Visit Our Official Web ریپ کیس کے نام پر اشتعال چہ جائیکہ؟ Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

ریپ کیس کے نام پر اشتعال چہ جائیکہ؟

میجر (ر) ساجد مسعود صادق

پنجاب گروپ آف کالجز کیس ایک ایسا کیس ہے جس پر اس واقعہ میں ملوث تمام کرداروں کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے ۔ آج کے پاکستان کا سب سے بڑا یہ  المیہ  اور بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں  ہر اہم معاملہ پر اشتعال  توڑ پھوڑ، ہڑتال اور جلسے جلوس، جلاؤ  گھیراؤ،  مالی نقصان، اور مُلک کی بدنامی  ایک روٹین اور پاکستان کا مُستقل کلچر بنتا جارہا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کیا یہ  پاکستانی نظام ِعدل کی ناکامی ہے  اور حکومتِ وقت  ہر  اہم معاملے کو پر امن طور پر حل ہونے سے روکنے اور پاکستان میں اتنشار پھیلانے والے عناصر پر قابو پانے میں ناکام کیوں  نظر آتی ہے؟ کیا اس کیس کو اس سے بہتر طریقے سے ہینڈل نہیں کیا جاسکتا تھا؟ اس کیس کی ابھی پوری طرح  سے تحقیق بھی نہیں ہوئی تھی کہ سوشل میڈیا پر  ایک کہرام مچ گیا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طلباء وطالبات کو ایک بڑی پراپیگنڈا مُہم کے ذریعے ایک ایسی پٹڑی پر ڈال دیا گیا جس کی کوئی منزل نہیں۔ تعلیمی اداروں میں بدامنی اور طلباء طالبات کے قیمتی وقت کے زیاں کے خدشات بڑھتے ہی جارہے ہیں۔

پنجاب گروپس آف کالجز کے  گرلز کیمپس 10گلبرگ میں 14 اکتوبر کو مُبینہ طور پر ایک فرسٹ ایئر کی سولہ سالہ طالبہ  (جس کا پہلے میڈیا میں نام اُم حبیبہ بتایا گیا اور اب سوشل میڈیا پر اُس کا نام کنزہ سلیم لیا جارہاہے) کا  عون نامی ایک سکیورٹی گارڈ نے ریپ کیا جس نے ناصرف  پورے سوشل میڈیا پر آگ لگا رکھی ہے بلکہ پورے لاہور کے تعلیمی اداروں میں احتجاج اور توڑ پھوڑ کا سلسلہ جاری ہے۔  اور یہ احتجاج دن بدن  پورے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پھیلتا ہی جارہا ہے۔ طلبہ اور پولیس میں ہونے والی مڈبھیڑ  میں ریسیکیو 1122 کے مطابق 27 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ مذکورہ  کالج  کی انتظامیہ ایسے کسی بھی پیش آنے والے واقعہ سے یکسر انکاری ہے اور ثبوت کے لیئے تمام سی سی ٹی وی فوٹیج  پیش کرنے کے لیئے تیار ہے۔  ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق لڑکی کو ایک نجی ہسپتال کی "آئی سی یو"   یعنی انتہائی نگہداشت کی وارڈ  میں رکھا گیا ہے۔ تاہم سرگودھا سے مُبینہ مُلزم (سکیورٹی گارڈ)  کو  پولیس گرفتار کر چُکی ہے اور وہ کسی قسم کے اس واقعہ میں ملوث ہونے سے ہی انکاری ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق لڑکی فوت ہوچکی ہے اور اُسے دفنایا بھی جاچُکا ہے۔

  میڈیا میں یہ سٹوری کس طرح ڈیویلپ ہورہی ہے؟ تمام میڈیا رپورٹس کی سکروٹنی سے جو شواہد و حقائق سمجھ آتے ہیں۔   پنجاب کے وزیر تعلیم سکندرحیات نے مُبینہ طور پر ملوث کالج کی رجسٹریش معطل کردی ہے اور احتجاج کرنے والے طلباء و طالبات کو یہ یقین دلایا ہے کہ اس واقعہ کے مُلزموں کو وہ کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔  اسی طرح چیف منسٹر پنجاب نے ہائی لیول "پروب کمیٹی"  تشکیل دی ہے جس کا انچارج سیکرٹری ایجوکیشن کو بنایا گیا ہے۔ ڈی آئی جی فیصل  صاحب کی ٹیم اور نہ ہی میڈیا کی کسی ٹیم یا چینل کو  ابھی تک وہ لڑکی  ملی ہے  جس کا ریپ ہوا ہے۔ میڈیا میں مُبینہ ریپ کے متعلق یہ تاثر پیدا کیا جارہا ہے کہ یہ گینگ ریپ ہے اور ایک تاثر یہ بھی پھیلایا جارہا ہے سٹوری کے اس نمونے  کے مطابق فیس کے بہانے مذکورہ طلبہ کو فیس کی معافی کے بہانے  کالج کی بیسمنٹ میں بلایا گیا  اور اس گینگ ریپ میں کُچھ ٹیچرز بھی ملوث ہیں اور کالج انتظامیہ نے ناصرف سی سی ٹی وی فوٹیج ڈیلیٹ کردی ہے بلکہ وہ حقائق پر پردہ بھی ڈال رہی ہے۔

