجاریوں کے نام پر بنا۔

یہودی اسلام کے آنے سے بہت پہلے سے اس دنیا میں رہ رہے ہیں۔اور انہوں نے ہمیشہ سے ہی اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات کے منافی کام کئے ہیں۔اور ہمیشہ سے سرکش فسادی اور خود کو عقل کل سمجھتے رہے ہیں۔اب بھی ان کی یہی سوچ ہے کہ یہودی سب سے بہتر اور افضل ہیں۔جو بھی ان کی رہ میں رکاوٹ بنا یا جس نے ان کو سرکشی سے روکنے کی کوشش کی،

یہ اس کی جان کے دشمن بن گئے۔چاہے وہ اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے بھیجا گیا نبی یا رسول ہی کیوں نا ہو۔

دنیا کے جس کونے سے یہودیوں کو بے دخل کیا گیا۔انہیں زبردستی پھر وہاں ہی کیوں لا کر بسایا گیا؟

یہودی پوری دنیا میں رسوا ہوتے رہے۔قتل ہوتے رہے اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہمیں اگر کہیں کوئی محفوظ پناہ مل سکتی ہے تو وہ مسلمانوں کے پاس ہے۔انہوں نے اسلام کو امن کا درس دیتا ہے۔اسلام قتل عام اور زور بازو پر پھیلایا جا رہا ہے،

کے سفر کو مسلمان دہشتگردوں کو پیدا اور پناہ دیتے ہیں پر آ کر روکا۔اور ہم نے آج تک کی نسل نے اس سبق کو سنا اور یاد کر لیا۔اور اسی کو دہرانے لگے۔اوپر سے ہمارے اوپر حکمران بھی ایسے مسلط کئے گئے۔جو ان کی زبان بولتے اور انہی کی کٹھ پُتلی بنے رہے۔اس بساط کے تحت امت مسلمہ کو ان کی حقیقت سے دور کیا گیا اور وہ سب کچھ دکھا کر سوچ کو اس حد تک پہنچایا کہ ہم نے ان کو امن کے داعی اور دنیا کی سپر پاور سمجھنے لگے۔

ہمارے حکمرانوں اور اس بساط کے مہروں نے ہمارے بزرگوں اور اب تک کہ ہماری نسل تک کو یہ بات یاد کروا دی ہے۔اس بساط کے مہروں نے ہمیں آہستہ آہستہ یہاں تک پہنچایا۔آج ہم دوسرے ممالک کو قرض دیتے دیتے لینے پر مجبور کر دیا۔اس بساط کے سب سے اہم مہرے نے تھوڑے وقت میں زیادہ نقصان پہنچایا۔وہ مہرہ آج کل انٹرنیشنل لیول پر ذکر کیا جاتا ہے۔

اس بساط کے مہروں نے ہمیں یہ تک باور کروا دیا کہ اب قومی ادارے پراویٹائز کرنا بہت ضروری ہو چکے ہیں۔

جس کو ملک کی اہم اور مشکل کڑی کہا جا رہا ہے۔جس کے تحت عوام کو اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ دو وقت کے بلوں نے برا حال کر دیا ہے۔

امت کو کئی دھڑوں میں تقسیم کرنے کے بعد،اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ وہ حق اور ظلم کے درمیان فیصلہ نہیں کر پا رہے۔

سانحہ سقوط ڈھاکہ کے بعد کئے کرداروں نے اس ملک کے ساتھ ایسا سانحہ کرنے کا سوچا اور کوششیں بھی ہوتی رہیں۔

بی ، ایل ، اے اور اس جیسی سوچ اور کام کرنے والی کئی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔جو ہر وقت اپنا کام کسی نا صورت یا بہانے سے کرتے رہتے ہیں۔ہماری عوام کو اس حد تک تقسیم کر دیا گیا۔ کہ آج ہمیں ن لیگ ، پی ٹی آئی یا تحریک لبیک یا کسی جماعت کے بندے قتل ہوں تکلیف نہیں ہوتی۔

اس بساط کے تحت ہمیں اتنا تقسیم کر دیا گیا کہ آج ہم فلسطین شام لبنان یمن عراق کی تباہی پر خاموش ہیں۔

اس بساط کے تحت صرف امت مسلمہ کے ان ممالک کو تنہا کیا گیا۔جو اس سامراجی قوتوں کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں۔

