ڈیرہ غازیخان۔کینسرہسپتال کی ضرورت اور سیاسی اشرافیہ
(آخری حصہ)
احمد خان لغاری
کوہ سلمان سے
ڈیرہ غازی خان کیاہم مسائل ایئرپورٹ کی بحالی, ریلوے نظام کی بحالی کے ساتھ شمالی و جنوبی بائی پاس انڈس ہائی وے دو رویہ کی تکمیل اپنی جگہ اہم, ملتان سے کوئٹہ تک موٹروے بھی اہم مطالبہ ہے لیکن بدقسمتی سے سیاسی اشرافیہ محض خاموش تماشائی نظر آتی ہے سوائے شہر کے ایم پی ایم حمدحنیف خان پتافی واحد ایم پی اے ہیں۔جو عوامی سطح پر مقبولیت عام رکھتے ہیں لیکن گزشتہ عام انتخابات میں مقبولیت کی بنا پر نہیں بلکہ ''قبولیت'' کے فارمولے کے تحت فارم 47 تھامے ہوئے عام آدمی کے دکھ درد میں شریک ہیں۔ اور ہر عوامی مطالبے پر پیش پیش ہوتے ہیں اس وقت ڈیرہ غازی خان کا اہم مسئلہ کینسر کا پھیلاؤ ہے جو دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ اور اموات میں اضافہ ہو رہا ہے، مہنگے علاج کے باعث غریب آدمی بے بس نظر آتا ہے تاہم اہل ثروت اگر اس موزی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، تو ملتان لاہور یا کراچی کا سفر کرتے ہیں۔اور وہ شفایاب بھی ہوتے ہیں۔ کینسر جیسا مرض پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ لیکن انتہائی تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے جن علاقوں میں یہ عفریہیں۔منے کھڑا ہے ان میں جنوبی پنجاب، بلوچستان اور سندھ کے علاقے شامل ہیں۔ جہاں تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کینسر پر تحقیق کی بین الاقوامی ایجنسی (IARC) نے پیش گوئی کی ہے کہ دنیا بھر میں کینسر کے 19.3ملین نئے کیس اور 10 ملین کینسر سے اموات ہو سکتی ہیں۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق 2008 میں پاکستان میں کینسر کے ایک لاکھ 73ہزار937 کیس رپورٹ ہوئے۔ اور ان کیسز سے ایک لاکھ 18442 اموات واقع ہوئیں۔ایک رپورٹ کے مطابق ڈیرہ غازی خان میں 2015 کے دوران صرف 68 افراد لقمہ اجل بنے لیکن 2020 تک اموات کی تعداد 116 تک پہنچ گئی۔دسمبر 2021 میں کینسر کے مریضوں کی تعداد 157 تھی جو کہ اب کہیں زیادہ تعداد بڑھ چکی ہے۔ ایسے مریض صحت یاب بھی ہوئے ہیں جو ابتدائی سٹیج پر تھے۔ ایک تحقیق کے مطابق ڈیرہ غازی خان کی تین تحصیلوں ڈیرہ غازی خان، تونسہ اور تحصیل کو سلیمان میں 817 مریضوں میں سے 415 کا تعلق کوہ سلیمان سے ہے جن میں مبینہ طور پر 350 خواتین شامل ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کے شہری علاقوں میں خواتین میں بریسٹ کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے۔ بریسٹ کینسر کے علاوہ چھاتی خون جگر گلے اور پیٹ کے کینسر زیادہ پائے گئے ہیں۔
