پاکستان میں مغربی تہذیب کے آلہ کار المرکزِ اسلامی سے شانزے آدیٹوریم تک
میجر (ر) ساجدمسعود صادق
پاکستانی عوام جان لے کہ "اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں ۔۔۔۔۔ مُجھے ہے حُکم اذاں لاالہ الا اللّٰہ" یہ پاکستانی عوام کا یہ جاننا تو بے حد ضروری ہے کہ "ہمارا کون ہمدرد ہے کون سردرد ہے ۔۔۔۔۔ اس بات کی اب ہم خبر رکھتے ہیں" اور یہ بھی جاننا سب سے ہی اہم ہے کہ ہماری ذلت کے اسباب میں کون کون اور کیا کیا چیزیں شامل ہے۔ اسلامی دُنیا ایسے ہی نہیں اُجڑی اور اس کی ذلت کی وجہ دراصل مغرب اور مغرب کے آلہ کاروں کی پیروی اور حمایت ہے۔ مادہ پرستی میں پاکستانی اشرافیہ اور حکمران اتنا دور نکل گئے ہیں جہاں وہ اپنے آپ کو کسی بھی خوف اور احتساب سے بالاتر پاتے ہیں حتٰی کہ وہ اللّٰہ "الجبار والقہار و الجبروت" سے بھی بے خوف خطر اور لاپرواہ ہوچُکے ہیں۔ جس طرح عرب خلافتِ عثمانیہ سے بغاوت کرکے ٹکڑوں میں بٹ کر آج اپنی بقا کے لیئے مغرب کی طرف دیکھتے ہیں اسی طرح تُرکی کے بانی "کمال اتاترک" نے بھی اسلام سے بغاوت اختیار کی۔ اب پاکستانی اشرافیہ اور حکمران بھی اس معاملے میں اُن سے پیچھے نہیں رہے۔
جنگ عظیم اوّل میں اسلامی نظام کی آخری علامت "خلافت عثمانیہ" کو عربوں کی تُرکوں سے غداری کے ذریعے مٹانے اور عالم اسلام کو چھوٹی چھوٹی کمزور ریاستوں میں تقسیم کرنا سامراجی نظام کی ایک بہت بڑی کامیابی تھی جس کے بعد عالم اسلام سامراجی نظام سے ٹکرانے کی صلاحیت کے لیئے ہمیشہ کے لیئے معذور ہوگیا۔ تب سے لیکر اب تک غیر اسلامی قوتیں خاص طور پر کمیونزم ممالک (روس، چین اور اُن کے ہمنوا ممالک) ہی اس نظام کا مقابلہ کرتے آرہے ہیں جبکہ اسلامی ممالک اسی سامراجی نظام کی چاکری کی ڈیوٹی سر انجام دے رہا ہے۔ اگرچہ مُسلمان ریاستوں کی عوام اس نظام کے خلاف ہے اور مگر سامراجی نظام نے اپنے آلہ کاروں کے ذریعے اسلامی ممالک میں ایسے پنجے گاڑ رکھے ہیں کہ عوام کی زندگی جانوروں سے بھی زیادہ بدتر ہے جبکہ اسلامی ممالک کی اشرافیہ سامراجی نظام سے بھی انعام و اکرام پاتی ہے اور عوام کا خون بھی چُوستی ہے۔
جنگ عظیم دوم کے بعد قائم ہونا والی مملکت خُداداد پاکستان کا نظریہ تو "پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الا اللّٰہ تھا" جو کہ سامراجی نظام کے خلاف برسرپیکار ہونے کا اعلان تھا مگر سامراج کے ان آلہ کاروں نے اسے شروع سے ہی ہائی جیک کرلیا۔ سامراجنکی پُشت پناہی پر پاکستانی اشرافیہ اور مادہ پرست لوگوں نے آزادی کے بعد آغاز سے ہی اس نظریے کو ناصرف مختلف قوانین سے تبدیل کرنے کی کوششیں شروع کردیں بلکہ پاکستان میں مغربی تہذیب کی علامات کو مضبوط اور اسلامی ثقافت کو کمزور کرنا شروع کردیا جس کی بہترین مثال یوں ہے کہ پاکستان میں ایک مسجد ومدرسہ بھی ایسا نہیں ہے جو کسی حکومت نے بنایا ہوا یا حکومتی فنڈ سے تعمیر ہوا ہو جبکہ پنڈی صدر میں کھڑے عیسائیوں کے عالی شان گرجا کی تعمیر،سکھوں کی عبادت گا ہوں کی تعمیرو تزہین پر مسلمان عوام کے ٹیکس کے اربوں روپے کا خرچہ سامراجی نظام کے آلہ کاروں کی کارستانیوں کو سمجھنے کے لیئے کافی ہے۔
کراچی میں المرکز اسلامی کو شانزے آڈیٹوریم اور سینما گاہ میں میں بدلنااسی سامراجی نظام اور اُس کے پاکستان میں موجود آلہ کاروں کی کارستانی ہے جو سامراجی نظام کیساتھ ملکر اسلام کو پاکستان میں کمزور کرنے، اسلامی تہذیب کو مغربین ثقافت میں تبدیل کرنے اور جڑ سے اکھیڑ پھینکنے جیسی کوششوں کی سسلسلے کی ہی ایک کڑی ہے۔ جماعت اسلامی کے ناظم کراچی "نعمت اللّٰہ" کے دور میں تعمیر کیئے گئے "المرکزِ اسلامی" جو آہستہ آہستہ اسلام کا مرکز اور اسلامی ثقافت کا محافظ بنتا جارہا تھا اُسے سن 2005 میں کراچی کے مشرف دور کے میئر "مُصطفٰے کمال" نے "شانزے آڈیٹوریم اور ایک سینما گھر" میں تبدیل کردیا۔ اگرچہ اُس کے ماتھے پر لکھے "کلمہ طیبہ" پر ان نام نہاد ترقی کے دلدادہ مُسلمان آلہ کاروں نے پینٹ کردیا ہےحیران کُن بات یہ ہے کہ دُنیا کا یہ واحد سینما ہے جس پر مسجد جیسا گُنبد بھی موجود ہے۔
حکمران تو حکمران عوام سے بھی یہ گلہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ بھی اسلام کی بجائے مغرب کے ان آلہ کاروں کو اپنی اُمیدوں کا مرکز بنائے ہوئے ہیں۔ کبھی انہیں ایک لیڈر تو کبھی دوسرے میں اپنے خوابوں کی تعبیر دکھائی دیتی ہے حالانکہ وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ یہ حکمران بھی غیر شعوری طور پر اسی سامراجی نظام کےآلہ کار اور پیروکار ہیں اور اس کے باغی ہرگز نہیں۔ اللّٰہ کی نصرت اور مدد اُس حاکم کے لیئے آئے گی جو اسلام کا پرچم تھامے گا اور اس نظام کے آگے بند باندھے گا ناکہ اسی نظام کو مضبوط کرنے والا کوئی حکمران۔ پاکستانی عوام کی ایک بڑی خامی یہ بھی ہے کہ وہ مذہب، سیاسیات، لسانیات، ذاتیات، رنگ ونسل، ذات پات اور علاقائیت کی بُنیاد پر مُنقسم ہیں اور اُن کو جوڑنے والی واحد قوت اللّٰہ، رسول اللّٰہ ﷺ اور مذہب سے بہت دور ہوچُکے ہیں جس سے سامراجی نظام اور سامراجی نظام کے ان آلہ کاروں کا کام اور بھی آسان ہوچکا ہے۔