Visit Our Official Web اُردو شاعری سے انتخاب Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

اُردو شاعری سے انتخاب


 واقعہ کربلاء کی حقیقت

چُپکے سے کہا کان میں  پیرِ طریقت نے مِرے

ازل کے فیصلے اور واقعہ  دونوں نظر میں رکھنا

 یاد رکھنا سداکہ  یہ معرکہ حق و باطل تو ہے ہی

مقصود تھا کربلاء میں اہلِ حق کو خُوب پرکھنا

 حُسین اپنے  نانا  کی آنکھوں کے تارے ہیں

واجب ہے اہلِ حق  پر انہی  کی طرف رہنا

یہ قصہ غرائبِ تقدیر میں سے ایک   قصہ ہے

لوگ اُلجھیں گےاس میں مگر تُواس سے بچنا

مزا تو تب جب وہ کہیں سؔاجد اُن کا غلام ہے

کردارگواہی دے  تُو "ہمارے"  نہ کہتے رہنا 


  ساجد مسعود صادق

⭕⭕⭕⭕⭕


اب محفلِ غزل میں غزل آشنا ہے کون؟

مانا کہ ایک ہم ہیں، مگر دُوسرا ہے کون؟


قاتل نے جب پُکارا کہ اہلِ وفا ہے کون؟

سب لوگ جب خموش رہے، بول اُٹھا ہے کون؟


تُم اپنی انجُمن کا ذرا جائزہ تو لو

کہنے کو تو چراغ بہت تھے، جلا ہے کون؟


دعویٰ سُخن کا سب کو ہے لیکن تمام عُمر

اک دشمنِ سخن سے مُخاطب رہا ہے کون؟


سب دیکھتے جدھر ہیں اُدھر کیا ہے؟ کچھ نہیں!

ہم دیکھتے جِدھر ہیں اُدھر دیکھتا ہے کون

؟

تصویرِ میکدہ میری غزلوں میں دیکھئیے

سنبھلا رہا ہے کون، نشے میں گِرا ہے کون؟


مَیں ایک نقشِ پا ہُوں مگر مَیں بتاؤنگا

اِس راہ سے جو گزرا ہے وہ قافلہ ہے کون!


سب دوست ایک ایک کرکے مُجھے چھوڑتے گئے

دُشمن بھی دنگ ہے کہ یہ تنہا کھڑا ہے کون


گھر بھی ترا، گلی بھی تری، شہر بھی ترا

جو چاہے جِس کو کہہ دے، تُجھے روکتا ہے کون؟


عاجؔز یہ کِس سے بات کرو ہو غزل میں تُم؟

پردہ اُٹھاؤ ہم بھی تو دیکھیں چُھپا ہے کون؟


                  کلیم عاجز


⭕⭕⭕⭕⭕


‏رَنگ و رَس کی ہَوس، اور بَس

مسئلہ دسترس، اور بَس


یوں بُنی ہیں رگیں جِسم کی

ایک نَس, ٹَس سے مَس، اور بَس


اُس مُصوِّر کا ہر شاہکار

ساٹھ پینسٹھ بَرس، اور بَس


سب تماشائے کُن ختم شُد

کہہ دیا اس نے بَس، اور بَس


عمار اقبال


⭕⭕⭕⭕⭕


جو تو نے اللّه سے لَو لگائی۔ 

تو دل میں خوفِ زوال کیسا۔ 


کہ جس کی کشتی کو تھام لے وه۔ 

تو ڈوبنے کا خیال کیسا۔


رحیم وہ ہے رحم بھی اس کا۔ 

عطاء بھی اس کی کرم بھی اس کا۔ 


یہ تیری شُہرت یہ کامیابی۔

تو اس میں تیرا کمال کیسا۔ 


جو آہٹوں کی زباں بھی سمجھے۔

عياں بھی سمجھے نہاں بھی سمجھے۔ 


جو جیت اس کے کرم سے ہے پھر۔ 

یہ ہارنے کا ملال کیسا۔


کیوں سر کی آنکھوں سے ڈھونڈتا ہے۔

اُسے جہانوں کی قید میں تو. 


جو قریب شہ رگ سے بھی ہو اس سے۔

ہجر کیسا وصال کیسا۔ 


جس کو دیکھیں گے جنتی تو کَہیں گے جنت تو کچھ نہیں ہے۔ 

تو سوچ سکتا نہیں ہے احمد۔ ہو گا حسن و جمال کیسا


⭕⭕⭕⭕⭕


🌻کلام علامہ محمد اقبالؒ رحمۃ اللہ علیہ 


یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے

         جنہیں تو نے بخشا ھے ذوقِ خدائی 


دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا 

    سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی


 دوعالم سے کرتی ھے بیگانہ دل کو 

    عجب چیز ھے لذت آشنائی 


شہادت ھے مطلوب و مقصود مومن 

    نہ مال غنیمت نہ کشور کُشائی 


خیاباں میں ھے منتظرِ لالہ کب سے 

         قبا چاہیے اس کو خونِ عرب سے 


کیا تُو نے صحرا نشینوں کو یکتا 

   خبر میں, نظر میں, اذان سحر میں 


طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو 

   وہ سوز اِس نے پایا, انہیں کے جگر میں 


کشادہ درِ دل سمجھتے ھے اس کو 

   حلاکت نہیں موت ان کی نظر میں 


دِل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے 

  وہ بجلی کی تھی نعرہ لا تدز میں 


عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے 

   نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے

⭕⭕⭕⭕⭕


چپکے چپکے رات دن

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے 

ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے 


باہزاراں اضطراب و صدہزاراں اشتیاق 

تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے 


بار بار اٹھنا اسی جانب نگاہ شوق کا 

اور ترا غرفے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے 


تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرا 

اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے 


کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً 

اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے 


جان کر سوتا تجھے وہ قصد پا بوسی مرا 

اور ترا ٹھکرا کے سر وہ مسکرانا یاد ہے 


تجھ کو جب تنہا کبھی پانا تو از راہ لحاظ 

حال دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے 


جب سوا میرے تمہارا کوئی دیوانہ نہ تھا 

سچ کہو کچھ تم کو بھی وہ کارخانا یاد ہے 


غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف 

وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے 


آ گیا گر وصل کی شب بھی کہیں ذکر فراق 

وہ ترا رو رو کے مجھ کو بھی رلانا یاد ہے 


دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے 

وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے 


آج تک نظروں میں ہے وہ صحبت راز و نیاز 

اپنا جانا یاد ہے تیرا بلانا یاد ہے 


میٹھی میٹھی چھیڑ کر باتیں نرالی پیار کی 

ذکر دشمن کا وہ باتوں میں اڑانا یاد ہے 


دیکھنا مجھ کو جو برگشتہ تو سو سو ناز سے 

جب منا لینا تو پھر خود روٹھ جانا یاد ہے 


چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ 

مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے 


شوق میں مہندی کے وہ بے دست و پا ہونا ترا 

اور مرا وہ چھیڑنا وہ گدگدانا یاد ہے 


باوجود ادعائے اتقا حسرتؔ مجھے 

آج تک عہد ہوس کا وہ فسانا یاد ہے 


مولانا حسرت موہانی

★☆★☆★☆★

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url