تذکرةُ الکشمیر، تاریخِ مسئلہ کشمیر اور 77 واں یومِ سیاہ
میجر (ر) ساجد مسعود صادق
بھارتی حکمرانوں نے نے 1948میں یہ مسئلہ یو این او میں لے جاکر کامیابی سے مجاہدین کی پیش قدمی روکی، سن 1962ء چین بھارت جنگ میں پاکستان کو اس جنگ سے آوٹ رکھا، سن 1965ء پاک بھارت جنگ میں بھی ایک واضح شکست سے بھارت اور کشمیر کو بچایا۔ سن 1965 مارچ کے مہینے میں بھارتی صدر لال بہادر شاستری نے بھارتی قانون میں شق نمبر 356اور357 کا اضافہ کرتے ہوئے کشمیر میں گورنر راج نافذ کیا۔ سن1971 میں اندرا گاندھی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس نے دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ اسی طرح مُودی سرکار نے 6اگست سن 2019 میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کو منسوخ کرکے کشمیر بھارت میں ضم کرنے کے لیئے ایک قدم اور آگے بڑھایا جبکہ پاکستان حکمران بس تقریریں ہی کرتے نظر آئے۔ بین الاقوامی استحصالی نظام (مغربی ورلڈ آرڈر) میں اخلاقیات کی بجائے مُلکی مُفادات اور سُپریم ہوا کرتے ہیں اور پاکستان اسی نظام کی وجہ سے مسئلہ (مسئلہ کشمیر) حل نہیں کروا پارہا۔
کشمیر پر بھارتی قبضے کے77 سال مکمل ہونے پر آج کشمیری مُسلمان دُنیا بھر میں یومِ سیاہ منا رہے ہیں جس میں روایتی طور پر پاکستان بھی شامل ہے۔ کشمیر پاکستان کا “ریموٹ کنٹرول” ہے جو اگر بھارت کے ہاتھ میں رہے گا تو جب چاہے بھارت پاکستان میں فلڈ برپا کرکے اسے یا تو ڈبو دے یا خُشک سالی برپا کرکے برباد کردے گا۔ “ کشمیر پاکستان کی شہ رگ” کے موقف پر پاکستان ہمیشہ سے بظاہر تو قائم ہے مگر کشمیر پر پاکستانی فارن پالیسی سوائے پاکستانی حکمرانوں کی “لِپ سروس” کے اور کُچھ کارنامہ بھی سرانجام نہیں دے سکی ۔ اسٹیفن کوہن اور بروس رڈل جیسے معروف اور زائیونسٹ امریکی مُفکروں کا کشمیر کے بارے میں یہ خیال ہے کہ کشمیر کا مسئلہ پاک بھارت کے لیئے “زیرو سم گیم” ہے جس پر کوئی بھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتا لہذا کشمیر کے مسئلے کا واحد حل اسٹیٹس کو اور موجودہ لائن آف کنٹرول کو انٹرنیشنل بارڈر مان لینے میں ہے۔"
آجتک میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت 97000 کشمیروں کو شہید تو 11000کشمیری عورتوں کی بے حرمتی اور عصمت دردی جیسے گھناؤنے کام کرچُکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر مغربی طاقتوں نے بھی منافقانہ طرز سیاسے اپناتے ہوئے کبھی یہ مسئلہ حل ہونے نہیں دیا۔ پاکستانی فارن پالیسی کا پچھتر سالہ ٹریک ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ پاکستان کشمیر پر بھارت کے ساتھ چار جنگیں کرنے اور ہر سال UNGA کے ہر سالانہ اجلاس میں تقریر کرنے کے باوجود بھی مغربی پُشت پناہی کی وجہ سے کشمیر کے معاملہ پرناکام نظر آتا ہے جبکہ بھارت بین الاقوامی حالات کا بڑی مہارت سے استعمال کرکے کشمیر کو اپنا “اٹوٹ انگ” بنانے کی کوششوں میں پاکستان سے کافی آگے نظر آتا ہے۔ UNGA کے آخری سیشن میں بھارتی وفد نے کشمیر پر اپنی فارن پالیسی کو ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان سے جو تین مطالبات کیئے اُن میں کشمیر میں دراندازی اور دہشت گردی سے رُکنا، دہشت گردی کے مُلک سے اڈے ختم کرنا اور آزاد کشمیر سے پاکستانی قبضے کا خاتمہ شامل تھے۔
