ڈیرہ غازیخان۔کینسرہسپتال کی ضرورت اور سیاسی اشرافیہ
احمد خان لغاری
کوہ سلمان سے
حکومت پنجاب نے ار سر نو صوبہ پنجاب کے تمام ڈویژن اور اس میں شامل اضلاع کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے بنیادی طور پر اس کی نوبت اس لیے پیش آئی کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے چندنئے اضلاع قائم کیے تھے لیکن بعد ازاں پی ڈی ایم کی حکومت اور اس کے محکموں کو شاید گوارا نہ تھا کہ نئے اضلاع بنیں لہذا نئے اضلاع کے نوٹیفیکیشن کھٹائی میں پڑے رہے۔ شاید بنیادی مقصد یہ تھا کہ نئے اضلاع کے قیام کا کریڈٹ وہ حاصل کرسکیں پنجاب کے دیگر نئے اضلاع کی اہمیت و افادیت زیر بحث لانا مقصد نہیں ہے۔ البتہ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کی ہیبت ترکیبی پر بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں ڈیرہ غازی خان ڈویژن کا قیام 1982 میں عمل میں لایا گیا ضلع ڈیرہ غازی خان کی کوکھ سے ایک نیا ضلع تشکیل پایا جس کا نام ضلع راجن پور ہے اور یہ ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تھی۔ اسی طرح ضلع مظفرگڑھ کو تقسیم کر کے اس کی ایک تحصیل لیہ کو ضلع کا درجہ دیا گیا اس طرح مظفرگڑھ کو ضلع ملتان کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔ لیکن بعد ازاں اسے دوبارہ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کا حصہ بنا دیا گیا۔ اگرچہ مظفرگڑھ جغرافیائی لحاظ سے ملتان کے قریب ہے ضلع مظفرگڑھ کے لوگ آج بھی اپنے آپ کو ملتان کا حصہ سمجھتے ہیں چونکہ اب یہ قصہ پارینہ بن چکا لہذا اب اس پر بحث و مباحثہ بلا جواز ہے بقول جنرل ضیاء الحق مرحوم مظفرگڑھ والوں کا قبلہ درست کر دیا گیا ہے۔ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے وزیراعلی سردار عثمان بزدار نے اس ڈویژن میں دو نئے اضلاع کا اعلان کیا ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ اور ضلع مظفرگڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کو ضلع بنانے کا اعلان کیا۔ جو بزدار حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی سیاست اور افسر شاہی کی اناکی بھینٹ چڑھ گیا۔ عوامی سطح پر ہر دو اضلاع کی بحالی کی کوئی خاص تحریک بھی نہیں تھی اور نہ ہی عوامی مطالبہ زور پکڑ سکا چونکہ اضلاع کی تشکیل کی تمام قانونی اور آئینی ضروریات مکمل تھی۔ اور اس کے علاوہ کوئی چارہ کار بھی نہ تھا۔ موجودہ حکومت کو کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہ ہو سکا اور نہ ہی ڈویژن کی سیاسی اشرافیہ اضلاع کی بحالی سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکی سیاسی کارکنان اب جیسے کریڈٹ لینا چاہیں ان کا تو مقصد ہی خوشامد ہوتی ہے لہذا وہ اپنے عمل کو جاری رکھنے پر بضد ہوں تو ضرور ہوں ۔قارئین کرام! پورے پنجاب میں ڈیرہ غازی خان میں اضلاع کی تعداد میں سب سے بڑا ہے جامپور ضلع بناؤ کی تحریک بھی پرانی ہے۔ اور سردار صاحبان نے ہر انتخابات کے موقع پر اس اہم معاملے پر سیاست چمکائی۔ لیکن وہ خود جامپور کو ضلع بنانے کے حق میں نہیں ضلع بنانے کے دعوی دار سیاست دان گوشہ نشین ہو چکے جب تازہ دم ہوں گے تو وہیں سے سلسلہ جوڑیں گے جہاں سے ٹوٹا تھا۔ ڈیرہ غازی خان ضلع کی تحصیلوں پر بھی اتفاق نہیں ہے کوہ سلیمان کے پورے علاقے کو جو وہوا سے اوپر پہاڑی سلسلہ سے شروع ہو کر فورٹ منرو کی حدود اور جنوب میں ضلع راجن پور تک ہے سیکڑوں میل کے فاصلے پر ایک تحصیل پہاڑی لوگوں کے لیے ایک شدید مشکل کا باعث ہے۔ اس پر آج نہیں کبھی تو توجہ دینی ہوگی وگرنہ بلوچوں سے فاصلے بڑھتے رہیں گے۔ دوسری طرف شادن لنڈکے لوگ تحصیل بنانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
