ایرانی اقتصادی بدحالی میں پراکسی جنگوں کا اثر
تحریر : خزیمہ یاسین
ایران کی اقتصادی بدحالی اور اس کی پراکسی جنگوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے، جو نہ صرف ایران کی داخلی سیاست پر اثر انداز ہو رہا ہے، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کی سیاسی ڈائنامکس کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے ایرانی ریال دنیا کی سب سے کمزور کرنسی بن چکا ہے، جو امریکی ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 42,000 ریال فی ڈالر کی سطح تک پہنچ چکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجوہات ایران کی اقتصادی بدحالی، عالمی پابندیاں اور سیاسی عدم استحکام ہیں، جو کہ طویل عرصے سے ایران کی معیشت پر بوجھ ڈال رہی ہیں۔
ایران کی اقتصادی بدحالی، عالمی پابندیوں اور سیاسی عدم استحکام کے پسِ پردہ اصل سبب ایران کا مذہبی پراکسی جنگوں کی بنیاد ڈالنا ہے، اس پر بے پناہ مالی وسائل خرچ ہو رہے ہیں۔ ایران کی طرف سے مشرق وسطیٰ کے شام و لبنان میں حزب اللہ، فاطمیون بریگیڈ، لواء الفاطمیون، زینبیون بریگیڈ، آساٰب اہل الحق اور کتائب حزب اللہ سرگرم ہیں۔ یمن حوثیوں کے علاوہ کچھ دیگر گروہ بھی ایران کے اثر و رسوخ کے تحت سرگرم ہیں، لیکن حوثی زیادہ معروف تنظیم ہے۔ عراق میں ایران کی پراکسی کے تحت بدر تنظیم، آساٰب اہل الحق، کتائب حزب اللہ اور سرایا السلام سرگرم ہیں۔ جب کہ پاکستان میں زینبیون بریگیڈ اور سپاہِ محمد زیادہ مشہور ہیں۔ حالیہ شامی انقلاب کے بعد 30 ایسی شیعہ نظریات کی ایرانی پراکسی تنظیموں کی لسٹ جاری ہوئی ہے، جو مختلف سنی ممالک میں ایرانی مذہبی نظریات کے تحفظ کے لیے دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دیتی ہیں۔
ایران کی طرف سے ان شیعہ دہشت گرد گروپوں کے لیے حمایت نے نہ صرف ایرانی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے، بلکہ عالمی سطح پر ایران پر پابندیاں عائد ہونے کا بھی باعث ہے، جس سے ایران کے تیل اور گیس کی بنیادی اور مرکزی برآمدات شدید متاثر ہیں۔ یہ پابندیاں ایران میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی محدود کرنے اور تجارتی تعلقات میں مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنی ہیں۔ اس کا براہ راست اثر ایرانی کرنسی اور معیشت پر پڑا ہے۔ نتیجۃً مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے سے ایرانی عوام کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔
سال 2023 کی رپورٹ کے مطابق ایران کی انتہائی خراب معیشت کی وجہ سے غربت کی شرح 30.1 فیصد تھی، جس کا مطلب ہے کہ ایک تہائی ایرانی اپنی بنیادی ضروریات تک پوری نہیں کر پا رہے۔ حالیہ برسوں میں اس شرح میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ دنیا کی کل آبادی کے تقریباً 1.12 فیصد کے اعتبار سے تقریباً 91.57 ملین آبادی والے ایران میں 26 ملین سے زائد ایرانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ جب کہ متوسط طبقے کی شرح کی بات کریں تو یہ بھی کمزور پڑ چکا ہے۔ کیوں کہ بہت سے لوگ غربت کے قریب ہیں اور تقریباً 60 فیصد ایرانی اپنے معاشی حالات کی بنا پر یا تو نسبتاَ غربت کی حالت میں ہیں یا انتہائی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ جہاں تک امیروں کی بات ہے تو ایران میں امیروں کی شرح بہت کم ہے۔ زیادہ تر مالی وسائل اور دولت چند مخصوص افراد یا خاندانوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہیں۔
