Visit Our Official Web 25اکتوبر۔ آئینی ترامیم اور بلاول بھٹو زرداری Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

25اکتوبر۔ آئینی ترامیم اور بلاول بھٹو زرداری

 


احمد خان لغاری 

ہمارے ملک پاکستان کی سیاست فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہورہی ہے۔ اگرچہ کسی قسم کی پیشگوئی کرنا مشکل ہے لیکن ایک بات واضع نظر آرہی ہے آج سے چند ماہ پہلے تک جو سلوک پاکستان کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت کے ساتھ روا رکھا جارہا تھا، اب اس میں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ خداوندان ریاست نے زیادہ بوجھ حکومت پاکستان پر ڈال دیا ہے ادر وہ ان کی سیاست، اور منافقت دونوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں مطلب یہ کہ نواز شریف کی بے چین خاموشی پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں اور وزیر اعظم کی جی حضوری پر بھی توجہ مذکور ہے۔ اسی طرح وزیر اعلی پنجاب کو کھلی چھوٹ دیکر بھی آزمایا جارہا ہے اور یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ قاتل کہاں تک ہے۔ آئی ایم ایف سے اربوں ڈالر کا سودا طے پا چکا ہے اور وزیر اعظم نے بر ملا کہہ دیا کہ یہ سب بزرگوں کی دوا اور دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ اب ڈالروں کی ریل پیل ہے، جہاں خرچ اس جسے دیں، جہاں رکھیں۔اندرون ملک یا بیرون ملک یہ حکومت کی مرضی ہے۔ چند آئینی ترامیم کا پلندہ بنا کر بھیجا جاتا ہے اور ان کی منشا یہی ہے کہ چھانگا مانگا لگائیں یا مری اور گلیات کو آباد کریں ماہ اکتوبر میں ہی ٹاسک مکمل ہوجانا چاہیے بصورت دیگر معاملات کسی دوسری طرف جا سکتے ہیں حکومت سے رخصتی اور دیگر پلان اے بی سی تیار رکھے جاتے ہیں۔ قائد مسلم لیگ ن بیرون ملک جاتے جاتے رک گئے کہ سب مل کر اس امتحان سے نکل سکیں اور محسنوں کے سامنے سرخرو ہوسکیں وگرنہ انہیں بھی علم ہے کہ پلان اے بی سی کیا ہوتے ہیں اور ایسا نہ ہوکہ زیر و پوائنٹ پر آکھڑے ہوں اور یہی ڈر کھائے جارہا ہے کہ انہوں نے ووٹ کو عزت دو سے پاکستان کو نواز دو کے مرحلے بہت مشکل سے گذارے ہیں۔ ان کے حامی یہ کہتے رہیں کہ لندن جاکر نواز شریف کے پاؤں اور گھٹنوں پر ہاتھ رکھے گئے کہ آپ پاکستان تشریف لائیں اور ادھورا سچ لگتا بھی ہے کہ پھر ایئر پورٹ پر ہی تمام کاروائیاں مکمل کی گئیں اور وہ مینار پاکستان کے سائے میں چوتھی بار کیلئے وزیر اعظم نظر آرہے تھے۔ نجانے کیا ہوا کہ ہمارے ملکی قائدین کا پلان بدل گیا اور وہ آج بھی پوچھتا پھرتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا۔ لیکن سمجھداری تو دیکھیں کہ اب غصہ اعلی عدلیہ پر ہی نکل رہا ہے۔ بات آئینی ترامیم کی کرنا چاہ رہا ہوں لیکن بات دوسری طرف چلی گئی، بات اور موضوع اگرچہ ایک ہی ہے۔لیکن ترامیم کا مسودہ آرہا ہے اور جارہا ہے، اجلاس حکومتی ہوں یا اسمبلی اور سینٹ کے بلائے جاتے ہیں لیکن بات نہیں بن رہی۔ پی ٹی آئی کے ارکان توڑنے کی باتیں ہوتی ہیں تودوسری طرف مسلم لیگی ارکان کے کھسکنے کی خبریں بھی سامنے آتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی حیثیت مسلمہ ہے وہ فیسلہ کن کردار بھی ادا کرسکتا ہے ان کے اراکین بھی فیصلہ کن اور کارکنان بھی فیسلہ کن کردار ادا کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار اور کامران نظر آتے ہیں موجودہ حالات میں پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن اور پی پی پی، مولانا فضل الرحمن کے در دولت کا طواف کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اندر کیا کرنا چاہتے ہیں اسکی خبرکسی کو نہیں وہ خود جانتے ہیں یا پھر وہ چانتے ہیں جو سب اپنی مرضی کا نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہاں پر سبھی ایک ہی گلی کے فقیر ہیں۔ کوشش تو کرتا ہوں موضوع پر ہی رہوں لیکن کیا کروں بات بہت دور تلک نکل جانے کی ضد کرتی ہے۔ قارئین کرام! آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے کہ جیسے جیسے دن قریب آرہے ہیں اور حکومتی کاوشیں ناکام نظر آرہی ہیں، شہباز شریف اینڈ کمپنی کی ترامیم میں ناکامی کے بعد اب یہ ٹھیکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مرد حر نے اٹھا لیا ہے اور بدلے میں بلاول بھٹو زردار کو وزارت عظمٰی ملے گی۔ مزے کی بات ہے کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ 25اکتوبر سے پہلے ترامیم پاس کراکے سپریم کورٹ کے ساتھ ایک نئی عدالت بٹھائی جائیگی تاکہ تمام اپنے اور صاحبان کرامت کے تمام جائز نا جائز کام کو باقاعدہ جائز بنایا جاسکے۔ پاکستان پیپلز پارٹی جیسی جمہوری سوچ رکھنے والی جماعت اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے بیٹے سے ایسی توقع نہیں تھی جسمیں یہ بات بھی مبینہ طور پر طے ہے کہ سپریم کورٹ جو نئی بنائی جانیوالی ہے اسکے سربراہ کا نام بھی انہوں نے دیا ہے جو آئینی معاملات پر تشریح کر یگی۔ فلور کراسنگ ادرھارس ریڈنگ جائز قرار دی گئی تو پھر نوے کی دھائی والا کام شروع ہوجائے گا جسکا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔

یہ جمہوریت دشمنی اور عدالتی نظام کھو کھلا ہو جائیگا۔ ہمارے ملکی صدر جو مسلح افواج کے سربراہ ہوتے ہیں وہ اپنے بیٹے کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں اور اسی لیے ان کی تقریریں اور وکلا ء سے ملاقاتیں جاری ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو مجوزہ آئینی ترامیم کی حمایت میں مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی کی تعداد زیادہ ہوگی۔ خبریہ بھی ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک اس متنازعہ آئینی ترامیم سے عوامی توجہ ہٹا نے کیلئے پاکستان کا دورہ کررہے ہیں تاکہ لوگ اسی بحث میں الجھ جائیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائک نے لاکھوں لوگوں کو مسلمان کیا ہے اور ان کی خدمات کی تحسین کے ڈونگرے برسائے جائیں اور جاتے ہوئے ہمارے آرمی چیف جو حافظ قرآن بھی ہیں ان کو ایسا مرد مجاہد ثابت کرکے جائیں کہ اگر ایران پر حملہ ہوجائے تو سب ترامیم بھی دھری رہ جائیں گی اور خطے کی حفاظت بین الاقوامی تناظر میں کسی جماعت اور نظام کی ضرورت ہی نہ رہے۔ رہے نام مولا کا!۔

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url