اور آج بھی کر رہے ہیں منتخب اراکین کا حق ہے کہ وہ مسائل ایوان اقتدار تک پہنچائیں لیکن وہ خود جانتے ہیں جو فارم 47 رکھتے ہوں انہیں مطالبات پیش کرتے ہوئے کئی بار سوچنا پڑتا ہے۔ اتنا بڑا ڈویژن جو چھ اضلاع پر مشتمل ہے یہ جغرافیائی اعتبار سے بہت بڑا ہے لیہ کے لوگوں کا ہمیشہ مطالبہ رہا ہے کہ کوٹ ادو اور تونسہ اضلاع پر مشتمل لیہ ضلع کو شامل کر کے ایک ڈویژن تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ جس میں ضلع بھکر بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ہر لحاظ سے متعلقہ اضلاع کے لوگوں کو آسانیاں فراہم کی جا سکتی ہیں کوٹ ادو ضلع لیہ کے قریب اور تونسہ بھی ڈیرہ غازی خان کی نسبت لیہ کے قریب ہیں۔ جسے دیرینہ مطالبے کے بعد دریائے سندھ پر پل تعمیر کر کے فاصلے سمیٹ دیے گئے ہیں۔ دونوں اطراف سے رابطہ سڑکیں تا حال مکمل نہیں ہوسکی جو جلد از جلد مکمل ہونی چاہیے۔ راقم الحروف ڈیرہ غازی خان کے مسائل پر ارباب اختیار کی توجہ دلانا چاہتا ہے۔ لیکن میری آواز ہمیشہ صدابصحرا ثابت ہوئی۔ ڈویژنل اور ضلعی انتظامیہ اور صوبائی سطح پر تمام اہم ادارے ہر قلمکار جو مسلسل لکھ رہا ہوتا ہے اس کی تجاویز کو دیکھتے ہیں۔محکموں میں باقاعدہ ڈیسک قائم ہوتے ہیں جس میں تجاویز اور مطالبات کی جانچ پڑتال ہوتی ہے۔ لیکن لگتا ہے محکموں اور ادارے نے کانوں میں انگلیاں ٹھونسی ہوئی ہیں۔ جہاں تک سیاسی اشرافیہ کا تعلق ہے انہیں تو گزشتہ انتخابات میں اپنی ہار کا رنج ہی بہت ہے اور بات ٹھیک بھی ہے وہ لوگ عوامی دباؤ یا عوامی رائے سے اقتدار میں نہیں آئے بلکہ اپنے دست بازو سے ایم این اے ایم پی اے بنے بیٹھے ہیں۔ تو وہ کسی ایرے غیرے کی کیوں سنیں عام انتخابات سے قبل سب لوگوں کو ڈیرہ غازی خان کی ترقی اور خوشحالی کے نعرے دیے گئے۔ جس میں ڈیرہ غازی خان ایئرپورٹ کو بحال کرنا تھا۔ جسے سردار فاروق احمد خان لغاری نے اپنے لوگوں کو تحفہ دیا تھا۔ بعد ازاںسردار فاروق احمد خان لغاری کے نام سے ایئرپورٹ کو موسوم کیا گیا لیکن ایئرپورٹ فنگشنل نہ بنایا جا سکا اور نہ ہی نام کا بورڈ آویزاں کیا گیا ہمارے لوگ جو دبئی اور سعودی عرب میں مقیم ہیں ان کے لیے آمد و رفت کی کتنی مشکلات ہیں وہی جانتےہیں۔ایئرپورٹ کی فی الوقت حالت زار انتہائی خستہ ہو چکی ہے۔
.عمارت کو کھنڈرات میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ اسی طرح ریلوے اسٹیشن بھوت بنگلے بن چکے ہیں۔سرکاری کوارٹرز پر قبضہ مافیا کا راج ہے۔ان گھروں میں کیا ہوتا ہے ہمارے اداروں سے مخفی نہیں ہے۔ غازی گھاٹ کے دوسرے پل کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے اس ایک پل کی وجہ سے موسم سرما کے آغاز سے ہی شوگر ملوں کے لیے لائے جانے والے گنے کے ٹرک رکاوٹ بن جاتے ہیں اور پھر آنے جانے والے عام لوگوں کے ساتھ مریضوں کے لیے سخت مشکلات کا باعث بنتے ہیں محض نالی سولنگ سے شہر کی ترقی نہیں ہوتی۔ اسوقت ڈئیرہ غازیخان کی عوام کینسر جیسے موزی مرض میں تیزی سے مبتلا ہورہے ہیں اور کثیر تعداد میں اموات واقع ہورہی ہیں ۔ جسکی کئی وجوہات ہیں جسکا ذکر کرنا ضروری ہے ۔ اس موذی مرض کو روکنے کےلیے بند باندھنا ہوگا عوامی سطح پر مطالبہ زور پکڑ رہاہے کہ ڈیرہ غازیخان میں کینسر ہسپتال بنایا جائے۔ کینسر کی وجوہات اگلی قسط میں ملاحضہ فرمائیں۔(جاری ہے)
☆★☆★☆★☆