Visit Our Official Web جُمہوریت، جُمہور اور بچّہ جُمہورہ Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

جُمہوریت، جُمہور اور بچّہ جُمہورہ



وارننگ!

یہ ایک محض  مزاحیہ پوسٹ ہے لہذا میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے سوشل میڈیا پر بیٹھی  گرم دُم والی تمبہوڑیوں کی طرح مخالفین کو کاٹنے کے لیئے تیار، اپنے لیڈرِ کامل کے اندھے معتقد، اس کے ہر گناہ کو حکمت اور  کرامت سے تعبیر کرکے اس کی ہر حرکت کا دفاع کرنے والے تمام ورکرز کو یہ وارننگ دے رہا ہوں کہ انہوں نے اپنے دلوں میں مخالفین کے لیئے جو لیاری کے گٹر سے بھی گندی گالیاں اور نالہ لئی کے پانی سے بھی بدبُو دار جو ٹائیٹل بسا رکھے ہیں ان کا میرے اوپر اطلاق کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لینا ہے کہ میں کسی کا نہ حمایتی ہوں اور نہ دشمن اور اگر کسی نے کوئی ایسی ویسی حرکت کی تو اس کا میں اپنے قلم سے وہ حال کروں گا جو زیادہ بیویوں والا شوہر انکی اجتماعی پھینٹی کے بعد  اکیلی کے ہتھے چڑھ جانےوالی کا کرتا ہے۔ 

ایک سیاسی ورکر سے معذرت!

پچھلے دنوں ایسے ہی ہوا تھا کہ ایک پارٹی کا ورکر صرف اپنے لیڈر کا نام پڑھ کر ہی بھڑک اُٹھا اور مجھے اس نے بہت کچھ کہا جواب میں نے بھی کسر نہیں چھوڑی جس کا مجھے بہت افسوس ہے۔ اگر اس کی نظر سے میری یہ تحریر گذرے تو میں اس سے ہاتھ جوڑ کر اپنے کہے کی معافی مانگتا ہوں مگر اس سے پہلے جو اس نے مجھے کہا میں اس کو معاف کرتا ہوں۔ اس نے مجھے جو کہا اس سے مجھے ہر گز گلہ نہیں وہ میرا بھائی ہے میں نے اس کے ساتھ  جو زیادتی کی تھی اُس پر میں نادم ہوں۔

جُمہوریت ہے کیا؟

یہ فرنگی کا طرز حکومت ہے۔ یہ فرنگی ہے کون؟ جی ہاں یہ وہی ہے جس نے ہمارے آج کے وڈیروں کے وڈیروں کو ہمارے وڈیروں (بزرگوں) کے ساتھ غداری کرنے کے بدلے زمینیں دیں اور “سر” کے خطابات سے نوازا۔ اور اب چونکہ ہماری نسل سیانی ہوگئی ہے تو وہ ہمیں “سر” کی بجائے جو کوئی ایسی بے غیرتی کرے جو اس کو خوشی سے جھومنے پر مجبور کردے تو وہ اُس کو اب “نوبل پرائز” کے انعام سے نوازتا ہے۔ اب اگر میں نے ملالہ یوسفزئی کا نام لیا تو لوگ مجھے مولوی اور تنگ نظر ہونے کا طعنہ دیں گے اور اگر میں نے ڈاکٹر عبدالسلام کا نام لیا تو کچھ لوگ مجھے “ڈاکٹر عبدالقدیر پرولیفیریٹر دی گریٹ” کے حمایتی کا خطاب دیں گے۔ میں یہ بھی نہیں بتاؤں گا کہ ڈاکٹر قدیر (کسی دور کا مُحسنِ پاکستان) کو کیوں ٹھوکا گیا اور ملالہ یوسفزئی کو اس کے باپ نے انگریزی کیسے سکھائی کیونکہ میں نے خود تو نہیں ٹُھکنا نا! کیونکہ اس میں بڑے بڑے طاقتور پاکستانی شامل ہیں۔ اور نہ ہی میں ان حقوق نسواں کی ساری ماسیوں کی تنظیموں کو اپنے پیچھے لگوا سکتا ہوں  جو ملالہ کی جنگ تو لڑتی ہیں مگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس میں اپنے مُنہہ میں گھنگنیاں ڈال لیتی ہیں۔

بات دور چلی گئی تھی واپس آتا ہوں۔ جمہوریت ایک ایسا طرزِ حکومت ہے جس میں حکمران اپنی مرضی کا حکمران چُنتے ہیں۔ واقعی؟ کبھی کبھی وہ ایسا لیڈر بھی چُن لیتے ہیں جس کو پنجابی میں کہتے ہیں کہ “جیسا منہہ ویسی چپیڑ” ایسا لیڈر جو اپنی بیوی کو خود ہی پار کرتا ہے پھر اُس کی تصویر اپنے اور پارٹی لیڈروں کے گلے میں ڈال کر مظلوم بن کر مُلک کا صدر تک بن جاتا ہے۔ بعد میں کچھ لیڈر ایک مخصوص چشمے سے غُسل کرکے نئی تصویر کو فریم کروا کے گلے ڈال کر عوام میں پاک ہوکر دوبارہ آجاتے ہیں۔

