Visit Our Official Web عمران خان کی فائنل کال۔ مضمرات اور نتائج Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

عمران خان کی فائنل کال۔ مضمرات اور نتائج



  احمد خان لغاری 

آخر کار قائد تحریک انصاف کی فائنل کال شدید کشت و خون کے بعد اختتام پذیر ہوئی۔ کتنے کارکنان اس تحریک میں کام آئے، تاحال کوئی بات حتمی نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔ جسکی تردید حکومت کر چکی ہے غیر ملکی میڈیا نے بھی اپنے طور پر معلومات جمع کی ہیں، اسلام آباد کے مختلف ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کے مبینہ بیانات بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں۔ بے شمار ویڈیوز بھی دیکھنے کو ملی ہیں لیکن اموات کا حتمی اعداد شمار سامنے نہیں آسکا۔ ایک بات طے ہے کہ اگر کارکنان مارے نہیں گئے تو وہ مسنگ پرسنز کی فہرست میں اضافہ کرگئے ہیں۔ وہ حوالات میں ہیں تھانوں میں بند ہیں، عقوبت خانوں میں قید ہیں یا پھر لاوارث قرار دے کر کسی نامعلوم جگہ پر اجتماعی طور پر دفن کیے جاچکے ہیں۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ پر اگر انحصار کیا جائے تو زخمیوں سمیت کارکنان کی ایک بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے۔ جوں جوں وقت گزرے گا حقائق سامنے آتے جائیں گے۔ وگرنہ اسلام آباد پر گدھوں کے منڈ لانے کی ویڈیوز سے مرنے والوں کی بے گوردکفن لاشوں کا اندازہ لگا نا غیر دانشمندانہ بات ہوگی۔ اس فائنل کال کے مضمرات اور نتائج بحرحال بھیانک رہے، پی ٹی آئی کے قائدین کے غیر سیاسی رویے دیکھے کارکنان باالخصوص پنجاب سے بڑی تعداد میں نہ نکلنے کی کیا وجوہات ہیں۔ پنجاب کے ایم این اے اور ایم پی اے صاحبان اسلام آباد کیوں نہیں پہنچ سکے، وگرنہ ہزار راستے تھے۔ جانے کیلئے اگر اسلام آباد پہنچنا مشکل تھا تو اپنے شہروں میں بھی احتجاج کیا جاسکتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گھر سے باہر نکلنے اور شہروں سے باہر نکلنے کے تمام راستے مدود تھے، جانے کی اجازت تو درکنار پولیس کارویہ بھی جارحانہ تھا۔ یہ لوگ اپنے نہیں لگ رہے تھے بلکہ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ ہم کسی دوسرے ملک میں آگئے ہوں یا پھر وہ ہمیں غیر ملکی افراد سمجھ رہے تھے۔پنجاب کے کارکنوں اور رہنماؤں سے اس فائنل کال میں مرنے والوں کا گلہ رہے گا کہ ان کا اپنا کوئی بھی نہیں تھا۔ جو ان کی مرہم پٹی کیلئے آگے بڑھتا یا انہیں کوئی سہارا دیتا۔ زخمی اور مردہ لوگ ہی میدا ن کا رزار میں پڑے تھے۔ قیادت کرنے والے تو ڈی چوک پہنچنے سے پہلے ہی فرار ہوچکے تھے جیسا کہ ان کا ہمیشہ وطیرہ رہا ہے۔ قابل فخر وہ لوگ ہیں جو دوسرے ممالک میں احتجاج کرتے رہے اور غائبانہ جنازہ بھی ادا کررہے ہیں۔ وہ یہی کچھ کرسکتے ہیں وہ مالی مدد بھی کرتے ہیں اور فائنل کال میں بھی ان کا کردار ہمیشہ یاد رہے گا۔

