امریکی، اسرائیلی اور بھارتی عزائم سیسہ پلائی دیوار پاک فوج اور آئی ایس آئی
میجر ( ر ) ساجد مسعود صادق
( حصہ اول )
خلاصۂ تحریر!
اللّٰہ تعالٰی کی پاک ذات کا ارشاد ہے “میرے محبوب اگر تم ان کا دین بھی قبول کرلو پھر بھی یہ ایمان نہیں لانے والے”۔ مزید فرمایا کہ یہودو نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہوسکتے” مزید فرمایا “حق آگیا اور باطل مِٹ گیا بے شک باطل نے مٹنا ہی تھا” مزید فرمایا “میرے محبوب مومنوں کو تمہارا نصحیت کرنا فائدہ دیتا ہے” مزید فرمایا کہ ان کے دلوں، آنکھوں، کانوں اور زبانوں پر مُہریں لگی ہوئی ہیں۔ یہ گونگے اور بہرے ہیں” مزید فرمایا “یہ (حق بات کی طرف) نہیں پلٹیں گے”۔
سازشی تھیوریاں ایک حقیقت یا فسانہ؟
جو کچھ پاکستان میں ہورہا ھے جب سازش کے متعلق کوئی بات کی جائے تو کچھ لٹھ بردار پاکستانی جو حیران کُن طور پر پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بھی اس کھیل کو حقیقت نہیں مانتے وہ امریکی زبان بولنا شروع کردیتے ہیں اور ان کا سیدھا اور پہلا جُملہ (بالکل امریکیوں اور بھارتیوں کی طرح) یہ ہوتا ہے کہ پاکستانی تو سازشی تھیوریوں پر یقین رکھتے ہیں۔ کاش کبھی ان کا گذر قرآن و حدیث سے بھی ہو جس میں یہود و ہنود کی سازشوں کے قصے اللّٰہ کی پاک ذات نے خود بیان کیئے ہیں۔ پاک پیغمبر ﷺ اور مومنوں کے خلاف تو ان کی سازشوں کے متعلق لکھ لکھ کر کتابوں کا ڈھیر لگایا جاسکتا ہے۔ ہم ان کو دین سے دُوری کا طعنہ نہیں دیتے بالکل دلائل سے یہ ثابت کریں گے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان گذشتہ ستر سالوں سے مسلسل سازشوں کا شکار ہے جس میں مغربی دنیا اور ان کے گماشتے بھارت، اسرائیل اور افغانستان ہر وقت ہر گھڑی اس کے خلاف ایک نئی چال چلتے ہیں۔ یہ تحریر ان مخصوص لوگوں کے لیئے ہے جن کو ثبوت چاہیئں اور جن کو پاکستانی یا مسلمانوں کی بات کی بجائے ٹام، ڈِک، ہیری اور نتھو رام کی باتوں پر زیادہ یقین ہے۔ یہ تحریر ثبوتوں کے ساتھ ہے جو چاہے اس کو جھٹلانے کا چیلنج قبول کرے۔
اختلاف رائے مگر کس لیئے؟
ثبوت مانگنے کے ساتھ ساتھ یہ پڑھے لکھے جاہل لوگوں کا ہجوم کبھی مجھے زاہد حامد سے متاثر کہتا ھے تو کبھی میری تحریر کو آئی ایس پی آر بریف کہتا ہے۔ کئی میری تحریروں کو سمجھے بغیر ہی مجھے نون لیگ یا پھر پی ٹی آئی کا حمایتی سمجھتے ہیں۔ اور کئی مجھے جمہوریت دشمن سمجھتے ہیں۔ جمہوریت کے شیدائیوں کو تو بس مجھے اتنا ہی کہنا ہے تم نے اللّٰہ اور اس کے رسول ﷺ کی ساری مان لی ہیں نا اب یہ مغربی جمہوریت آخری الہامی حکم ہے جس کے فروغ کے لیئے آپ اپنی زندگیاں برباد کررہے ہو۔ بین الاقوامی سیاسیات کا طالبعلم ہونے کے ناطےجب میں کچھ تحریر کرتے ہوئےمیں سوچتا ہوں کی یہ سارے میرے اپنے پیارے لوگ ہیں جیسے بھی ہیں، جسطرح بھی ہیں اور جس پارٹی سے بھی ہیں۔ اور جب میں مُلکی سیاست کی بات کرتا ہوں تو اس کا بین الاقوامی سیاست سے لنک بتاتے ہوئے یہ بات بھی واضح کرتا ہوں کہ کون کدھر غلط جارہا ہے ایسا کرتے ہوئے میرا کسی پارٹییا شخصیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ لہذا تمام پارٹیوں کے ورکرز میری تحریروں سے مطمئن رہیں بے شک اختلاف بھی رکھیں جو ان کا حق ہے۔ رہ گئی بات پہلی کیٹیگری کے لوگوں کی تو وہ لوگ نوٹ فرما لیں کہ جس طرح میرے اللّٰہ نے تمام انبیاء سے ان ہی کی زبانی یہ کہلوایا کہ “میں تم سے (حق) بات بتانے کا کوئی اجر نہیں مانگتا” ان پاک پیغمبروں کے پاک قدموں کی خاک کے صدقے میں بھی یہی کہتا ہوں کہ میں نے تہیہ کیا ہوا ہےحق بتانے کی میں کبھی کوئی قیمت وصول نہیں کروں گا۔ میری تحریریں کشمیر کی بہنوں بیٹیوں اور بیٹوں کے صدقے، پاک فوج کے جوانوں کی شہادت کے صدقے اور میرے بزرگوں کی ان قربانیوں کے صدقے جو انہوں نے اس وطن کو بنانے کے لیئے دیں بالکل “فری” ہیں۔ اور یہ بھی بتا دوں کہ نہ میں صحافی ہوں اور نہ لفافی۔
امریکی گھناؤنےعزائم اور ثبوت
قارئین اکرام نوٹ کرلیں کہ امریکہ، بھارت، اسرائیل اور مغربی دنیا کی سازشیں چار ٹارگٹ حاصل کرنے لگی ہوئی ہیں جن کے میں اس پیرا کہ بعد چند ناقابلِ تردید ثبوت بھی ناقدین کی تسلی کے لیئے پیش کروں گا۔ جن کی تفصیل جو میں بیان کرنے والا ہوں اسکو پاکستان کے بچے بچے کو جان لینی چاہیئے
• دو قومی نظریے کو غلط ثابت کرکے پاکستان کو سیکولر رنگ میں ڈھال کر اس کی اسلامی پہچان ختم کرنا۔
• کشمیر کا مسئلہ بھارت کی مرضی کے مطابق حل کرنا۔
• پاکستان کی افواج اور آئی ایس آئی کو بدنام، کمزور کرکے اس کو سیاسی حکومت کے ماتحت کرنا۔
• انتشار کی مصنوعی صورتِ حال پیدا کرکے کسی طرح بھی ایٹمی اثاثوں کا کنٹرول حاصل کرنا۔
پہلا امریکی مصنف! اسٹیو کول!
اسٹیو کول وہ امریکی صحافی ہے جس نے روس افغانستان جنگ کا سارا عرصہ افغانستان کا تھیٹر کور کیا صفحہ 353 پر لکھتا ہے کہ “کلنٹن کے دور میں امریکہ کا جنوبی ایشیاء میں ایجنڈا کا بھارت جنگ روکنا، پاکستان کے ایٹمی اثاثوں سے پوری دنیا کو پیدا شدہ خطرات کا حل ڈھونڈنا، پاکسانی معاشرہ میں دہشت گردی کو پروان چڑھنے سے روکنا، جمہوریت کا فروغ اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے متعلق تھا” وہ صفحہ 386 پر مزید لکھتا ہے کہ سن دوہزار اور دوہزار ایک میں مشرف کلنٹن ملاقات کا بھی یہی ایجنڈا تھا اور اس میں صرف ایک چیز کا اضافہ بھی کرتا ہے کہ پاکستان کی “اسلامی پہچان” “Islamic Identity” کا مسئلہ امریکہ کی شدید پریشانی کا باعث تھا۔ (“CIA’s Ghost Wars in Afghanistan”).