علاوہ ازیں مریضوں کی ایسی تعداد بھی ہے جو کوئی علاج نہیں کر رہے بلکہ دم درود پر توجہ دیے ہوئے ہیں اور موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ مثانہ کے کینسر کی ایک کثیر تعداد اس مرض میں مبتلا ہے۔ جو کہ علاج کرا سکتے ہیں وہ صحت یاب ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں پراسٹیٹ کے مریضوں کی بھی ایک خاصی تعداد اور یہ بڑی عام ہے قابل علاج ہے لیکن مہنگا علاج ہونے کے وجہ سے گھروں میں بستر علالت پر ایڑیاں رگڑ رہے ہیں ایسے مریضوں کا کہیں اندراج نہیں ہے اور ایسے کئی مریض وفات پا چکے ہیں جو ہسپتالوں میں بھی نہیں پہنچ سکتے ڈیرہ غازی خان میں پرائیویٹ ہسپتالوں کی بھرمار ہے۔ لیکن اس بیماری کے مریض کا کوئی علاج نہیں ہے۔ یہاں اٹامک انرجی کمیشن ہے اور اس کے قوانین کے مطابق وہ جہاں بھی اپنا پروجیکٹ شروع کرتے ہیں تو مقامی لوگوں کے لیے ایک ہسپتال بنانے کا پابند ہے۔ یہاں بھی ایک اچھا ہسپتال تعمیر کے مراحل طے کر چکا ہے۔ تاہم وہ باقاعدگی سے تاحال کام شروع نہیں کر سکا یہ بہت اچھا موقع ہو سکتا ہے کہ وہ اس ہسپتال میں کینسر کے علاج کے لیے مقامی مریضوں کو تمام سہولتیں فراہم کریں اور وفاقی حکومت کے پاس تمام اختیارات ہیں کہ وہ اس ہسپتال کے لیے ذریعے مقامی لوگوں کو کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے اور بلوچستان میں رہنے والے لوگوں کی خدمت کر سکتی ہے۔ علاج معالجے کے ساتھ محکمہ صحت کے وفاقی اور صوبائی اداروں کو کینسر کے پھیلاؤ کی وجوہات پر غور و خوص کرنا چاہیے عام آدمی یہ رائے رکھتا ہے کہ ڈیرہ غازی خان کا زیر زمین پانی انتہائی آلودہ ہے اور بھاری مقدار میں آرسینک پائی جاتی ہے۔ اور یہی پانی انسانی زندگی کا اہم جز ہے۔غیر معیاری گھی کی فروخت عام ہے اور پھر دودھ ناخالص ہے، ضروری ہے ایسے حالات کے پیش نظر خواتین کی چھاتی کے کینسر کی ابتدائی تشخیص کے لیے میموگرافی کا ٹیسٹ بہت اہم ہے۔اسی طرح پراسٹیٹ کے ٹیسٹ مردوں کو خاص 40 سال کے بعد ہر چھ ماہ بعد کرانے چاہیے۔
علاوہ ازیں مریضوں کی ایسی تعداد بھی ہے جو کوئی علاج نہیں کر رہے بلکہ دم درود پر توجہ دیے ہوئے ہیں اور موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ مثانہ کے کینسر کی ایک کثیر تعداد اس مرض میں مبتلا ہے۔ جو کہ علاج کرا سکتے ہیں وہ صحت یاب ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں پراسٹیٹ کے مریضوں کی بھی ایک خاصی تعداد اور یہ بڑی عام ہے قابل علاج ہے لیکن مہنگا علاج ہونے کے وجہ سے گھروں میں بستر علالت پر ایڑیاں رگڑ رہے ہیں ایسے مریضوں کا کہیں اندراج نہیں ہے اور ایسے کئی مریض وفات پا چکے ہیں جو ہسپتالوں میں بھی نہیں پہنچ سکتے ڈیرہ غازی خان میں پرائیویٹ ہسپتالوں کی بھرمار ہے۔ لیکن اس بیماری کے مریض کا کوئی علاج نہیں ہے۔ یہاں اٹامک انرجی کمیشن ہے اور اس کے قوانین کے مطابق وہ جہاں بھی اپنا پروجیکٹ شروع کرتے ہیں تو مقامی لوگوں کے لیے ایک ہسپتال بنانے کا پابند ہے۔ یہاں بھی ایک اچھا ہسپتال تعمیر کے مراحل طے کر چکا ہے۔ تاہم وہ باقاعدگی سے تاحال کام شروع نہیں کر سکا یہ بہت اچھا موقع ہو سکتا ہے کہ وہ اس ہسپتال میں کینسر کے علاج کے لیے مقامی مریضوں کو تمام سہولتیں فراہم کریں اور وفاقی حکومت کے پاس تمام اختیارات ہیں کہ وہ اس ہسپتال کے لیے ذریعے مقامی لوگوں کو کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے اور بلوچستان میں رہنے والے لوگوں کی خدمت کر سکتی ہے۔ علاج معالجے کے ساتھ محکمہ صحت کے وفاقی اور صوبائی اداروں کو کینسر کے پھیلاؤ کی وجوہات پر غور و خوص کرنا چاہیے عام آدمی یہ رائے رکھتا ہے کہ ڈیرہ غازی خان کا زیر زمین پانی انتہائی آلودہ ہے اور بھاری مقدار میں آرسینک پائی جاتی ہے۔ اور یہی پانی انسانی زندگی کا اہم جز ہے۔غیر معیاری گھی کی فروخت عام ہے اور پھر دودھ ناخالص ہے، ضروری ہے ایسے حالات کے پیش نظر خواتین کی چھاتی کے کینسر کی ابتدائی تشخیص کے لیے میموگرافی کا ٹیسٹ بہت اہم ہے۔اسی طرح پراسٹیٹ کے ٹیسٹ مردوں کو خاص 40 سال کے بعد ہر چھ ماہ بعد کرانے چاہیے۔
ملتان کے ہسپتال مینار میں ان تمام علاقوں کے 70 فیصد لوگ رپورٹ ہوتے ہیں۔ آج بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے اٹامک انرجی کے زیر تکمیل ہسپتال میں تمام ضروری ٹیسٹ ریڈیو تھراپی وغیرہ کی سہولیات مہیا ہو سکتی ہیں۔ راقم الحروف کو لکھنے میں کوئیعارنہیں کہ سنجیدگی سے اگر کوئی سوچ رہا ہے۔اور کام کرنے کا جو جذبہ رکھتا ہے وہ مقامی ایم پی اے حنیف خان پتافی ہیں اور وہ کر بھی رہے ہیں۔قبل ازیں وہ اپنا ہسپتال بھی عوامی فلاح کے لیے تعمیر کر چکے ہیں وہ ایسے مریضوں کے لیے بھی اسی ہسپتال میں علاج کے لیے سوچیں گے اسی طرح غازی میڈیکل کالج محکمہ ہیلتھ باہمی تعاون سے مشکلات سے چھٹکاراحاصل کرسکتے ہیں۔ ہماری سیاسی اشرافیہ کے سالار اور لغاری خاندان کے ٹیلنٹڈ چشم و چراغ۔ اگر تھوڑی سی توجہ فرمائیں اور دلی طور پر کاوش کریں تو ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اللہ انہیں اجر عطا فرمائیگا۔ اور وہ سنجیدہ ہو گئے تو تمام مشکلات دنوں میں آسان ہو جائیں گے۔ اتنا بڑا اقتدار کبھی عطا ہوتا ہے عالمی سطح پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور مستند این جی اوز کو مل کر وجوہات تلاش کریں۔تو سب سے پہلے پینے کا پانی آئے گا جو وجہ بن سکتا ہے پانی کی الودگی کے ساتھ صنعتی فضلہ بھی کیمیکلز، کھاد، سپرے غیر معیاری اشیاء خرد نوش تیل مصالحہ جات تمباکو نوشی پان گٹکا اور دیگر نشہ اور ادویات کے علاوہ وراثتی عوامل اہم ہیں ایسے خاندانوں کے جینیاتی ٹیسٹنگ ضروری ہے۔ مانع حمل ادویات کی بہتات خواتین کے مثانے وغیرہ میں کینسر کا سبب بن رہی ہیں۔قارئین کرام یہ مطالبہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ انتظامی افسران کو فلفور یہ کام شروع کر دینا چاہیے۔
مو زوں تجویز یہی ہے کہ وفاقی ادارہ اٹامک انرجی کے نو تعمیر شدہ ہسپتال کو کینسر ہسپتال کو ریسرچ کا درجہ دیا جائے یہ کام کمشنر ڈی جی خان بہتر انداز سے کر سکتے ہیں۔ مگر نہ سیاسی خداؤں سے نہ پہلے کبھی توقع رہی اور نہ آئندہ ہے جو سردار وزیراعظم کے بیٹے کے سامنے سر جھکائے بیٹھے ہوں وہ ہمارے مطالبات کہاں بیان کریں گے۔