Visit Our Official Web جمہوریت یا عوام سے دھوکہ دہی Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

جمہوریت یا عوام سے دھوکہ دہی



تحریر : طاہراشرف 

میں نے جنرل ضیاءالحق صاحب کا دور دیکھا ملک میں خوشحالی تھی سالہاسال کھانے پینے والی اشیاء پیٹرول۔گیس۔بجلی وغیرہ وغیرہ ہمیشہ سب کی قیمتوں اپنی اپنی جگہ پر رہتی تھیں نہ کوئی ہو روز نئے نئے ٹیکس نہ کوئی اضافی محکمے نہ کو و آئی پی پروٹوکول نہ رشوت ستانی نہ کوئی جگا گیری نہ کوئی روڈ بلاک نہ چوری نہ ڈکیٹیاں نہ اغوا کار نہ زبر زنا نہ کو ریپ یہ وہ زمانہ تھا جب گھر کچے تھے لیکن عزتیں محفوظ تھیں بڑوں کا احترام تھا اور ایک کاروباری خاندان کی سیاست میں انٹری ہوئی پھر جمہوریت شروع ہوئی بے نظیر بھٹو صاحبہ کی انٹری ہوئی مہنگائی دن بدن بڑھنے لگی وی آئی پی پروٹوکول شروع ہوا آئی ایم ایف سے قرضہ سکیمیں شروع ہوئیں اور آ پی پی کا وجود بنایا گیا اس جمہوریت کے دعوے داروں نے اپنے ہی لوگوں کو آئی پی پی کمپنیاں بنوائی اور پھر انہی کے ساتھ معاہدے کیے گئے اور سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا اور پھر اچانک ساست دان بنے والوں نے محنت کر کے بے نظیر کی حکومت کا تختہ الٹا دیا اور نئی آئی پی پی کمپنیاں بنی اور نئے حکومتی ایگریمنٹ ہوئے اور اپنوں کو ہی نوازا گیا ہھر اُسی دور میں مختلف سکیمیں لانچ کی گئیں جن  میں ییلوکیب سکیم تھی لاکھوں گاڑیاں منگوائی گئیں اور شائد آدھی کے قریب لوگوں کو مختلف بینکوں کی طرف سے آسان اقساط پر دی گئیں وہ بھی شائد مختلف سیاست دانوں کے عزیزوں کو نوازی گئیں اور غریب اور ضرورت مند صرف فائلیں ہی بنواتے رہ گئے اور اُسی دور میں ایک نعرہ لگا تھا قرض اتارو ملک سنوارو اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے تھوڑا تھوڑا کر اربوں روپے اکھٹے ہوئے شائد اُن پیسوں کا بھی کچھ اتا پتا نہیں کہ کیا بنا اور ہمارا،پاکستان اور قرضدار ہو گیا اور ہم جمہوریت کے نعرے لگاتے رہ گئے اسی طرح کچھ جمہوریت چلتی پھرتی رہی  اور پاکستان دن بدن قرض کی دلدل میں گھستا چلا گیا پھر کچھ عرصہ جنرل مشرف صاحب کا آیا اور وہ بھی ان جمہوریت کےدعوےداروں نے بندر بانٹ کی اور سیاسی پارٹیاں اور مظبوط ہوتی گئیں اور اُن کا سرمایہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا پیپلزپارٹی اور ن لیگ امیر سے امیر تر ہوتی گئیں پھر چینج آیا نیا نعرہ لگا اسلامی ریاست کا تحریک انصاف پاور میں ہوگئی اور ہم نے دیکھا رشوت ستانی کا عروج ہوا دفتروں میں سارے کام پیسوں سے ایک منٹ میں ہوتے دیکھے اور پھر سب جمہوریت ولے ایک اسٹیج پر اکھٹے ہوئے اور اپنا راستہ صاف کروایا اور پھر اب اس جمہوریت کے دعوے داروں نے مل کر پاکستانی عوام کو نئے خواب دیکھائے اور پھر ان نئے خوابوں میں مہنگائی کیا نیا دور شروع ہوا ہر گھنٹے بعد چیزوں کے ریٹ بھڑتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ہر روز مہنگائی کا نیا منصوبہ ہر روز نئے ریٹ نیا طریقہ کار جس سے عوام غریب سے غریب تر ہوتی جا رہی ہے اور سیاستدان امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں آخر اس جمہوریت کے اثرات اس عوام کو کس صدی میں ملیں گے جس سے یہ غریب عوام دو وقت  روٹی کما سکے اور کھا سکے کیونکہ یہ عوام ہمیشہ امید پر جیتی ہے اور اس امید پر ہی اپنا ایم این اے اور ایم بی اے چنتی ہے کہ خوشحالی آئے اور غریب آدمی دو وقت کی باعزت روٹی کما سکے اور کھا سکے اس جمہوریت کے دعویداروں کے مطابق ملک دیوالیہ ہو رہا ہے ملک کے پاس کچھ نہیں ہے اور پھر اگر ان کے شاہانہ اخراجات اور پروٹوکول دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہمارا ملک اس دنیا کا امیر ترین ملک ہے اور جب بات عوام کی ہو تو صرف بھوک ہی اس عوام کا مقدر ہے آخر کب تک اس عوام کے جیبوں اور عوام کے حقوق پر ڈاکے ڈلے جائیں گے کب تک عوام بھوکی پیاسی ترستی رہے گی کب تک ستائیس کروڑ عوام اس جمہوریت کے دعویداروں کو پالتی رہے گی اور ان کے شاہانہ اخراجات کا برداشت کرتی رہے گی کب تک اس عوام کی حقوق اور تقدیر سے کھیلا جاتا رہے گا ہر محکمے میں رشوت ستانی عروج پر ہے ہر جائز کام کے لیے مہینوں دفتروں کے چکر لگانے پڑتے ہیں اور آخر کار ہوتا یہی ہے کہ کچھ دو کچھ لو نہیں تو بھول جاؤ کیا اس کو جمہوریت کہتے ہیں کیا اس کو عوامی حکومت کہتے ہیں کیا یہ پاکستان اس لیے بنا تھا اس بنیاد پر بنا تھا خداراکچھ رحم کریں اس ملک اور اس عوام پر جس عوام کو ہر بار ایک نئے نعرے سے نچوڑا جاتا ہے یہ میرا دیس ہے جہاں جینا بھی مشکل ہے اور مرنا بھی مشکل۔

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url