دوسری طرف شام میں ایرانی پراکسی جنگوں کا ایک نیا چیلنج تحریر الشام کی شکل میں سامنے آیا ہے، جس کی بڑھتی ہوئی اہمیت نے ایرانی شیعی نظریات کو ایک نئے محاذ پر چیلنج کیا ہے۔ اس تناظر میں ایرانی مذہبی پیشوا آیت اللہ خامنئی نے اپنے حالیہ بیان میں شدید زخمی اور مایوس شدہ لہجے کے ساتھ شام پر دوباہ غاصبانہ قبضے کے لیے اپنی کمیونٹی کو مائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح ایرانی پراکسی سے جُڑے ہوئے سوشل میڈیا اکاؤنٹس مدمقبال اہل سنت کے خلاف کوئی معقول دلیل نہ ہونے کی وجہ سے دشنام طرازی جیسے پرانے وطیرے پر اُترے دیکھے گئے ہیں۔ شام میں اہل سنت کی طرف سے تقریبا نصف صدی بعد شام پر اپنا کنٹرول واپس بحال ہونے کی وجہ سے ایران کے لیے اپنی پراکسی جنگوں کو سنبھالنا اور باہم متحد رہنا خاصا مشکل بنا دیا ہے۔ البتہ تحریر الشام کی شان دار کامیابی نے ایرانی پراکسیوں کے لیے چھپنے کی جگہ ختم کر کے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ جیسا کہ بجائے خود بشار الاسد روسی دربار میں پناہ کی التجا کر کے وہاں چھپ گیا ہے۔ تحریر الشام کی کامیابی کے بعد عراق کے اہل سنت بھی ایرانی پراکسی سے تنگ آ کر بجنگ آمد ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ایرانی پراکسی جنگوں میں مالی وسائل کا بے دریغ استعمال ایران کی معیشت کو مزید متاثر کر رہا ہے۔ اس سے ایران کو عالمی سطح پر مزید تنہائی کا سامنا ہے۔
ایران کی خارجہ پالیسی میں شیعی نظریات کا فروغ اور مختلف سنی ممالک میں بطور مداخلت اپنی حمایت دہشت گرد تنظیموں کو فوجی و مالی حمایت فراہم کرنا ہمیشہ سے اس کا مرکزی مقصد رہا ہے۔ شام، لبنان، پاکستان، عراق اور یمن میں ایرانی پراکسی تنظیموں کی سرگرمیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایران اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے اپنی شیعہ حمایت یافتہ تنظیموں کو مالی، فوجی اور تنظیمی مدد فراہم کرتا ہے۔ تاہم ان پراکسی جنگوں نے بجائے خود ایران کی معیشت پر بھی بھاری دباؤ بڑھا کر اس کی کمر جھکا دی ہے۔
جب کہ جب کہ ایران کی طرف “مرگ بر امریکا” اور فلسطین کی آزادی کے “القدس لنا” جیسے نعرے ہمیشہ صرف اپنے مذموم مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے، تاکہ سنی ممالک کی حمایت حاصل کی جا سکے۔ یہ حکمت عملی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ایران کا مقصد مذہبی حمایت سے زیادہ خطے میں اپنے سیاسی اور فوجی اثر و رسوخ کو مستحکم کرنا ہے۔ دوسری طرف امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کی طرف سے ایران پر لگائی جانے والی اقتصادی پابندیاں ایران کی معیشت اور اس کی خارجہ پالیسی پر گہرے اثرات ڈال رہی ہیں۔ ان پابندیوں کے باوجود ایران نے اپنی ناجائز مداخلتوں کو جاری رکھا ہے، مگر یہ پابندیاں ایران کی حکمتِ عملی کو محدود کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ اگر یہ پابندیاں نہ ہوتیں تو ایران اپنے پراکسی گروپوں کو مزید طاقت وَر بنا کر خطے میں فرقہ وارانہ آگ کی شدت بڑھا سکتا تھا، جس کے نتیجے میں پورا خطہ راکھ کا ڈھیر بن سکتا تھا۔
ایران کی اقتصادی بدحالی اور پراکسی جنگوں کے پیچیدہ تعلقات نے نہ صرف اس کی داخلی سیاست اور معیشت کو متاثر کیا ہے، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے استحکام کو بھی خطرہ لاحق کر رکھا ہے۔ ایران کے لیے اپنی داخلی مشکلات حل کرنا اور اپنی خارجہ پالیسی بہتر بنانا اہم چیلنج بن چکا ہے۔ اگر ایران اپنی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں کرتا تو اس کے اثرات پورے خطے پر مرتب ہو سکتے ہیں۔