Visit Our Official Web 26ویں آئینی ترمیم اور سرائیکی صوبہ میں ناکامی Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

26ویں آئینی ترمیم اور سرائیکی صوبہ میں ناکامی


احمد خان لغاری 

 
چھبیسویں آئینی ترمیم دوتہائی اکثریت سے راتوں
 رات پاس بھی ہوئی اور صبح صادق سے پہلے مرد حر سے باقاعدہ منظوری ہوکر نافذ العمل ہو چکی۔ ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں نے معاہدہ کر رکھا تھا کہ آئینی معاملات کی اعلی عدالت میں الگ سے سماعت ہوگی، مر د حر اور ان کے صاجزادے نے دن رات ایک کرکے اس میں کامیابی حاصل کرلی، اگرچہ جزوی کامیابی تھی مکمل عدالت کی بجائے موجودہ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ سیاسی اور آئینی سوالات کا حل تلاش کر یگا۔ بلاول بھٹو زرداری کی خواہش تھی بلکہ اس کی ماں شہید رانی کا جو خواب تھا اسے پورا کر دیا۔ الگ عدالت سے آئینی بینچ کا سفر بھی اتنا آسان نہ تھا چونکہ آئنی ترمیم میں اور بھی بہت کچھ تھا جس پر دن رات اجلاس پر اجلاس منعقد ہورہے تھے، ہر سیاسی رہنما اپنامسودہ ٹھائے پھر تا تھا، حکومتی اہم وزرا بھی ایک مسودہ پر باہم مشاورت تو کررہے تھے لیکن مسودہ رات گئے تبدیل ہو جاتا سنا ہے کہ ایسے آئنی ترامیم کے مختلف مسوادات کہیں سے آتے تھے اور سیاسی جماعتوں کی مشاورت میں وہ ظاہر بھی نہیں کیے جاتے تھے، کہاں سے آتے تھے اور ان میں اہم آئینی نکات کیوں تبدیل ہورہے تھے وہ سب آشکار ہوجائیں گے لیکن مناسب وقت پر سب کچھ ظاہر ہوجائیگا۔ ممکن ہے کہ دواتحادی جماعتیں جو یہ آئینی پیکج ایوان سے پاس کرانا چاہتے تھے وہ کبھی یہ کہہ دیں کہ آئینی ترامیم کسی کی فرامائش پر کرائی گئیں تھیں اور ہم شرمندہ ہیں۔ اس آئینی ترمیم میں کس کو کیا ملا باالخصوص سیاسی جماعتوں کا اگر ذکر کریں تو مسلم لیگ ن اور پی پی پی کا یہ کہنا ہے کہ ہم نے CODکے تحت معاہدہ کیا تھا جس میں آئینی عدالت کا اہم نکتہ بھی شامل تھا لہذا رہ وعدہ پورا کیا گیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے قوم سے کیا گیا وعدہ جو اس کی شہید ماں نے کیا تھا وہ پورا کر دیا ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ ن اس ترمیم کو بہت بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں اور عام آدمی سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ ترمیم بہت بڑی کامیابی کیسے ہوگئی، حقیقت میں دونوں جماعتوں نے راتوں کو ملنے والے مسودات کو شبانہ روز محنت کے بعد دیگر جماعتوں سے مشاورت کے بعد محض بائیس نکات پر مشتمل پیکج منظور کر لیا گیا۔ بلاول بھٹو زرداری تو فخر سے بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ماں شہید کا وعدہ پورا کردیا لیکن اسکے علاوہ وہ مزید بتا نے سے قاصر لگتے ہیں۔ مسلم لیگ ن اسے عظیم کارنامہ قراردیتے ہیں لیکن سوائے نئے چیف جسٹس کی تقرری کے اختیارات پر خوش اور نازاں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اب آنے والی ممکنہ مشکلا ت سے بچ گئے ہیں اور ریاست کے اصل وارثوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور اب ان کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا۔ لیکن پاکستانی سیاست ہمیشہ سے غیر یقینی اور بے وفارہی ہے۔ جہاں تک مولانا فضل الرحمن کی کامیابی کا سوال ہے تو انہوں نے سب لوگوں کو تگنی کا ناچ نچا یا اور سب ان کے اشاروں پر رات گئے تک ناچتے رہے۔ سپریم کورٹ میں آئینی بینچ پر تو کسی کو اعتراض نہیں تھا چونکہ اس پر تمام سٹیک ہولڈرزکا اتفاق تھا، مولانا فضل الرحمن بھی سب کھیل سمجھ رہے تھے۔ انہوں نے اس آئینی پیکج کو اسلامی ٹچ دینے کیلئے کچھ اہم ترامیم شامل کرالیں تاکہ انہیں لوگ ایک مذہبی سکالر اور دینی رہنما کے طور پر اپنا یقین کامل کرلیں اور وہ کامیاب ٹہرے۔ انہوں نے سودی نظام کے خاتمے کیلئے تجویز شامل کرائی جو 2028تک سودی نظام کا خاتمہ شامل ہے۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن کا اہم مسئلہ جوکہ دیرینہ تھا اسمیں بھی کامیابی حاصل کی۔ ان اسلامی دفعات کی شمولیت سے مولانا فضل الرحمن ایک بارپھر  داعی اتحاد امت جیسے القابات سے نوازے گئے۔ دیوبند مسلک کے مفتی اعظم تقی عثمانی نے اسی لیے تو ان کا ماتھا چوما اور اپنے مسلک کی طرف سے مہر ثبت کر دی تاکہ یہی پیغام جانا چاہیے تو "من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو"۔
26ویں ترمیم بھی منظور ہوگئی اور مولانا فضل الرحمن سنجیدہ سیاستدان بن کرابھرے اور مذہبی اعتبار سے بھی وہ اپنے ملک کے امام ٹہرے۔ رہی بات پی ٹی آئی کی تو وہ بھی قاضی فائز عیسیٰ سے جان چھڑانے میں کامیاب ٹہرے لیکن بطور جماعت اسے بہت نقصان بھی پہنچا جس رات پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی حکومتی بینچوں پر آبیٹھے اور زین قریشی جیسے لوگ مبینہ طور پر ادرگرد تشریف فرماتھے کہ اگر ممبران کم ہوں تو وہ اس خلا کو پر کرسکیں۔ قارئین کرام! افسوس اس قدر ہے کہ اپنی ماں کا وعدہ تو وفا کردیا لیکن اس کی ماں اور جماعت کا وعدہ جو جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا تھا اس پر شاید کسی کی نگاہ نہیں گئی۔ جنوبی پنجاب کو صوبہ نہ بنانیکی آئینی ترمیم کو نظر انداز کر کے خصوصی طور پر جنوبی پنجاب میں شدید مایوسی پھیلی ہوئی ہے اور لوگوں کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبے کا بھی وعدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا تھا جسے مسلم لیگ ن کے دباؤ کے تحت نظر انداز کردیا گیا جہاں تک ایمل ولی خان کی سیاست کا سوال ہے تو ان کے آباؤ اجداد محض سیاسی ہی نہیں بڑے قد آور لوگ تھے مگر اس نے سندھ سے سینٹ کی نشست خیرات میں لی اور اس آئینی ترمیم والی رات وہ چیخ رہا تھا کہ خیبرپختون خواہ کا اصل نام پختون خواہ ہے جسے منظور کرایا جائیگا لیکن وہ بھی اس رات خاموش بیٹھا رہا۔ بلاول زرداری نے جس طرح آئینی بینچ پر محنت کی وہ اپنی ماں کے قاتلوں کی تلاش پر بھی اسی طرح محنت کرے وہ قاتل اردگر د ہی ہیں مل جائیں گے۔
Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url