میڈیا میں ہی ایک تاثر یہ بھی ابھارا جارہا  ہے کہ اس سارے معاملے میں کوئی بڑی شخصیت  ملوث ہے جسے چُھپانے کے لیئے مذکورہ ڈرائیور کو "قربانی کا بکرا" بنایا جارہا ہے۔ کُچھ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ جن کا پاک فوج کے خلاف پراپیگنڈا وطیرہ بن چُکا ہے  وہ ایک  پاک فوج کے ریٹائرڈ کرنل جو پنجاب کالجز کا سکیورٹی کا انچارج ہے اُسے مُوردِ الزام ٹھہرا کر فوج کے خلاف دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔  حیران کُن طور پر احتجاجی گروہوں میں ایک بجائے درجنوں سٹوریاں گردش کررہی ہیں۔ لڑکی کون ہے؟ کس ہسپتال میں ہے؟  سرے سے کسی کوبھی  پتا ہی  نہیں۔ گویا یہ ساری سوشل میڈیا کی بھڑکائی ہوئی وہ آگ ہے جس نے ایک حشر برپا کر رکھا ہے لیکن   حکومت، حکومتی اداروں اور کالجز انتظامیہ سمیت کسی  کو بھی ایک  مکمل، پرفیکٹ اور حقیقی واقعہ کا کوئی  علم نہیں ہے۔  اس احتجاج اور توڑ پھوڑ میں شامل افواہوں پر مبنی  ہر شخص کی ایک  الگ ہی  سٹوری ہے  تاہم  تاحال نہ تو لڑکی ملی ہے اور نہ ہی لڑکی کے والدین کے متعلق کوئی ٹھوس خبر  کسی میڈیا چینل یا ٹیم کے پاس موجودہے۔ 

اس سارے کیس میں بہت سارے سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ان سوالات میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ایسا کیونکر ممکن ہے کہ  ایک پورے واقعہ کا کسی کو بھی علم نہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ لڑکی کون ہے؟ وہ کدھر گئی اور اُسے کس نے غائب کردیا ہے؟  تیسرا سوال یہ ہے کہ  حکومتی وزیر نے کالج کی رجسٹریشن کیوں معطل کی ہے اور چیف منسٹر نے ہائی لیول "پروب کمیٹی کیوں تشکیل دی ہے؟ ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیمپس 10 تو صرف گرلز کا کیمپس ہے اس میں بڑی  مردانہ شخصیت  کون ہوسکتی ہے جبکہ اس کیمپس  کی پرنسپل بھی ایک خاتون ہیں؟ ایک سوال  یہ بھی اہم ہے کہ اتنے بڑے ایک تعلیمی ادارے  اور اُس کے مالک کی ریپوٹیشن کے پیچھے کہیں  کوئی  دوسرا  حریف تعلیمی ادارہ  تو نہیں پڑا ہوا ہے؟ واضح رہے کہ پنجاب گروپ آف کالجز اتنے بڑے سائز کا واحد پاکستانی تعلیمی ادارہ ہے جو  پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا انتہائی مُثبت کردار ادا کررہا ہے جس کے کئی غیر تعلیمی اداروں کے مالکان حاسدین میں شامل ہیں۔

ان تمام سوالوں کا جواب بڑا سادہ سا ہے پہلے نمبر پر تو یہ کوئی سوشل میڈیا پر ایسی پاکستان امن دُشمن سازش لگتی ہے جس میں ایک واقعہ کو ہائی جیک کیا گیا ہے۔ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ موجودہ حکومت کی طرفداری نہ بھی کی جائے تو یہ بات ثابت شُدہ ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے ایک تسلسل سے انتشار اور اشتعال پھیلایا جارہا ہے۔ جہاں تک بیرونی قوتوں اور پاکستان دُشمنوں کی بات کی جائے انہوں نے تو یہ کام کرنا ہی ہے چونکہ  ہماری سیاست میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے والی عادت ہے اور  حکومت وقت کے  مخالف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ  اس معاملے کو  خُوب اچھال  کر حکومت کی ناکامی کا بھی بھرپور پراپیگنڈا کررہے ہیں۔ یہ نادان یہ بھی نہیں سوچتے کہ  اس سے پاکستان کی  سُبکی  بھی ہوتی ہے اور  پاکستان کے بیرونی دُشمنوں کو بھی پاکستان میں انتشار پھیلانے اور پاکستان میں سیاسی ہو یا معاشی یا پھر ذہنی عدم استحکام  پیدا کرنے یں بڑی آسانی ہوجاتی ہے۔

بالفرض اگر یہ واقعہ سچا بھی ہے تب بھی ایسے معاملات کو ہینڈل کرنے کا کیا یہی طریقہ رہ گیا ہے کہ طلباء و طالبات ہڑتالیں کریں توڑ پھوڑ کریں اور اپنا قیمتی وقت برباد کریں؟ اس سے کہیں بہتر کام یہ نہیں تھا کہ  دنگا فساد  کرنے کی بجائے صرف بیس طلباء  اکٹھے ہوکر  مُبینہ ملزموں یا مُلزم  کو پکڑ کر زبردستی پولیس کے حوالے کردیتے۔  جب وزیرتعلیم، وزیراعلٰی بذات خود اس واقعہ کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کروانے جارہے ہیں تو پھر احتجاج کیسا؟ توڑ پھوڑ کیوں؟ ہڑتالوں کا کیا جواز؟  یہ سب ڈرامہ بازی  کی کیا ضرورت ہے۔ حکومت کو اس کیس کے انکوائری کو چھوڑ کر سب سے پہلے سوشل میڈیا کے اُس اکاؤنٹ کا سُراغ لگانے کی ضرروت ہے جس نے سب سے پہلے یہ خبر اپلوڈ کی اور ایسے اکاؤنٹ ہولڈر تک اگر حکومت پہنچ گئی تو اس الجھے ہوئے کیس کا نا صرف  آسانی سے سُراغ مل جائے گا بلکہ سچ اور جُھوٹ بھی کُھل کر سامنے آجائے گا۔

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url