Visit Our Official Web ڈیرہ غازیخان۔ امن و امان کی صورت حال، ذمہ دار کون؟ Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

ڈیرہ غازیخان۔ امن و امان کی صورت حال، ذمہ دار کون؟


احمد خان لغاری 

کوہ سلمان سے

ہمارے شہر ڈیرہ غازیخان کی فضا اور شام و سحر کیوں خون آلود ہوتی جارہی ہے، ذاتی دشمنیاں ہوں یا پھردندناتے ڈکیت باسیوں کی زندگیاں کیوں اجیرن کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟ بے گناہوں پر گولیاں برساتے لوگ آخر کہاں گم ہوجاتے ہیں۔ شہر سے نکلنے والے ہر شخص سے پوچھ گچھ ہوتی ہے جامہ تلاشی بھی ہوتی ہے تو قاتل کیوں نہیں گرفتار ہوتے، چور ڈکیت بڑے لوگوں کی تحویل میں ہی ہوتے ہونگے۔کیا زمین نگل جاتی ہے یا آسمان! گذشتہ ایک ہفتے میں قتل کی متعدد وارداتیں ہوچکی ہیں اور وہ بھی بھرے شہر اور اہم مقامات پر ہولناک وارداتیں ہوئی ہیں۔ حادثات کی الگ کہانیاں ہیں جس میں  سکولوں کے اساتذہ کسی ٹرک ڈرائیور کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں یا پھر سکول وین کے اناڑی ڈرائیور کے ہاتھوں کئیزندگیوں  کے چراغ گل ہوگئے۔ چوریاں تو جیسے عام بات ہے اور سردیوں میں تو جیسے چند لوگوں کا پسندیدہ شغل ہوتا ہے۔ حالیہ وارداتوں میں ایک مقتول کے قاتل کو چند گھنٹوں میں بیرون ملک نکلنے سے قبل گرفتار کرلیا گیا، اگر یہ سچ ہے تو پولیس کی کارکردگی خوش آئند ہے لیکن مجموعی طور پر امن وامان کی صورتحال تسلی بخش ہرگز نہیں۔ ٹریفک پولیس سڑکوں پر" مستعد "نظر آتی ہے۔ ملتان تک کے سفر کے دوران پولیس کے مختلف ذمہ داران سڑک کنارے نظر آتے ہیں انہیں ٹریفک کی روانی کا احساس نہیں ہوتا البتہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مگن دیکھے جاتے ہیں یہ منظر شہر کے چوک چوراہوں پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں، کوئٹہ روڈ ہویا پھر پل ڈاٹ، ضلع کی حدود کے اختتام پر مسافروں کو" خدا خافظ "کہتے ہیں۔ اور "خوش آمدید" کیلئے الگ سے ہجوم سے گذرنا پڑتا ہے۔ امن عامہ کے علاوہ دیگر جرائم کی بھی بھرمارہے۔ مہنگائی، سیوریج کا مسئلہ عام ہے اور اہم بھی ہے۔ حتی کہ یہاں باوا آدم بھی نرالا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کا مستقل مسکن تو لاہور ہی ہے، کبھی کبھار سرکاری میٹنگ میں شرکت کیلئے تشریف لاتے ہیں اور ان سرکاری میٹنگوں میں بھی فارم 47سے کامیاب وزراء وغیرہ خاموش ہی رہتے ہیں کیونکہ انہیں خود بھی آگاہی حاصل ہے وگرنہ زیادہ مشورہ دینے سے بیوروکریسی انہیں  اوقات بتا دیتی ہے۔ ایسی لاحاصل میٹنگوں کے بعد چند رو ز اپنی رعایا کوبھی وقت دیتے ہیں۔ اور بعد ازاں وہ غلام فیس بک اور مخصوص پیجز اور گروپوں میں تعریفوں کے پل باندھتے ہیں۔ جیسے زمین پر وہی سردار ہی سب کچھ ہیں باقی سب ہیر پھیر ہے۔ ایک خاندان کی سیاسی اشرافیہ بھی گروپوں میں تقسیم ہے، کوئی چوٹی سے بڑے سرداروں کے قریب تر سمجھے جاتے ہیں تو کوئی پنجاب کے حکمرانوں کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ ان پر شدید غصہ بھی ہے اور سیاسی اشرافیہ کے ایک رکن تو سیاست سے ہی تائب بتاتے ہیں اپنے آپ کو لیکن اور نجی محافل میں اس کا ذکر بھی کرتے ہیں لیکن عوام سے رابطے میں ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ کبھی تو اچھا وقت آئیگا۔ مقصد یہ ہے کہ ڈیرہ غازیخان کے تمام اہم مسائل سے ہمارے سیاستدان دور ہیں، فطری عوارض ہیں۔ یا پھر کہیں سنوائی نہیں ہوتی واللہ اعلم۔ جہاں تک ہمارے علاقے کے سینئر افسران ہیں وہ ہمیشہ ایسے معاملات سے لاتعلق ہی رہے ہیں، باہر سے آئے ہوئے کمشنر ڈپٹی کمشنر یا دیگر بیوروکریسی اپنے عہدوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔یا پھر جمخانہ میں اپنا وقت گذارتے ہیں، شہر کے مقبر لوگ موجود ہوتے ہیں، ان سے ملاقاتیں کرکے سمجھتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے۔ مسائل کے حل کیلئے آواز بلند کرنے والے اور حق گوئی و بیباکی کے دعویدار بھی ان سے میل ملاقات رکھتے ہیں، اسطرح عام لوگوں تک یہ پیغام پہنچانے میں کامیاب رہتے ہیں کہ ان کے اعلی افسران سے تعلقات ہیں۔ تصاویر شیئر کی جاتی ہیں اور ایسے لوگ اپنا مکروہ دھندہ بھی جاری رکھتے ہیں۔ قارئین کرام! ہمارے بزرگ کہا کرتے ہیں اور ہمارا مشاہدہ بھی ہے کہ جس علاقے میں نئے مقام افسران کی تقرری ہوتی ہے تو افسران ہر مسائل کیلئے تو اپنے دروازے اس کے مسائل کے حل کیلئے کھلے رکھتا ہے مگروہ ہر سیاسی و غیر سیا سی کارکن یا رہنما کو اجازت دیں کہ وہ انہیں پھول پیش کریں۔ گلدستے لاکر تصویریں بنوائیں تو سمجھ لیں وہ افسر کوئی اچھی شہرت کا حامل نہیں ہے۔یا پھر وہ افسر کمزور ہے کیونکہ جسے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ ایسے لوگ جو گلدستے پیش کرتے ہیں ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔جو وہ پورے کرلیتے ہیں لیکن افسران کے حصے میں اچھی رائے قائم نہیں ہوتی۔ لہذا انتظامی افسران کو بڑے اعزاز کے ساتھ اپنی ڈیوٹی سرانجام دینی چاہیے، ہر شخص سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش نہ کریں اور نہ ہی انہیں قریب بھٹکنے دیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بیوروکریسی چند لوگوں کو اپنا کہہ کر سب کچھ اگلوانے کا فن جانتی ہے اور معلومات لینے کا ہنر رکھتی ہے لیکن افسران اور علاقے کی بہتری کیلئے ہوتو درست پالیسی ہے۔ لیکن وہ ملنے والے بھی کم فنکار نہیں ہوتے، وہ کم ظرف نچلی سطح تک اپنا اثرورسوخ قائم کرلیتے ہیں اور کچھ پتہ نہیں چلتا کہ ہو کیا رہاہے۔ بات امن و امان کی خراب اور تشویشناک صورت حال کی کرتا رہا تھاجو پولیس افسران اور کمشنر ڈپٹی کمشنر کی توجہ کے متقاضی ہیں، پولیس کو اپنے آپ کو ازسر نو تنظیم کرتا ہوگا یہ صرف پولیس افسران کی ذمہ داری بنتی ہے جمخانہ ضرور انجوائے کریں، تعلقات بھی رکھیں لیکن امن و امان کی صورتحال سے غافل نہ ہوں۔ پوری توجہ ہونی چاہیے تاکہ یہ سلسلہ رک سکے، اگر ذمہداران بھی بے خبر رہے تو ترقیاتی محکموں کے افسران تو پہلے ہی "پر سکون"ہیں اور سب سے ان کے مراسم اچھے ہی چل رہے ہیں۔

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url