دوسرا امریکی مصنف! سٹیفن کوہن!
اس بیمار ذہن امریکی کو ہمارے بیمار ذہن پڑھے لکھے جنوبی ایشیاء کی سیاسیات کا ماہر مانتے ہیں۔ وہ صفحہ 305 سے 309 لکھتا ہے کہ بُش نے سن دو ہزار میں کیمپ ڈیوڈ میں پاکستان کے اندر تین ٹارگٹ حاصل کرنے کی پالیسی بنائی جن میں دہشت گردی کی جنگ میں اسے زبردستی پارٹنر بنانا، اس کے ایٹمی اثاثوں پر کنٹرول حاصل کرنا اور تیسرا پاکستان کو سیکولر جمہوری مُلک بنانا۔ (The Idea of Pakistan)
تیسری مصنفہ! ثمینہ یاسمین!
یہ موصوفہ صفحہ 97 سے 102 پر فرماتی ہیں کہ “بش ڈاکٹرائن کا مطلب پاکستان کو مجبور کرنا تھا کہ وہ کشمیر پر اپنی پالیسی بدلے، انڈیا کی جنوبی ایشیاء میں تھانیداری قبول کرے، سیکولر جمہوریت لائے اور اپنے ایٹمی اثاثے ختم کرے”۔(India and Pakistan)
چوتھا مصنف! ڈیوڈ آلِو!
یہ صٖفحہ 277 سے279 فرماتے ہیں کہ “اوبامہ کی پالیسی پاکستانی ایٹمی اثاثوں، سیکولر جمہوریت کی مضبوطی، پاک فوج کو چھوڑ کر پاکستانی لوگوں کے ساتھ ڈائریکٹ رابطے، امداد کو امریکی مفادات کے مطابق پاکستان کے چلنے سے مشروط کرنے اور ضرورت پڑھنے پر پاکستان کے اندر امریکی افواج کا اپریشن کرنے کے گرد گھومتی رہی”۔ (An American Story)
پانچواں مصنف! حسین حقانی!
غدارِ وطن اورامریکی چمچہ صفحہ 339 سے 342 لکھتا ہے کہ “اوبامہ کا مشیر جونز چار مطالبات لیکر پاکستان آیا جن میں آئی ایس آئی کو مجبور کرنا کہ وہ امریکہ سے تمام معلومات شئیر کرے، تمام ائیر فلائٹس کا ڈیٹا امریکہ کو دیا جائے، آرمی اور آئی ایس آئی امریکہ کے ساتھ دہشت گردی میں مزید تعاون کرے، امریکی ایجنٹوں کے ویزوں پر پابندیاں اُٹھانا شامل تھے”۔ (Magnificent Delusions)
پاک آرمی کہاں فِٹ بیٹھتی ہے؟
قارئین ان تین امریکی صدور کی پالیسی کے اھداف تو آپ نے دیکھ لیئے اب یہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ اس کے علاوہ تین انتہا پسند “یہودی امریکن” جن کو بین الاقوامی سیاست کے طالبعلم “Cristian Zionists” کہتے ہیں جن میں ڈینیل مرکی (امریکی کونسل آن فارن ریلیشن کا سربراہ)، بروس رِڈل (اوبامہ کا مشیر) اور اسٹیفن پی کوہن (جنوبی ایشیاء کی سیاست کا خود ساختہ ماہر) اور اس کے علاوہ ایک بیمار ہندو فیصل دیو جی جنہوں نے پاکستان آرمی کے خلاف لکھ لکھ کرکتابوں کے ڈھیر لگا دیئےہیں سب کہتے ہیں کہ “پاک فوج اور اس کی آئی ایس آئی کی پاکستانی عوام کی نظروں میں مقبولیت، کشمیر کاز اور اسلامی پہچان کا دفاع، دہشت گردوں اور چین سے مضبوط تعلقات اور سب سے بڑھ کر بھارت سے دشمنی اور ایٹمی ہتھیاروں پر کنٹرول امریکی، اسرائیلی، بھارتی سکیورٹی کے لیئے بہت بڑا خطرہ اور چیلنج ہے” لہذا اس کو کنٹرول کیئے بغیر امریکی منصوبے کہیں بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ تین امریکی صدور کی پالیسیوں میں یہ بات واضح ہوگئی کہ پاک فوج امریکی، بھارتی، اسرائیلی اور مغربی منصوبہ سازوں کو کتنا پریشان حال رکھتی ہے۔ اور یقیناً ان کے کچھ پاکستانی چمچوں کو بھی۔
زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کا مسئلہ
یہ امریکی لٹریچر پڑھ پڑھ کر ادھ موئے ہوئے خودساختہ پاکستانی مفکر، جمہوریت کے چیمپئین اور امریکیمادر پدر آزاد سوسائٹی اور ترقی سے متاثر بیمار ذہن امریکی گیمز کو نہ تو سمجھتے ہیں اور نہ ہی سمجھنا چاہتے ہیں۔ میں بات کرتا ہوں پاکستان کے خلاف سازشوں اور بیرونی گٹھ جوڑ کی تو کبھی میری سوچ کو یہ آرمی کی سوچ تو کبھی زاہد حامد کی سوچ کہتے ہیں۔ کیا یہ نادان نہیں جانتے کہ سی آئی اے پوری دنیا کی سیاسی حکومتوں میں مداخلت کرتی ہے؟ کیا یہ نہیں جانتے کہ “را” اور “ایم آئی سکس” کیا کرتی ہیں۔ یہ ایجنسیاں تو دوسرے مُلکوں میں مداخلت ان مُلکوں پر قبضے کرنے کے لیئے کرتی ہیں۔ آئی ایس آئی تو پاکستان کو بچانے کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ان کو یہ تو دلیل مل سکتی ہے کہ آئی ایس آئی کشمیر اور افغانستان میں دخل اندازی کرتی ہے لیکن بھلے مانسو! یہ تو سوچو افغانستان میں ستر سال سے پاکستان کو برباد کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں اور کشمیر تو ہے ہی پاکستان کا جس کو امریکہ بھارت کی گود میں ڈال کر اس کو خوش کرنا چاہتا ہے۔ وہاں دخل اندازی نہیں بلکہ وہاں کام کرنا آئی ایس آئی کا حق ہے اور اگر یہ نہیں کرتی تو میرے نزدیک مُجرم ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر سے پاکستان کی بقا جُڑی ہوئی ہے۔
نوٹ!
میں ایک بار پھر واضح کردوں مجھے جمہوریت، عمران صاحب یا نواز شریف سے حتٰی کہ فوج سے بھی کچھ نہیں لینا دینا۔ میری تحریروں میں پاکستان کی نظریاتی سرحدوں جن میں اسلامی پہچان، دو قومی نظریہ، مسئلہ کشمیر کی بات ہوتی ہے۔ اگلی تحریر میں انشاء اللّٰہ میں یہ بتاؤں گا کہ پاکستان کے اندر ان سازشوں پر عمل کیسے کیا جارہا ہے۔ اور آئی ایس آئی اور پاک فوج تاریخی اعتبار سے پاکستان دشمنوں کو کیوں چُبھتی ہیں۔ اگر اوپر پیش کردہ ثبوتوں سے کچھ لوگ مطمئن نہ ہوں تو مجھ سے اور مانگیں اور بھی میں پاکستان دُشمنوں کی کتابوں سے نکال کر دکھاؤں گا۔
گرچہ اندازِبیاں شوخ نہیں میرا
کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