امریکی انڈر سیکرٹری جان بیس کے دورہ پاکستان کے ممکنہ مُحرکات
امریکی حکومت پاکستان کی موجودہ سیاسی حکومت اور عسکری قیادت کے ساتھ اپنے تعلقات بڑے اچھے اور قریبی بتانے کے ساتھ ساتھ جیل میں بند اپوزیش لیڈر کی رہائی کے متعلق وقتاً فوقتاً پاکستان پر بیان بازی کر ڈپلومیٹک پریشر بھی بر قرار رکھنا چاہتے ہیں۔ "ریجنل سکیورٹی، "ریجنل سٹیبلٹی" اور "اکنامک ریجنلزم" کے امریکی بیانیوں کے پیچھے دراصل بھارت کو "جنوبی ایشیاء کا چوہدری" ماننااور چین اور روس سے قریبی تعلقات سے اجتناب جیسے مُحرکات ہیں اور یہی جنوب ایشیائی خطے میں امریکی فارن پالیسی کے سب سے بڑے اہداف ہیں۔ امریکی انڈر سکرٹری "جان بیس" کی پٹاری میں اس دفعہ ایک نئی ہی کہانی ہے جس کے مطابق امریکہ میں پانچ مختلف اداروں اورایک شخصیت کے خلاف ایک انکوائری ہورہی ہے جن پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان کو "بیلسٹک میزائل اور کنٹرولڈ میزائل ایکوپمنٹ" غیر قانونی طور پر بیچا ہے۔ اسی طرح گذشتہ ہفتے امریکی حکومت کے ترجمان "میتھیو ملر" نے چین کے ایک ادارے "بیجنگ ریسرچ انسٹیٹیوٹ فار آٹومیشن" کے متعلق بیان دیا تھا کہ اُس ادارے نے پاکستان کو "شاہین۔3 اور ابابیل" میزائلوں کی ٹیسٹنگ کے لیئے غیر قانونی طور پر "راکٹ موٹرز" مہیا کی ہیں۔
گذشتہ تئیس سال سے پاکستان اور پاک فوج کے خلاف ایک تسلسل سے پراپیگنڈا کیا جا رہا اور اس پراپیگنڈا کو امریکی اور مغربی طاقتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ محض پراپیگنڈا ہی نہیں بلکہ کبھی آئی ایم ایف قرضوں تو کبھیFATF کے ذریعے پاکستان پر امریکہ ایک تسلسل سے معاشی پریشر بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ یہ سارے حقائق جنوب ایشیائی خطے میں امریکی فارن پالیسی کو بیان کرنے کے لیئے کافی ہیں جو اس بات کی طرف بھی شارہ کرتے ہیں کہ امریکی ماہرین کے "ریجنل سکیورٹی، "ریجنل سٹیبلٹی" اور "اکنامک ریجنلزم" کے پیچھے اس خطے میں خطے کے ممالک کی مدد سے ایک نیٹ ورک بنا کر روس اور چین کا یہاں بڑھتا ہوا اثر روکنے کی امریکی کوشش ہے۔ اور پاکستان کی امریکی مُفکرین اور ماہرین کے نزدیک اہمیت کم ہونے کی بجائے روز بروز بڑھتی ہی جارہی ہے جس کی بہت ساری وجوہات ہیں جن میں پاک چین مُشترکہ پراجیکٹ سی پیک اور گوار پورٹ انتہائی اہم ہیں۔ امریکی انڈر سیکرٹری فار پولیٹیکل افیئرز جان بیس کے اس دورے کی بظاہر جو وجوہات بیان کی گئی ہیں اس میں اگرچہ افغانستان کو بین الاقوامی دھارے میں ڈالنا اور اور پورے ریجن میں امن امان کا قیام ہیں جو حقیقی ایجنڈے کی بجائے کور سٹوری ہے۔
امریکہ جس طرح دہشت گردی کی جنگ کے آغاز سے لیکر چین کا جن خطوں میں اثرونفوذ کو روکنے کے بُخار میں مُبتلا ہے اُن میں جنوبی ایشیاء سر فہرست ہے۔ امریکی فارن پالیسی کا یہ المیہ ہے کہ امریکی ہمیشہ "لائنس" بناکر اور لائنس میں شامل ممالک کو اپنے مُفاد کے لیئے مخالفین کے خلاف استعمال کرتے آئے ہیں۔ اگرچہ ماضی میں پاکستان کے مُفاد میں یہ تھا کہ پاکستان امریکہ سے تعاون کرے لیکن جس طرح افغان روس جنگ کے بعد اور دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ نے پاکستان کیساتھ سلوک کیا ہے اس کے مطالعہ کی روشنی میں پاک امریکہ تعلقات کو بڑے اچھے طریقے سے ری ویو کرنے اور پاک امریکہ تعلقات کو از سر نو طے کرنےکے لیئے ایک شاندار کُسوٹی دی ہے اور اسی کسوٹی (امریکی طوطہ چشمی اور مفاد پرستی) یعنی مُلکی مُفادات کو دوسرے ممالک کے ساتھ قائم کرنے میں مقدم رکھنا ہوگا۔ امریکہ کاایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہی بھارت جس پر امریکہ نے دہشت گردی کی جنگ میں ایک بہت بڑی انویسٹمنٹ کی ہے اُس نے امریکی توقعات کے مطابق چین کے خلاف امریکہ کا ساتھ نہیں دیا اور نہ ہی امریکی افغان قوم کے بارے میں یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ کل افغانی امریکی مُفادات کا تحفظ کریں گے۔