پاکستانی وفد کا 76 سال سے UNGA م میں اگرچہ تسلسل سے ذکر کرنا شامل ہے کیونکہ پاکستانی حکمرانوں کی ایک تو یو این اسمبلی میں تقریر " تذکرة الکشمیر "کے بغیر ادھوری ہوتی ہے اور دوسرے نمبر پر اگر وہ ایسا نہ کریں تو پاکستانی عوام بھی مشتعل ہوجاتے ہیں۔ گھِسے پھِٹ یو این او میں ذکر اور کشمیر پر یوم سیاہ منانے سے کیا بھارت کشمیر کو آزادی دے دے گا؟ جبکہ اس مسئلہ کا بلاواسطہ تعلق بین الاقوامی سیاست سے ہے اور اگر جنوبی ایشیاء میں یہ مسئلہ حل ہوتا ہے تو یہ مڈل ایسٹ میں فلسطین اور بھارت سے آزادی مانگنے والی ریاستوں کے لیئے بھی ایک ماڈل بن جائے گا جو کہ بھارت سمیت مغربی طاقتوں (بالخصوص امریکہ) کو بھی کسی طور منظور نہیں۔ مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی تعلقات کے مُفکرین “ٹائم بم” کا نام دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایسا بم ہے جو ہر وقت ٹِک ٹِک کررہا ہے لیکن بین الاقوامی حالات کے مطابق پھٹے گا۔
برطانوی حکمرانوں نےبرطانوی سُپر پاور کا اسٹیٹس ختم ہونے سے پہلے جو بھی اقدامات اُٹھائے ہیں اُس کے نتیجے میں بین الاقوامی سیاست میں کشمیر جیسے تنازعات کا انہوں نے جان کر بیج بویا۔ مڈل ایسٹ میں مسئلہ یہودیوں کی آبادکاری، جنوبی ایشیاء میں مسئلہ کشمیر ، ڈیورنڈ لائن اور یورپ میں تُرکی پر سو سالہ پابندیاں برطانیہ کی ختم ہوتی سُپر پاور کے وہ انسانیت دُشمن کام ہیں جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر امن کا خواب کبھی پورا نہیں ہوا بلکہ اُلٹا کئی انسانی قیمتی جانیں بھی ان تنازعات اور ان پر جنگوں کی وجہ سے ضائع ہوئیں۔ امریکہ کے سُپر پاور بن جانے کے بعد ان بین الاقوامی تنازعات کو امریکی فارن پالیسی پلانرز نے بڑی مہارت کے ساتھ ناصرف اپنی مرضی کے مطابق اپنے بین الاقوامی سیاسی اہداف کے لیئے استعمال کیا ہے بلکہ پوری دُنیا پر مغربی کنٹرول اور قبضہ (ورلڈ آرڈر) بھی برقرار رکھنے میں بھی ان سے مدد لی ہے۔
مسئلہ فلسطین جہاں مڈل ایسٹ کی تمام اسلامی ریاستوں کے سروں پر لٹکتا ایک خنجر ہے وہیں کشمیر کا مسئلہ کمیونسٹ طاقتوں (روس وچین) اور بھارت اور پاکستان کو بھی قابو میں رکھنے کے لیئے امریکہ کے کام آتا ہے۔ پاکستان کی اس ناکامی اور بھارت کی کامیابی کی دو بُنیادی وجوہات ہیں ایک تو پاکستانی فارن پالیسی کی نامناسب ترجیحات اور بین الاقوامی حالات سے فائدہ نہ اُٹھا پانا اور دوسرے نمبر پر مغربی طاقتوں کی بھارت کی پُشت پناہی۔لیکن بین الاقوامی سیاست کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ اسٹیٹس کو پر چین کو بھی اعتراض نہیں کیونکہ اگر کل کو کشمیر کا مسئلہ حل کی طرف جاتا ہے تو چین کو بھی 17%کشمیری علاقے جو بھٹو نے ڈپلومیٹک مُوو سمجھ کر دیئے تھے ان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ اس کے علاوہ چین کبھی بھی خواہ مخواہ بھارت سے جنگ کرنا نہیں چاہے گا۔ پاکستان کشمیر پر بھارت سے چار جنگیں کرکے دیکھ چُکا ہے ہر طرح کے ڈپلومیٹک حربے بھی اختیار کرچُکا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستانی کشمیر پالیسی کا نتیجہ زیرو ہے۔
