تبدیلی کی مُتقاضی پاکستانی خارجہ و داخلہ پالیسیاں
میجر (ر) ساجد مسعود صادق
بین الاقوامی معروضی حالات کے مطابق پاکستانی خارجہ و داخلہ پالیسیوں میں ایک بڑی تبدیلی کی شدید ضرورت ہے کیونکہ پاکستانی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں یکسر ناکام ہو چُکی ہیں جس کا اندازہ پاکستان کے دیگر ممالک کیساتھ تعلقات اور پاکستانی کے اندرونی حالات سے لگایا جاسکتا ہے۔ آج دُنیا ایک بار پھر قیام پاکستان کے وقت جیسے حالا ت سے گُذر رہی ہے جس میں مغربی (امریکہ، یورپی ممالک اور چند اسلامی ممالک بشمول پاکستان) اور مشرقی بلاک (روس اور اُس کے دیگر اتحادی) ایک دوسرے سے نبرد آزما تھے ماضی میں تقریبا تیس سال جیسے امریکہ اور روس ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہے۔ جس کا اختتام افغان ۔ روس جنگ میں روسی پسپائی اور روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے پر ہوا۔ آج کل ایک بار پھر روس+ چین اور امریکہ+ اتحادی اُسی طرز کی کشمکش میں مُبتلا ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں پاک بھارت اس اتحاد میں پہلے بھی مرکزی حیثیت رکھتے ہیں اور آج بھی پوری دُنیا کی نظریں انہی دونوں ممالک پر مرکوز ہیں کیونکہ آج اس ساری بین الاقوامی کشمکش کا مرکز جنوبی ایشیاء ہے۔ آج مغربی طرز کے عالمی نظام جس کی بُنیاد سن 1648 ویسٹ فیلیاء میں رکھی گئی، جسے کے خدوخال 1815 میں واضح کیئے گئے اور بالآخر سن 1948 میں یو این او اور اُس کے ذیلی ادارے (ورلڈ بنک، آئی ایم ایف، بین الاقوامی عدالت وغیرہ) بناکر اسے مضبوط بنایا گیا جس کو فوراً ہی کمیونسٹUSSR نے چیلنج کردیا۔ پاکستان کو آج بیرونی دُنیا جس نظر سے دیکھتی ہے اُس کا تجزیہ کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر سینٹر فار گلوبل سٹڈی ممبئی کے سینئر پالیسی کے معروف تجزیہ کار، تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں پر تین کتابوں کے مصنف اور مشہور بھارتی رائٹر آرپت راجین کے نزدیک پاکستانی نیوکلیئر پروگرام اسلامی ممالک کی مشترکہ پراپرٹی (اسلامک بم) سمجھا جاتا ہے جس کا امریکی فارن پالیسی بنانے والوں کو ہنٹنگٹن کے تھیسز Clash of Civilisations کے مطابق ہونے والے ٹکراؤ میں مغرب کے خلاف استعمال ہونے کا خوف و خدشہ ہے۔ اسی طرح پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں امریکی صدر اوباما کے دور میں بھی "دہشت گردی کا مرکز" اور "دہشت گردی کا کینسر" قرار دیا جاتا رہا ہے۔
پاک بھارت دُشنی میں ایک ہی بُنیادی اور مرکزی مسئلہ ہے جس کی خاطر دونوں ممالک ماضی میں چار جنگیں (1948,1965,1971 اور 1999) میں لڑ چُکے ہیں۔ پاکستانی فارن پالیسی ہمیشہ بیرونی دُنیا کی طرف کشمیر پر حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں رہی ہے لیکن دیگر ممالک تو دور کی بات اپنے بہت قریبی دوست مُلک "سعودی عرب" کی حمایت حاصل کرنے میں بھی یکسر ناکام رہی۔ اسی طرح بھارت پاکستان کے مغرب میں نہایت چابکدستی اور مہارت سے افغانستان میں بیٹھا پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور انتشار پھیلانے میںں میں مصرف ہے۔ پاکستان جس مُلک کے گُذشتہ چالیس سال سے چالیس لاکھ سے بھی زیادہ پناہ گزینوں کا بوجھ بھی برداشت کررہا ہے اُس کا اعتماد اور دوستی حاصل کرنے میں بھی ناکام ہے۔ اسی طرح جس امریکہ کا پاکستان ہمیشہ اتحادی رہا ہے آج وہ پاکستان سے زیادہ بھارت کا حمایتی ہئ یہ چند ٹیسٹ کیسز ہیں جن سے پاکستانی خارجہ پالیسی کی ناکامی کو دیکھا، پرکھا اور پڑھا جاسکتا ہے۔ کشمیر کے مسئلے میں بھارت پاکستان کو پچھاڑ چُکا ہے، افغانستان کے ساتھ اُس کے تعلقات پاکستان کی نسبت بہت بہتر ہیں اور یہی چانکیائی سیاست ہے۔
