جنرل فیض حمید کورٹ مارشل کیس پر سیاسی ملمع سازی
میجر (ر) ساجد مسعود صادق
پاکستان آرمی کے ادارے "آئی ایس پی آر" کے مطابق ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا آغاز ہوچُکا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اس معاملے میں پاکستانی میڈیا احتیاط سے کام لیتا کیونکہ جنرل فیض حمید پاک فوج کے ایک عام جنرل نہیں بلکہ وہ ایک انفنٹری ڈویژن کے کمانڈر، ایڈجوٹینٹ جنرل، ڈی جی کاؤنٹر انٹیلیجنس کےعہدے کے ساتھ ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی اور کور کمانڈر جیسے اہم اور حساس عہدوں پر کام کرچُکے ہیں اور اُن کے سینے میں ناصرف اپنے انتہائی اہم قومی راز بلکہ دُشمن کے بارے میں بھی بہت معلومات کا ایک ذخیرہ ہے جس کا تقاضا ہے کہ اس پروفائل اور رینک کے افسر کے کیس کے متعلق سیاسی تخمینوں، تبصروں اور تجزیوں سے اجتناب کرنا چاہیئے۔ پھر بیشتر پاکستانیوں کو تو یہ علم ہی نہیں کہ "فیلڈ جنرل کورٹ مارشل" کیا ہوتا ہے تاہم ہر بات پر حقائق کو توڑ موڑ کر پاکستانی عوام کو گُمراہ کرنے والے نام نہاد مُبصروں، تجزیہ کاروں، کالم نگاروں ، وی لاگرز اور یوٹیوبرز کا ایک گروہ حقائق کے علم کے بغیر اس کیس پر سیاسی ملمع سازی کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔
جنرل فیض حمید کیس اس لیئے بھی اہم ہے کہ جب پاکستان میں موجود بین الاقوامی ایجنڈے پر کام کرنے والے پاکستان کے اندر بیرونی قوتوں کے معاون عناصر افواج پاکستان کے خلاف ایک بھرپور مہم چلارہے ہیں۔ یہ وہی قوتیں اور عناصر ہیں جو پاکستان اور افواج پاکستان کو بدنام اور کمزور کرنا چاہتی ہیں اورسوشل میڈیا میں بیرونی قوتوں کے ساتھ ملکر انہی عناصر نے موجودہ آرمی چیف کی تقرری کو متنازعہ بنا کر اپنی مرضی کا آرمی چیف لگوانے کی کوشش کی تاکہ وہ اُن کے سیاسی ایجنڈے کے مطابق چل سکے۔ عین اس مہم کے درمیان پاک فوج کے اہم اور اعلٰی ترین عہدوں پر کام کرنے والے شخص کے خلاف احتسابی کاروائی پاک فوج کے احتسابی نظام اور موجودہ عسکری قیادت کے اعصاب کی مضبوطی کی دلیل ہے۔ یہ بات ہر پاکستانی کو ذہن نشین کرنی چاہیئے کہ یہ کیس پاک فوج نے ایک تو سُپریم کورٹ کے کہنے پر جنرل فیض حمید کے خلاف انکوائری سے اسٹارٹ کیا لیکن اس انکوائری کے دوران اُن کی ملٹری لاء کی سنگین خلاف ورزیوں کی وجہ سے بات اُن کے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل تک پہنچی۔
اگرچہ بیرونی قوتوں اور اُنکے پاکستان کے اندر ہرکارے (ڈیجیٹل دہشتگرد ) یہ بیانیہ بنانے میں مصروف ہیں کہ یہ کیس دراصل ایک مخصوص پارٹی کے لیڈر کو "فریم" کرنے کے لیئے بنایا گیا جو حقائق کو گُڈ مُڈ کرکے تیار کیئے گئے ایک سفید جھوٹ کے سوا کُچھ بھی نہیں ہے۔ جس کی نفی فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا پروسیجرز کردے گا جو بذات خود اتنا واضح اور کلیئر ہے کہ ایک تو کسی بے گُناہ کو اس پروسیجر کے مطابق سزا دی ہی نہیں جاسکتی اور اس پر مزید کسی بھی فرد کے خلاف ملٹری لاء کے مطابق کاروائی کو پاکستان آرمی کی انہی کاموں کے لیئے مخصوص برانچ جسے "ججز اینڈ ایدوکیٹ جنرل" کہا جاتا ہے ہر کیس کا آخر تک تمام قانونی پہلوؤں کے مطابق جائزہ لیتے اور اُسے مانیٹر کرتے ہیں۔ اس مخصوص برانچ میں تعینات فوجی افسران لاء کے کوالیفائیڈ لوگ ہوتے ہیں یعنی ملٹری لاء کے ایکسپرٹ ہوتے ہیں اور برانچ کا کام ہی یہی ہے کہ کسی بھی نامزد بے قصور مُلزم کو سزا نہ ہوسکے اور نہ ہی مُجرم سزا سے بچ سکے۔ اس کے علاوہ کسی بھی نامزد ملزم کو یہ سہولت بھی مُیسر ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے سول سے بھی چوٹی کا وکیل ہائر کرکے اپنا دفاع کرسکتا ہے۔ گویا کسی بے گناہ کو فوجی قانون کے مطابق سزا دینا ناممکن ہے۔
