Visit Our Official Web نیو ٹریشن پروگرام۔ ناقص کارکردگی عوامی نمائندوں کی عدم دلچسپی Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

نیو ٹریشن پروگرام۔ ناقص کارکردگی عوامی نمائندوں کی عدم دلچسپی

 


احمد خان لغاری 

وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے اپنے دورہ ڈیرہ غازیخان کے دوران پرائمری سکولوں کے ننھے طلبا اور گرلز پرائمری سکولوں کی ننھی طالبات کے لئیان کی جسمانی صحت کے حوالے سے نیوٹریشن پروگرام کا باقاعدہ آغازکیا۔ یہ پروگرام ڈیرہ غازیخان، راجن پور اور مظفر گڑھ کے اضلاع کیلئے مخصوص تھا۔ انہوں نے اپنے پروگرام کے اختتامی خطاب کے آغاز میں طلبا، طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ نیوٹریشن پروگرام کے اجرا سے پہلے کسی سکول میں بچوں سے بات چیت کر رہی تھیں کہ اس سکول کی ایک ٹیچر جو ادارے کی پرنسپل تھیں اس نے بتایا کہ محترمہ وزیر اعلی صاحبہ یہ چھوٹے بچے صبح جب سکول آتے ہیں تو یہ ناشتہ کرکے نہیں آتے۔ تب انہوں نے اپنے آپ سے اور طلبا وطالبات سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ بچوں کی صحت اور بہتر خواراک کیلئے ہر پرائمری گرلز اور بوائز سکول میں بچوں کو سکول میں آنے پر دودھ پیش کیا جائیگا اور پیکٹ دودھ ہر بچے اور بچی کو ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نیو ٹریشن کے اس پروگرام کا آغاز جنوبی پنجاب کے پسماندہ ڈویژن سے کر رہی ہیں۔ وزیر اعلی نے یہ وعدہ بھی لیا کہ دودھ کے پیکٹ بھی سکولوں میں جمع کیے جاتے رہیں گے تاکہ ان سے کوئی دوسرا پروگرام شروع کیا جاسکے گا۔ دودھ کے پیکٹ پر کسی کمپنی یا ادارے کا نام نہیں ہے البتہ وزیر اعلی کی طرف سے اس پروگرام کی تفصیل اور تصویر ہے تاکہ صوبہ پنجاب کی کارکردگی واضع ہوسکے۔ اس نیو ٹریشن پروگرام کے آغاز سے ہی بد انتظامی سامنے آئی، دودھ کے پیکٹ ایک جگہ سے دوسری جگہ لاہور سے راجن پور، ڈیرہ غازیخان اور مظفرگڑھ کے دور دراز علاقوں میں بروقت پہنچانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ جس برق رفتاری سے اس پرگرام کا آغاز ہوا تو اس رفتار سے دودھ کے پیکٹوں کی نقل و حمل مشکل امر تھا۔ اس بدنظمی کی وجہ سے ضلع ڈیرہ غازی خان کے محکمہ تعلیم کے سینئر افسر ناقص کارکردگی کے جرم کا شکار ہوگئے اور معطل کر دیے گئے۔ حالانکہ اس ساری بدانتظامیوں میں ڈسٹرکٹ اور ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر کے ساتھ اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسرز کی بھی ذمہ داری تھی لیکن بدقسمیت سے سب سے بڑے آفیسر محکمہ تعلیم ذمہ دار ٹہرے۔ راقم الحروف نے اس نیو ٹریشن پروگرام کی اہمیت اور افادیت کے ساتھ ساتھ اسکی بروقت نقل وحمل کا جائزہ لینے کیلئے لوگوں سے رابطہ کیا ملاقاتیں کیں اساتذہ کرام سے بھی چند سوالات کیے جس سے کھل کر اس پروگرام کے ابتک کے نتائج اخذ کیے جس سے یہ بات یقینی ہے کہ وزیر اعلی پنجاب کی ذاتی دلچسپی کے اس پروگرام کی بلاشبہ پذیرائی تو ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ بچوں کی صحت اور تندرستی کے حوالے سے حکومت پنجاب کا یہ پروگرام زیادہ دیر نہیں چل سکے گا۔ اس پروگرام کی ناکامی کی کئی وجوہات ہونگی۔ جس بدانتظامی کی وجہ سے محکمہ تعلیم کے سینئر افسر شکار ہوئے یہی وجہ اب آگے تک پھیل چکی ہے۔ ضلع ڈیرہ غازیخان اور راجن پور کا زیادہ تر علاقہ کوہ سلیمان پر مشتمل ہے، اور پہاڑوں کے دشوار گزار راستوں کی وجہ سے اساتذہ نہیں پہنچ پاتے، پرائمری سکولوں کے طلباوطالبات کی تعداد محض رجسٹر داخل خارج تک محدود ہے۔ ایسے علاقوں میں نقل و حمل نا ممکن ہے اگر ایسے سکولوں تک بچوں کی صحت و تندرتی کیلئے دودھ کے پیکٹ پہنچا دے جائیں تو وہ صرف گھروں میں ہی استعمال ہونگے اور ایسا ہورہا ہے۔ ما ہ ستمبر میں موسم گرما پورے جوبن پر ہے، اور درجہ حرارت چالیس سینٹی گریڈ تک ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں پیکٹ سکولوں میں پہنچ بھی رہے ہیں لیکن وہ گرم ہونے کی وجہ سے پینے کے قابل نہیں ہے۔ چند سکولوں میں نیک دل اساتذہ کرام دودھ کے پیکٹ ہمسایوں سے مانگی گئی بالٹیوں یں کھول کر برف بھی مانگتے ہیں اور اس میں کوئی شربت ڈال کر بچوں کو پلاتے ہیں اور اس لنگر سے اساتذہ کرام اور اردگرد کے ہمسائے جو بالٹیوں اور بر ف کی سہولت باہم پہنچاتے ہیں ان کو بھی شریک کرنا ضروری ہوتا ہے۔