اسی طرح پاکستان کی خارجہ پالیسی اپنی مجبوریوں یا پاکستانی حکمرانوں اور اشرافیہ کے مغربی ممالک کے ساتھ دیرینہ تعلقات کی وجہ سے ہمیشہ مغرب نواز رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں بھی مغربی طاقتوں کا گہرا اثر نفوذ ہے جس کا آجکل بھارت بھرپور فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں افغانی پناہ گزینوں کی پاکستان مین ایک کثیر تعداد میں موجودگی بھارت کی پاکستان کو ہینڈل کرنے کے لیئے مددگار ثابت ہورہی ہے۔ اگرچہ پاکستانی حکمران مغربی طاقتوں کیساتھ ملکر مغربی طرز کے عالمی نظام کو قائم رکھنے میں ہر ممکنہ تعاون کرتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ مغربی پالیسیوں سے نالاں بھی رہے ہیں جس کا بہترین اظہارسابق پاکستانی صدر اور چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل پرویز مُشرف (مرحوم) نے اپنی کتاب In the Line Of Fire-2007 دہشت گردی کی جنگ میں شمولیت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے یوں کیا کہ وہ پاکستان کی کمزور معیشت اور پاکستانی نیوکلیئر پروگرام کو امریکہ سے بچانا چاہتا تھا ورنہ امریکہ حملہ بھارت کیساتھ ملکر اسے تباہ کردیتا اور اس جنگ میں شمولیت کے صلے میں پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر بھارت کے خلاف امریکی سپورٹ کی اُمید تھی۔
مغربی اتحادی پاکستان کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ امریکی خارجہ پالیسی کے مشیروں پر مُشتمل ایک تھنک ٹینک کی رپورٹ Strategy for Pakistan and Afghanistan : Independent Task Force Report No. 65 - 2010 کے مطابق پاکستان آرمی کا نیوکلیئر ہتھیاروں پر کنٹرول جب پاکستان میں انتشار اور عدمِ استحکام پیدا ہو خدشہ ہے انتہائی خطرناک ہے۔ اسی رپورٹ میں ایک اسٹریٹیجی (Carrots and Sticks) کا ذکر ہے یعنی امداد کیساتھ ساتھ پاکستان کو امریکی ایجنڈے کے خلاف چلنے کی صورت میں بوقت ضرورت سزا بھی دینا تجویز کیا گیا تھا۔میری بکلے اور رابرٹ سنگھ کی طرح اپنی کتاب The Bush Doctrine and the War on Terrorism میں یہ دعوٰی کیا گیا ہے کہ امریکہ خارجہ پالیسی کا بُنیادی مقصد تھا کہ طاقتور مسلم ممالک کو بیکار اور ناکارہ کرنے کیساتھ ساتھ پاکستان اور اس کے نیوکلیئر پروگرام کو مرحلہ وار ٹارگٹ کیا جائے ۔ اسٹیفن پی کوہن انٹول لیوین (جو امریکی فارن پالیسی ایجنڈا کا ناقد ) کے حوالے سے لکھتا ہے کہ امریکہ پاکستان میں معاشی پریشر سے زبردستی رجیم چینج کرے، یا ممکنہ سول وار کی صورت میں فوج کیساتھ گُھس جائے یا پھر بھارت کیساتھ جنگ کی صورت میں بھارت کی مدد کرے۔
اسٹیفن پی کوہن امریکی فارن پالیسی سازوں کو مشورہ دیتا ہے کہ اس سے پہلے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست بنکرامریکہ کے لیئے ایک بڑی پرابلم بنے اسے امریکہ ہمیشہ کے لیئے فکس کردے۔آج پاکستانی داخلہ اور خارجہ پالیسیاں انتشار اور زبوں حالی میں میکاؤلی کے دور کے اٹلی کی یاد دلاتی ہیں۔ سن 1971ء کے سارے کردار آج بھی قوم کے سامنے ہیں۔ ایک طرف بھارت، امریکہ اور افغان گٹھ جوڑ پاکستان کی داخلہ وخارجہ پالیسیوں کو بُری طرح مُتاثر کررہا ہے تو دوسری طرف پاکستانی قیادت اور ادارے بھی دست وگریباں ہیں۔ آج پاکستان عالمی سطح پر بھارت کے مقابلہ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ بھارتی خارجہ و داخلہ پالیسیوں کی کامیابی کا گراف آج آسمان کو چُھو رہا تو پاکستان خارجہ و داخلہ پالیسیوں کی ناکامی کی وجہ سے آج پاکستان جہاں عالمی سطح پر تنہا ہوتا نظر آتا ہے وہیں اندرونی طور پر سیاسی و معاشی بحرانوں میں مُبتلا ہوکر ایک تسلسل سے ایک انتشار اور تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
یہ اجتماعی ناکامی ہے جبکہ پاکستان میں ایک طبقہ اس بات پر اسرار کررہا ہے اور بضد ہے کہ یہ سب پاک فوج کی وجہ سے ہے۔ اس طبقے کو شاید اندازہ نہیں کہ وہی پاک فوج جو کل تک مغربی دُنیا کی آنکھوں کا تارا تھی آج مغرب اُس سے نالاں کیوں ہے۔ پاک فوج چونکہ آج پاکستان دُشمن قوتوں کے گھناؤنے عزائم کے راست میں واحد رکاوٹ ہے اس لیئے اسے بدنام کرنا، اسے قوم کی نظروں میں گرانا یہ بیرونی پلاٹ ہے جس کا ڈرم سوشل میڈیا کے ذریعے بیرونی طاقتوں کے کچھ پاکستانیوں کے ساتھ ملکر خوب بجارہے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ تمام سیاستدان اور ادارے اور اُن کے سربراہان سر جوڑ کر بیٹھیں سکیورٹی کونسل کو فعال کیا جائے، کوئی تھنک ٹینک بنا کر ستتر سالہ پاکستانی خارجہ و داخلی پالیسیوں کا ری ویو کیا جائے اور پاکستان کو بچانے اور مضبوط کرنے کے راست تلاش کیئے جائیں۔ کوئی ایسا دیرپا پلان بنایا جائے کہ پاکستان دُنیا کی سیاست میں اپنی حیثیت کے مطابق اپنا مقام پانے میں کامیاب ہو۔ یہ وقت قوم اور قومی قیادت کے لیئے اختلاف کی بجائے اتحاد کا ہے اور یہ وقت پاکستانی خارجہ و داخلہ پالیسیوں کو نئے سرے سے ترتیب دینے کا ہے۔