فیض حمید کیس میں ایک نکتہ یہ بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جس نے ملٹری کے اندر سروس کی ہو وہ دو سال تک کسی بھی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتا جبکہ مذکورہ جنرل کے خلاف معروف اسکینڈل "ٹاپ سٹی کیس" کی انکوئری کے دوران پاک فوج کے ہاتھ ایسے ٹھوس شواہد لگے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملٹری لاء کے خلاف وہ ایک مخصوص پارٹی کے ساتھ ملکر نا صرف اس پارٹی کو سیاسی فائدہ پہنچانے اور اسی سیاسی پارٹی کی قیادت کے ساتھ ملکر پاک فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچانے جیسے سنگین جُرم کا بھی ارتکاب کررہے تھے۔ گویا اُن کا یہ عمل پاک فوج کے خلاف بیرونی بیانیے "پاک فوج سیاست کنٹرول کرتی ہے اور سیاست میں مداخلت کرتی ہے" جس کے ذریعے پاک فوج پر انگلیاں اُٹھیں کوتقویت دینے کے مُترادف بھی ٹھہرتا ہے اور پاکستانی عوام کی نظروں میں پاک فوج کے کردار کو بھی مشکوک بنا دیتاہے۔ اور مختلف بیرونی بیانیوں اور پاک فوج اور پاکستان کے خلاف پراپیگنڈے کے پیچھے یہی تو ایجنڈا ہے کہ پاکستانی عوام پاک فوج سے بددل ہوں اور پاکستان میں انتشار پھیلے۔
ایک معروف پاکستانی صحافی اور پیمرا کے ایک سابق انچارج نے ایک معروف نجی ٹی وی چینل پر اس کیس کے متعلق یہ انکشاف بھی کیا کہ مذکورہ جنرل کے گھر میں اُن کے لیپ ٹاپ اور موبائل سے انتہائی حساس اور کلاسیفائیڈ ڈیٹا بھی ملا ہے جس کو کوئی بھی سرکاری ملازم اپنی رہاش گاہ پر نہیں رکھ سکتا۔ اُسی پروگرام میں مذکورہ تجزیہ نگار نے یہ بھی بتایا کہ اس ڈیٹا میں یقیناً سیاستدانوں، ججز اور دیگر اداروں کے اہم عہدیداروں اور کارکردگی کے بارے بھی حساس معلومات تھیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سارا ڈیٹا کئی لوگوں کو بلیک میل کرنے اور ایک مخصوص سیاسی پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے لیئے استعمال کیا جاتا تھا یا کیا جانا تھا۔ اس طرح یہ بات پاکستانی ملٹری لاء تو ایک طرف یہ سراسر بلیک میلنگ اور عمومی اخلاقیات سے بھی گری ہوئی حرکت کے مُترادف ہے۔ یہ بات پاکستانی ملٹری لاء کے مطابق طے ہے کہ ریٹائرمنٹ تو دور کی بات وردی میں ہوتے ہوئے بھی افواج پاکستان کسی قسم کی سرکاری معلومات اپنی رہاش گاہ پر نہیں رکھ سکتا۔اس کے علاوہ مذکورہ جنرل کے ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ (جو اس وقت جیل میں ہیں) کے ساتھ ایک موبائل جو کہ جیل کے کسی اہلکار کی ملکیت بتایا جاتا ہے کے ذریعے مکمل رابطہ تھا۔
اس مضمون میں بیان کیئے گئے حقائق کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو مذکورہ جنرل اور پاکستانی قانون کے خلاف چلنے والے تمام لوگوں کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہیئے اور یہی وہ کام ہے جو موجودہ آرمی قیادت کررہی ہے لیکن اس کو یہی حقائق کے علم سے عاری اور بیرونی ایجنڈے کو تقویت دینے والے نام نہاد مُبصر، تجزیہ کار، کالم نگار ، وی لاگرز اور یوٹیوبرز موجودہ آرمی چیف کا پرسنل Vendata (جیل میں قید سیاسی رہنما سے ذاتی مخاصمت) بتا کر عام لوگوں کو گُمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حالانکہ اس سے پہلے سیاستدان فوج کو استعمال بھی کرتے اور پھر سیاست میں مداخلت کا ملبہ بھی اس پر ڈالتے رہے ہیں اور اب اگر یہ راستہ ہمیشہ کے لیئے اس کیس کے ذریعے بند ہوتا ہے تو اس میں قباحت ہی کیا ہے؟ موجودہ آرمی چیف سید عاصم مُنیر نے جو راستہ چُنا ہے وہ سخت مُشکل ہے اور اس میں کئی رکاوٹیں بھی آئیں گی لیکن یہ کیس پاک فوج اور سیاستدانوں کو آئیندہ قانون کی پابندی اور اپنے اپنے قانونی دائرے میں رہنے پر بھی مجبور کردے گا۔ قصہ مختصر کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے اسٹاف کالج کے افسران کوپہلے خطاب "فوج سیاست سے دور رہے" کے مطابق فیض حمید کیس کے ذریعے پچھتر سالوں میں پہلی بار صحیح معنوں میں عمل درآمد ہورہا ہے۔ اور فوج کا یہی موقف 5ستمبر کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی دوٹوک انداز میں بیان کیا تھا۔