Visit Our Official Web کھلی کچہریاں،عوامی مسائل۔ حکومتی رویے Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

کھلی کچہریاں،عوامی مسائل۔ حکومتی رویے

احمد خان لغاری 

زبان و بیان پر رسمی وغیر رسمی پابندیوں کی بنا پر لکھنے والے اہل قلم اور بہت سے بیان باز یا تو خاموش ہوکر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں یا پھر پابند سلاسل ہیں۔ ہر دو طبقات کی نامور شخصیات کوکوئی پوچھنے ولا نہیں کہ وہ کہاں ہیں؟ ان کے کاروبار کا کیا بنا ہے ان کے گھروں کے چولہے جل بھی رہے ہیں یا نہیں۔ موجیں صرف انہی لوگوں کی لگی ہوئی ہیں جو اپنے اداروں کے حق میں رطب انسان ہیں، سب ٹھیک ہے کا راگ الاپ رہے ہیں۔ اور ایسے ہی ذرائع ابلاغ زندہ اور پائندہ ہیں۔ یہ الیکٹرانک میڈیا کے ادارہ جات ہوں یا پھر پرنٹ میڈیا کے لوگ ہوں وہی سچ بول رہے ہیں اور وہی سچ لکھ رہے ہیں۔حکومتی اشتہارات سے ادارے بھی مزین ہیں۔اور کام کرنے والوں کو بھی خصوصی نوازشات کی جارہی ہیں۔ پہلے پہل محض ریاستی اداروں پر تنقید جرم ہوا کرتی تھی بعد ازاں حکومتی پالیسیوں پر ہدف تنقید جرم قرار دیا گیا۔ حکومتی عہدیداروں کے خلاف باتیں کرنے والے پس زنداں رہتے ہیں، تنقید قابل برداشت نہیں ہے۔ اپنے ڈیجیٹل اکاؤنٹس سے حکومتی رہنماؤں پر تنقید والے بھی قابل گرفت آرہے ہیں۔ اور پھر معافی تلافی کے بعد تھانے میں پذیرائی کے بعد گھروں کو واپس آجاتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ "ہم باز آئے ایسی محبت سے "۔اعلی ریاستی اداروں اور حکومتی عہدیداروں پر تنقید کے بعد ہماری بیوروکریسی اور افسر شاہی بھی سخت نالاں ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ اصل میں وہی حکومت ہیں لہذا ان پر تنقید بھی ریاست پر تنقید سمجھی جانی چاہیے، جب افسران نے تنقید یا اداروں کی کارکردگی پر تنقید بڑا جرم گردانتے ہیں تو ان افسران کے ماتحت کام کرنے والی آخری لائن جو دراصل افسران کے ساتھ رابطے اور پل کا کردار ادا کر رہے ہیں اور ہونے والے کام کو غلط اور غیر قانونی کام کو عین درست اور قانونی قراردیتے ہیں۔ اور افسران کو قوانین اور ضابطوں کے مطابق سمجھتے ہوئے کام کرنے کی سفارش کرتے ہیں وہ عملہ بھی مسائل کی سرزنش کرنے پر تلاہوتا ہے اور ان کاجتنا بس چلتا ہے، وہ سائلین اور افسر شاہی کے درمیان ایک فاصلہ رکھنے کے حامی اور عادی بن چکے ہیں۔ اور وہ بھی اپنی شرائط پر ہی کام کرتے ہیں اور وہ کام اولین ترجیحات میں شامل ہوتے ہیں جس میں مالی افادیت واضع اور یقینی ہو۔ ہر لکھنے والا اگر لکھنا چاہے تو حکومتی قصیدے لکھے اور ان پر اس قدر دھمال ڈالے کہ گھنگھرو توڑدے۔ یہی انداز فکر ہو گا تو کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے۔ مالی فوائد بھی ملتے ہیں اور دفاترمیں ان کی عزت افرائی بھی کی جاتی ہے۔ اگر حق سچ لکھنے اور کہنے پر آپ کے اندر کوئی مجبور کرتاہے تو مناسب ہوگا کہ وہ گھر بیٹھ جائے اور خاموش رہے۔ اخبارات چھپتے ہیں انہیں کوئی پڑھتا نہیں ہے۔ ٹی وی پر دیکھا جاسکتا ہے کہ کتنے لوگ ٹی وہ دیکھ رہے ہیں اور کونسا چینل دیکھ رہے ہیں۔ ابلاغ کے دونوں ذرائع ناکام نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے تمام ذرائع لوگوں میں مقبول عام ہیں، وہاں سچ اور جھوٹ کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ ایک دوسرے کو گالم گلوچ اور گھٹیا تاثرات سے بھرے پڑے ہیں۔ اب یہی صحافت ہے اور یہی سچ ہے۔ جو حکومتی شخصیات اور اداروں کے حق میں لکھا جائے۔ تنقید اور تنقیص سراسر جرم اور قابل تعزیر ٹہرا ہے۔ قارئین کرام! حکومت پنجاب کی طرف سے عام آدمی کی بھلائی کیلئے اٹھائے گئے اقدام بلاشبہ درست ہیں جسمیں اپنا گھر پروگرام، لائیوسٹاک کے حوالے سے منصوبے،آسان شرائط پرقرض کے پروگرام ہوں یا پھر کسانوں کیلئے ٹریکٹر سکیم یہ حوصلہ افزا قدم ہیں غریب یتیم، بے سہارا بچیوں کی اجتماعی شادیوں اور جہیز کے پروگرام ہوں۔ ان میں عوامی توجہ بڑھی ہے، لوگ حصہ لے رہے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں چند لوگ عام آدمی کو گمراہ کرتے ہیں ان سے ان لیے پیسے بٹورتے ہیں کہ وہ حکومتی قائدین کے بہت قریب ہیں اور کام کروانے کے عوض اپنی جیبیں بھرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ اس سے بڑھ کر حکومت پنجاب نے افسران کو کھلی کچریوں کے انعقاد کی ہدایت کی۔ پولیس افسران نے بھی ایسی کھلی کچہریاں اپنے دفتروں میں ہی لگا کر مسائل کو حل کریتے ہیں۔ اگرچہ کھلی کچہریاں کوئی نیا تصور نہیں یہ پرانا تصور ہے۔ چونکہ نصف صدی سے مسلم لیگ ن کی حکومت ہے لہذا یہ ان کی ہی ایجاد کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ ضلع ڈیرہ غازیخان میں ڈپٹی کمشنر نے ایسی کھلی کچہری کا انعقاد کیا نئے تعینات ہونے والے ڈپٹی کمشنر محنتی اور نوجوان لگتے ہیں اور سول افسران کی اعلی کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان سے ہر لحاط بہتری کی امید ہے جبکہ جانے والے ڈپٹی کمشنر سے عام آدمی اور سرکاری ملازمین اور افسرا ن کو بہت شکایات تھیں۔ اگر افسران شکایت کریں تو یہ طے ہے کہ ایسا آفیسر کرپٹ نہیں ہوسکتا وہ زبان اور قلم کا برا ہو سکتاہے اور میرے خیال میں یہی ان کے تبادلے کی وجہ بنا۔ ان کے خلاف تحقیقات کی باتیں بھی سنی جارہی ہیں۔ لیکن نئے تعینات ہونے والے ڈپٹی کمشنر کی پہلی کھلی کچہری میں افسران موجود نہ تھے۔ اگر شکایت کنندہ سامنے آیا تو متعلقہ محکمہ کے ذمہدار افسران موجود نہ تھے۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ کھلی کچہریوں میں شکایت کنندہ بھی لائے جاتے ہیں تاکہ بدمزگی نہ ہو، یہاں بھی ایک مقامی سکول کی طالبات کو سکول کی عمارت اور سہولیات کی عدم فراہمی پر بلایا گیا تھا۔ شکایات تو نظر آنی چاہیں پورا شہرسوریج کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے امن و امان کی صورتحال ناقص ہے، چوری ڈکیتی، لولیس گردی عام ہے اگر یہ شکایات نہیں۔

پورا شہر سیوریج کے پانی پولیس گردی عام ہے اگر شکایت نہیں تو ڈی سی ڈی جی خان تو پھر یہ ضلع پرامن ہے اور آپ بھی سکون سے سوئیں۔

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url