پاک امریکہ تعلقات کے ماہرین کے پاک امریکہ تعلقات پر تمام تجزیات، تبصروں اور تحقیقات کو محض ایک فقرے میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ "امریکہ پاکستان کی طرف تب ہی جھکتا ہے جب اُسے ضرورت ہوتی ہے۔" اور تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ "جب امریکہ کا کسی بھی مُلک سے کام نکل جاتا ہے وہ اُسے تن تنہاء چھوڑنے میں ایک لمحے کی دیر بھی نہیں کرتا۔" اس ضمن میں سن 1965، 1971 ،اور 1991 کی پاک بھارت جنگوں اور افغان روس جنگ کی مثالیں پیش کی جاسکتیں ہیں جن میں امریکہ پاکستان سے دغا بازی کرچُکا ہے۔ دہشت گردی کی طویل جنگ میں جس طرح امریکہ نے پینتر ابدل کر پاکستان کو دُشمن سمجھا اور بھارت کو گلے لگایا یہ دو نام نہاد دوست ممالک کی دوستی کے تمام تر دعوؤں کی نفی کے مُترادف ہے۔ اسی طرح دہشت گردی کی جنگ کے دوران پاکستان کی تمام قربانیوں کو نظر انداز کرکے امریکہ، افغانی کٹھ پُتلی حکومت اور بھارت نے جس طرح پاکستان اور پاک فوج کے خلاف پراپیگنڈا کیا دھمکیاں دیں دو نام نہاد دوست ممالک کے درمیان ایسی جارحانہ ڈپلومیسی کی مثال بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ کی کسی کتاب میں نہیں ملتی۔
اگرچہ امریکہ اور بھارت افغانستان میں کسی حد تک پاکستان کا اثر کم کرنے اور پاک افغان دیرینہ تعلقات میں ڈیںنٹ ڈالنے میں کامیاب ہوچکے ہیں لیکن امریکی اب بھی ڈرتے ہیں اور یہ امر انہیں خوف سے سونے نہیں دیتا کہ اگر پاکستان نے چین کے ساتھ ملکر امریکہ کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ماضی میں پاکستان نے امریکہ کے ساتھ ملکر روس کے ساتھ افغانستان میں کیا تھا تو امریکہ کا اس خطے میں بستر گول ہوسکتا ہے۔ پاکستانی ارباب اختیار کو اچانک آئی ایم ایف کا پاکستان کو 7 ارب امریکی ڈالر کا "بیل آوٹ پیکیج"، پاکستان کی تعریفیں، اور ٹاپ درجے کی قیادت کا دورہ جس میں آرمی چیف، وزیر خزانہ اور دیگر وزراء سے مُلاقات سب بلا وجہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے اہم امریکی مُفادات اور امریکہ جو کام پاکستان سے لینا چاہتا ہے اُس پر غور فکر کرنا چاہیئے۔ جان بیس کے پاکستان سے پہلے قطر، ترکی اور بھارت کے دوروں کو مد نظر رکھ اور پاک امریکہ تعلقات کی ساری تاریخ کو سامنے رکھ کر پاکستانی قیادت کو پاک امریکہ تعلقات میں اپنی ترجیحات طے کرنی ہوں گی۔ پاکستانی قیادت کو افغانستان سے پاکستان میں در اندازی اور پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں اور افغان بھارت گٹھ جوڑ کے پاکستان کے خلاف محاذ کو جان بیس سے مُلاقاتی ایجنڈے کے ٹاپ پر رکھنا ہوگا۔
امریکہ دہشت گردی کی جنگ کے آغاز سے لیکر آجتک پاکستان پر ہر طرح کا پریشر ڈال کر بھی پاک چین تعلقات کو دن بدن مضبوط ہونے سے روک نہیں سکا۔ اور پاکستان کے موجودہ آرمی چیف کا سن 2023میں چین کا دورہ اور چند ہفتے قبل چین کے آرمی چیف کا دورہ پاکستان اور اسی طرح پاکستان میں روسی سفیر کی پاکستان میں ڈپلومیٹک مصرفیات بتارہی ہیں کہ امریکہ اس وقت پریشانی کے عالم میں ہے اور امریکی فارن پالیسی ماہرین ایک بار پھر امریکی حکومت کو باور کروا رہے ہیں کہ پاکستان کی اہمیت کو سمجھا جائے اوراسے انگیج کیا جائے۔ یہی مشورہ امریکی ریلیشن آن فارن کونسل کے ایک اہم عہدیدار ڈینیئل مرکی نے سن 2013 میں شائع کی گئی اپنی کتاب No Exit from Pakistan: America's Tortured Relationship with Islamabad میں دیا تھا۔ موجودہ حکومت اور عسکری قیادت جس طرح "سی پیک" اور گوادر پراجیکٹ کو "پُش" کررہے ہیں اور افغان بھارت گٹھ جوڑ کی اسپانسرڈ بلوچستان میں دہشت گرد کاروائیوں کا قلع قمع کررہے ہیں یہ کسی طور بھی امریکی مفادات کے حق میں نہیں۔ جان بیس کے وزٹ کا ممکنہ ٹاپ ایجنڈا پوائنٹ انہی محرکات کے ارد گرد گھوم رہا ہے باقی سب کور سٹوری