قارئین کرام! سیاسی تحریکوں کی اگر بات کی جائے تو تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ریاست کے خلاف ٹکرانے کی بجائے ریاست سے بات چیت کی جاتی ہے اور انہیں مذاکرات کے نتیجے میں تحریک کا آغاز کیا جاتا ہے جو کامیاب ہوتی ہے۔ پاکستان میں تو یہ سب واضع ہے تحریک نظام مصطفےٰ ہو، ایم آرڈی کی تحریک ہو یا پھر 58ٹوبی کے استعمال کے وقت چند کارکنان اور رہنما ایک ٹرک پر سوار ہوکر آتے تو حکومت ٹوٹ جاتی تھی، تحریک نظام مصطفےٰ کی کامیابی کے بعد وہی لوگ اقتدار کی مسند پر نظر آئے، محترمہ بے نظیر کا استقبال ہوا تو وہ وزیر اعظم بن گئیں، اور پھر شہید ہوئیں تو اقتدار پارٹی کے حوالے کردیاگیا۔ اسی طرح ہمارے سیاسی رہنما سرکاری جہازوں پر ملک سے باہر گئے، خود ساختہ جلاوطنی گذارتے ہیں، معاہدے کرکے سروربیلس میں قیام کرتے ہیں اور واپس آکر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوجاتے ہیں اور پھرسزایافتہ ہوکر سرکاری اہتمام سے علاج کیلئے جاتے ہیں تو پھر واپسی سرکاری جہازوں اور پروٹوکول کے ساتھ ہوتی ہے، ایئر پورٹ پر سرکاری محکمے ضروری دستاویزات مکمل کرنے کیلئے موجود ہوتے یہی اور وہی خاندان بھائی، بیٹا، بیٹی پاور گیم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ وزیراعلی خیبر پختونخواہ کے خفیہ مراسم سے لگتا تھا کہ وہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچ چکے ہیں۔ اور انہیں فائنل کال دے دی گئی ہے اور وہ اسلام آباد پہنچ گئے، لیکن یہاں ایک بات قابل غور ہے یاتو امین گنڈ اپور خود دونمبر تھے یا پھر ان سے بڑی گیم ہوگئی۔ اور گیم کرنے والوں کے اس بار اعتماد کی باری اور جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس قیامت پر افسوس کی بجائے حکمران مذاق ٹھٹھہ کرتے رہے کہ پختون جوتیاں چھوڑ کر بھاگ گئے، گاڑیاں بھی چھوڑ گئے، حکمران جب یہ کہہ رہے تھے کہ پانچ دس منٹ میں لوگ یہاں پر نہیں ہونگے تو عام آدمی دھمکی سمجھتا رہا۔ جب ایک وزیر باتدبیرے نے کہ کہا کہ گولیوں کا ایک چھٹہ پڑے گا تو کوئی بھی نظر نہیں آئے گا۔ لیکن جب رات ہوگئی، علاقے کی روشنیاں گل کردی گئیں، علاقہ سے دکانیں مارکیٹیں بند کرادی گئیں، محافظوں نے کارکنان سے ہاتھ ملائے اور کارکنوں نے اپنی محبتوں کا اظہار کیا لیکن پھر اپنوں نے وہ جلالیانوالہ باغ سجادیا یا پھر سانحہ لال مسجد قائم کرکے ثابت کر دیا کہ عمران خان کیلئے اس ملک کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے۔اسکے اپنے رہنماؤں کے کردار بھی مشکوک ہیں اسے مشورہ ہے کہ وہ غور کرے ملک سے باہر چلا جائے، اس قوم نے انتخابات میں بھر پور ساتھ دیا، ووٹ دیے، دوتہائی اکثریت سے نوازا۔  اصلی قوت آپ سے ناراض ہے، چلے جائیں یہاں سے، لوگ غریب ہیں، دووقت کا کھانا نہیں،آپ کیلئے باہر نہیں نکل سکتے، جب صلح ہوجائے تو واپس آجانا، یہ سارے لوگ آپ کا استقبال کریں گے۔ یا پھر نو مئی کے سانحہ کا بدلہ لے لیا ہے اب صلح کرلیں۔ بہت ہوگیا۔

نوٹ: ادارے کا مصنف سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url