جُمہور کون ہیں؟

میں پاکستان کی بات نہیں کررہا بلکہ دنیا کے سب سے طاقتور، قابل عزت، ہمارے نوجوانوں کے خوابوں کے مرکز، ہمارے حکمرانوں کے قبلہ کعبہ جُمہوری مُلک امریکہ کی بات کررہا ہوں۔ اس فرنگی طرزِ حکومت میں جُمہور ان کو کہتے ہیں جو ایک دوسرے کو اپنے قائد کی خاطر گالیاں دیتے، مخالف لیڈروں کی تصویروں کے سر کاٹ کر  ننگے دھڑ لگاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو کوئی زیادہ دل جلا کُتے کا بھی دھڑ لگا دیتا ہے۔ میری اس بات کی تصدیق “چاچی گوگل” کی زنبیل میں پڑی ہیلری کنٹن ( وہی جس کا خاوند قابل احترام امریکہ کا صدر مُونیکا کے ساتھ پکڑا گیا تھا) کی اور ٹرمپ (موجودہ امریکی صدر) کی ننگی تصاویر دیکھ کر کی جاسکتی ہے۔

جمہور کا جمِ غفیر!

جُمہور بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ان میں ایک کو تو بچہ جُمہورہ کہتے ہیں جس کی تفصیل بعد میں بیان کروں گا۔ پہلے دوسری کیٹیگری کے جُمہور کی بات کرلوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بچوں کو نہ تو تعلیم میسر ہوتی ہے، نہ ہی پینے کا صاف پانی اور نہ ہی دیگر بنیادی سہولیات۔ پھر بھی میں ان کو سلام کرتا ہوں کیونکہ ان میں بعض جذباتی جمہورے تو لیڈر کی زیارت کے اتنے مشتاق ہوتے ہیں کہ رکشے میں ہی جنم لے لیتے ہیں۔ خدا جانے لیڈر ان کو اپنی محبت کی کونسی گیدڑ سنگھی سونگھاتے ہیں کہ یہ بِن پیئے ہی ہر وقت مست رہتے اور اپنے لیڈر کی خاطر جان تک قربان کردیتے ہیں۔ یہ ہرگز نہیں دیکھتے کہ ان لیڈروں کے بچے کدھر، ان کا کاروبار کدھر اور ان کی وفا داری کدھر؟ یہ تو بس ہر وقت لانگ مارچ، روڈ مارچ، دھرنے کے لیئے تیار ہوتے ہیں۔ دھرنے سے یاد آیا یہاں ایک اسلامی جماعت کا سربراہ ہوتا تھا جو اب عدم کو پدھار گیا ہے۔ جی ہاں وہی جس نے آدھے پاکستان کے بچے روس افغانستان جنگ میں شہید کروا کے جنت بھیجے اور خود اس کے بچے اس وقت امریکہ میں اعلٰی تعلیم پارہے تھے۔ اور آج جو آدھے شہادت سے بچ گئے ہیں وہ ہمارے لیئے مسئلہ بنے ہوئے ہیں انہوں نے ہی تقریبا ایک لاکھ پاکستانیوں کو بھی دہشت گردی کی جنگ میں شہید کرکے جنت بھیجا۔

بچہ جمہورہ اور بچی جمہوری

بچہ جمہورہ وہ پاکستانی دیہاتی کلچر کا کریکٹر ہے جس سے میراثی ( ٹیم لیڈر) شادی بیاہ میں چِھتر مار مار کر کچھ سوال کرتا ہے۔ پاکستان میں اس میراثی کلچر کے فروغ کے بانی آفتاب اقبال کے شو میں کبھی کبھی یہ مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ معاف کرنا آج کے آرٹسٹ (جو کل کے میراثی تھے) جس کی چاہے بھرے مجمعے میں عزت تارتار کردیں۔ ان کی بے عزتی سے بچنے کے لیئے کئی لوگ ان کو دل کھول کر خُوب “ویلیں” یعنی پیسے دیتے ہیں۔ اور سیاست میں یہ “ویل” چار طرح کی ہوسکتی ہے سینٹ کی سیٹ، قومی یا صوبائی اسمبلی  کی سیٹ کا ٹکٹ، کوئی وزارت یا پھر اسپیشل سیٹ پر الیکشن کے بغیر چناؤ اور پانچویں صورت “ہاٹ کیش” بھی ہوسکتی ہے۔

خصوصی التماس!

مجھے جو کچھ نظر آیا میں نے تحریر کردیا میرا مقصد کسی پارٹی ورکر کی دل آزاری ہرگز نہیں بلکہ ہمارا معاشرہ جن خرابیوں میں مُبتلا ہے میں نے ان کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے۔ لہذا اس تحریر کو لائٹ لیتے ہوئے قاریئن آئیے ملکر اپنے معاشرے اور رویے کو درست کریں۔ اس پیارے پاکستان کو اور بھی پیارا بنائیں۔ ایک ایسا پاکستان جس کے باشندے مہذب، خوش اخلاق اور خوش گُفتار ہوں ناکہ بد اخلاق، لڑاکے، جھگڑالو۔ آئیے تماش بینی والے رویے کو چھوڑ کر ایک مہذب قوم بنیں۔

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url