پاکستان ایٹمی طاقت بننے کے بعد اس بساط کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ بنا۔اور افواج پاکستان اپنی دلیری ،حب وطنی اور جذبہ شہادت کے ساتھ اس بساط کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئی۔ذولفقار بھٹو ، جنرل ایوب خان کو ٹارگٹ کرنے کے باوجود بھی پاک فوج نے اپنے ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے اپنا کام نا صرف جاری رکھا۔بلکہ بہت سے ایسے اقدامات اٹھانے پڑے کہ جو نا کرنے والے تھے۔جیسے کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب کو نظر بند کرنا پڑا۔

اگر بغور جائزہ لیں تو اس وقت امریکہ پر اسرائیلی قبضہ ہے۔اس نئی بننے والی امریکی حکومت میں بھی اکثریت یہود نواز اور مسلمان دشمن ہے۔

مگر اس سازش کو دیکھنے والے اور سمجھنے والے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس عالمی بساط کو توڑنے اور دنیا پر اللّٰہ تعالیٰ کا قانون لانے کیلئے بھی یقیناً کوششیں جاری ہیں۔ایک طرف تو دشمن اپنی بساط کے تحت کامیاب نظر آ رہا ہے۔مگر میرا یقین اللّٰہ تعالیٰ پر ہے۔جو کہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا اور جاننے والا ہے۔اس عالمی بساط کے تحت ایسے کردار بھی آئے جو چند دنوں میں عالمی شہرت حاصل کرنے میں کامیاب یوئے۔اور اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں پھر ڈبل ذلیل کیا۔اور بہت سے ایسے کردار بھی آئے جو تھوڑے وقت کیلئے ہی سہی مگر عزت کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔اس دنیا کے سارے میڈیا اور سوشل میڈیا مل کر بھی ان کو رسوا نا کر سکے۔

ہمیں بطور پاکستانی یا مسلمان اس بات کو سامنے رکھنا چاہیے کہ اس وقت ہمیں ایک قوم بننے کی ضرورت ہے۔ہمیں ایک منزل کا تعین کرنے کی ضرورت ہے۔ہماری منزل مسجد اقصیٰ اور دنیا سے ظلم کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

مگر اس کیلئے ہمیں ایک ایسے لیڈر یا رہبر کی ضرورت ہے۔جو نا صرف اسلام کو جانتا سمجھتا ہو۔بلکہ وہ اس قدر نڈر بھی ہو کہ عالم کفر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ہمت نا رکھتا ہو۔اور یقیناً ایسا لیڈر سامنے آئے گا۔یا وہ سامنے ہے اور ہم نہیں دیکھ پا رہے۔

کیونکہ اس عالم کفر کی بچھائی گئی بساط کے مقابلے میں اللّٰہ تعالیٰ نے بھی اپنی بساط بچھا رکھی ہے۔جس بساط کے کردار مشرق سے نکلیں گے۔اور پوری دنیا میں اسلام کا پرچم بلند کریں گے۔

یہ وہ لشکر ہوگا جو دنیا کا سب سے بہترین لشکر ہوگا۔اور اس میں شامل ہونے والے سب جنتی ہوں گے۔ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب قلب و جان جہاں صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے بعد دو لشکروں کا ذکر کیا۔جن کی قیادت کرنے والے اور اس میں شامل ہونے والے دنیا کے سب سے بہتر انسان ہوں گے۔ایک لشکر گزر چکا ہے۔جس لشکر نے قسطنطنیہ کو فتح کیا۔اور دوسرا لشکر پوری دنیا کو فتح کرے گا۔

ہمیں ضرورت صرف اپنا قبلہ درست کرنے کی ہے۔ہمیں ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم دیکھیں کہ اس وقت اس ملک کیلئے کون جان دے رہا ہے۔اور ملک کو کون تباہ کر رہا ہے۔

اس ملک سے اس وقت دنیا کے ہر دکھی مسلمان کو امیدیں ہیں۔مگر کچھ عالم کفر کے مہرے اس ملک کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ہمیں ان کرداروں کو ان کے منطقی انجام تک لیکر جانا ہے۔ہمیں ضرورت ہے کہ ہم متحد ہو کر افواج پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جائیں۔یہ جنگ افواج پاکستان اور اس ملک کی غیرت مند عوام نے لڑنی ہے۔چور ڈاکو قاتل قبضہ مافیا توشہ خانہ لوٹنے والوں نے صرف اپنے مفادات کا سوچنا ہے۔

نا ان کو اسلام سے کوئی مطلب ہے اور نا ہی انہیں پاکستان سے کوئی غرض ہے۔

اللّٰہ تعالیٰ اس ملک کو وہ ملک بنائے۔جس کی خاطر دنیا کی سب سے بڑی ہجرت اور جان مال ہر طرح کی قربانیاں دے کر بنایا گیا۔آمین

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url