قبل ازیں جب یہ دودھ کے پیکٹ جو درجہ حرارت کی وجہ سے گرم تھے بچوں کو قے اور پیٹ کی بیماریاں شروع ہوگئیں تب یہ طریقہ اختیار کیا گیا۔ محکمہ تعلیم کے افسران کی پالیسی ہے کہ طلبا و طالبات کی تعداد بڑھاتے رہیں لہذا طلبا و طالبات تو دور دراز علاقوں میں نہیں پڑھ سکتے بلکہ مختلف نام رجسٹروں میں درج کر لیے جاتے ہیں۔ دودھ کے پیکٹ بھی اسی تعداد سے سکولوں کو ملتے ہیں تو غور فرمائیں وہ دودھ کے پیکٹ کہاں جاتے ہونگے۔ اساتذہ کرام اور طلبا اور معززین علاقہ جہاں یہ سہولت پہنچائی جاتی ہے وہ اسے انقلابی قدم سمجھتے ہیں لیکن ایسے سکول میں جو 2010اور 2022کے شدید سیلاب کی وجہ سے عمارتوں سے محروم ہیں، کمروں سے محروم ہیں اساتذہ نہیں ہیں، طلبا و طالبات نہیں ہیں مناسب ہوتا کہ بچوں کیلئے سکولوں کے کمروں کا بندوبست کیا جاتا تاکہ وہ چھاؤں میں بیٹھتے اور بارشوں سے بھی محفوظ رہتے۔ سکولوں کو مہیا کے جانے والے دودھ اور نقل و حمل بھی مسلم لیگی کمیٹی کے حوالے ہوتا تاکہ وہ اسے یقینی بناتے مگر حالت یہ ہے کہ مسلم لیگ کی ضلعی تنظیم ضلعی انتظامیہ سے ناخوش ہے اور جناب ڈپٹی کمشنر شہروں کے سکولوں کا وزٹ کرکے اپنے فرائض منصبی سے عہدہ برآ ہوتے رہتے ہیں۔ افسر شاہی سیاسی کارکنوں کو دودھ کے پیکٹ کی رقم کے حوالے سے آگاہی دینا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں اور ایم این اے ایم پی اے کو فارم 47کی پیداوار سمجھتے ہیں اور انہیں اہمیت نہیں دیتے۔ میرے خیال میں یہ پروگرام زیادہ دیر چل نہیں پائے گا کیونکہ ہزاروں سکولوں اور لاکھوں طلبا تک پہنچا نا ناممکن ہے۔اسی ناقص کارکردگی کی بنا پر محکمہ تعلیم مظفر گڑھ کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا لیکن اس ساری مہم جو وزیر اعلی پنجاب نے شروع کی بھی عوامی نمائندے جنہیں فارم 47والے نمائندے کہتے ہیں ان کی خاموشی پر بھی اساتذہ اور طلبا و طالبات کئی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف دوسرے اضلاع میں یہ پروگرام شروع کرنے سے پہلے سکولوں کی عمارتوں، کمروں کی تعمیر کو پہلے یقینی بنائیں۔اب دودھ کے پیکٹ چوری ہونے کی خبریں بھی آرہی ہیں ان کی ذمہ داری بھی کسی پرڈالنی پڑیگی۔

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url