پہلے پاکستانی وزیراعظم خان لیاقت علی خان نے امریکہ سے کہا کہ وہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت کا واضح موقف اختیار کرے ورنہ پاکستان کشمیر سے جنگ کرے گا اور ایک تحقیق کے مطابق خان لیاقت علی خان کے قتل کی سازش کے پیچھے اُن کے کشمیر کے متعلق عزائم ہی تو تھے۔ یہ بات بھی تصدیق شُدہ ہے کہ سن 1962کی چین بھارت جنگ ایک موقعہ بھی تھا اور چین پاکستان سے بھارت پر حملے کے لیئے زور لگا رہا تھا لیکن امریکہ نے اُس وقت پاکستانی صدر جنرل ایوب کو ایسا کرنے سے باز رکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تو باقاعدہ طور پر کشمیر کے مسئلہ پر بھارت سے ہزار سالہ جنگ لڑنے کا کہا اور پاکستانی ایٹمی پروگرام اور مضبوط فوج بھی اسی مسئلہ کی وجہ سے ہے۔ ضیاء دور میں بھی پاک بھارت جنگ ہوتے ہوتے رُکی۔
صدر مُشرف نے تو باقاعدہ طور پر اپنی کتاب میں دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ ہونے کی جو تین وجوہات اپنی کتاب In the Line of Fire میں لکھی ہیں ان میں بھی کشمیر کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار بے نظیر مرحوم اور نواز شریف بھی کشمیر کے متعلق اسی UNGA کے فلور پر کرتے رہے ہیں جیسے آج عزت مآب انور کاکڑ صاحب کرتے نظر آئے۔ سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کو اس مسئلہ میں کتنی دلچسپی ہے۔ پاکستانی فارن پالیسی کا حال یہ ہے کہ اپنے واحد مسئلہ پر عالم اسلام کے اہم ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں بھی ناکام ہوا ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارتی سربراہ جوہرلعل نہرو نے سن 1948 میں کشمیر کو UNGA میں جب جنگ بندی تو کروا لی لیکن بعد میں نہایت چالاکی سے اسے ٹالتا بھی رہا اور استصواب رائے کے مطالبے سے مُکر بھی گیا۔
یہ تو بھلا ہو پاک فوج کا جس نے ابھی تک اس مسئلے کو زندہ رکھا ہوا اور اپنے سے پانچ گُنا بڑے دُشمن کو تمام تر مغربی پُشت پناہی کے پورے کشمیر کو ہڑپ نہیں کرنے دیا۔ پاکستانی حکمرانوں اور عوام کے یہ بات ذہن نشین رہے کہ کشمیر کو پاکستان کی "شہ رگ" بانی پاکستان (قائداعظمؒ) نے ویسے ہی نہیں کہہ دیا تھا اور اسی طرح خان لیاقت علی خان سے لیکر تمام حُکمرانوں نے اگرچہ مسئلہ کشمیر کے لیئے اپنی کوششیں کی ہیں اور ان کوششوں کا رزلٹ بین الاقوامی سیاست کی وجہ سے اگرچہ مُثبت نہیں رہا اور یہ کوششیں اُس وقت تک نہیں رُکنی چاہیئں جب تک کشمیر بھائیوں کو اُن کا حق مل نہیں جاتا۔ اسی طرح پاکستانی عوام کو کشمیر عوام کی آواز میں آواز ملانی ہوگی اور کندھے سے کندھا ملا کر چلنا ہوگا۔ ان شاء اللّٰہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب کشمیری غاصب بھارت سے ضرور آزاد ہوں گے۔۔