ختم نبوت کانفرنس کی آڑ میں سیاسی ایجنڈے کی تکمیل
احمد خان لغاری
7 ستمبر سن 1974کو سن1973کے آئین میں پاکستانی پارلیمنٹ نے ایک مُتفقہ قرارداد میں تبدیلی کرکے قادیانیوں کو کافر قرار دے کر اس فتنے کا ہمیشہ کے لیئے کم از کم پیپرز کی حد تک اور قانونی لحاظ سے خاتمہ کردیا۔ یہ طویل اور صبر آزماء جنگ تھی جس میں پاکستان کی تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور 7 ستمبر سن 1974 کو بالآخر پاکستان کے آئین میں یہ بات ثبت کردی گئی کہ "قادیانی کافر ہیں" اسی طرح ان پر دیگر کئی پابندیاں بھی لگا دی گئیں جن میں مسجد نہ بنانے کی اجازت، اپنے آپ کو مُسلم نہ کہنے کی ممانعت اور قادیانی افکار کی تبلیغ پر پابندی جیسے دیگر کئی اقدامات شامل ہیں۔ عقیدہ ختم نبوتﷺ مسلمانوں کے ایمان کا وہ حصہ ہے جس کا انکار کرکے کوئی مومن ہو ہی نہیں سکتا۔ 7 ستمبر سن 1974 کے بعد سےاب ہر سال یہ دن خصوصی طور پر ختم نبوت ﷺ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن پاکستان کے طول و عرض میں بڑے بڑے مذہبی اجتماعات ہوتے ہیں جن میں علماء، خطباء اور مشائخ شامل ہوتے ہیں اور آپ ﷺ کا ذکر خیر ہوتا ہے اور قادیانیت کی نفی کی جاتی ہے۔ یہ دن واقعی ہی ایک یادگار دن ہے اور پاکستان کی ایک اسلامی مُلک ہونے کے ناطے بہت بڑی کامیابی ہے۔
اس دفعہ 7 ستمبر کو جمیعیت علمائے پاکستان (مولانا فضل الرحمٰن گروپ) نے مینار پاکستان پر اسی سلسلہ میں ایک اجتماع کیا جس میں ایک حیران کُن اور عجیب بات یہ تھی کہ اس دفعہ اس اجتماع میں بریلوی مسلک، اہل سُنت والجماعت اور اہل تشیع کے ماسوائے چند علماء کے دوسروں نے شرکت ہی نہیں کی تاہم اس اجتماع میں اہل حدیث کے اور دیوبندی مسلک کے تمام اکابرین اور بڑے بڑے علماء مولانا فضل الرحمٰن کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی تقریر میں بے شمار باتیں کیں جن میں ختم نبوت ﷺ کا ذکرِ خیر توتھا ہی لیکن انہوں نے اسی پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے بہت ساری سیاسی باتیں بھی کیں اور ڈھکے چُھپے اور کُھلے الفاظ میں بھی بہت سارے پیغامات کئی پارٹیوں، اداروں اور شخصیات کو پہنچائے۔ اس سے پہلے مولانا صاحب کی تقریر کا پوسٹ مارٹم کیا جائے ایک بات نوٹ کرلی جائے اس سارے اجتماع میں دیوبند مسلک کے مدارس سے طلباء کی گاڑیاں بھرکر لائی گئیں۔
مولانا صاحب نے ختم نبوت کے موضوع کے علاوہ نام لیئے بغیر پی ٹی آئی کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ وہ جہاں تک "تک اُن کے بُنیادی کاحقوق کا مطالبہ ہے اُس میں تو وہ ان کا ساتھ دیں گے لیکن اُس کی ایک شرط ہے کہ اگر یہ حقوق آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے پُر امن طریقے سے مانگیں جائیں ۔" مولانا نے ایک ماہر خطیب کی طرح پی ٹی آئی کے لیئے بڑا واضح پیغام تھا کہ جے یو آئی (ف) اُن کے ساتھ چلنے کے لیئے تیار ہے اور پی ٹی آئی کے جلسے، ریلیوں اور احتجاج میں بھی جے یو آئی (ف) کے لوگ شامل ہوں گے گویا یہ موجودہ حکومت کے خلاف چلنے کا ایک عندیہ بھی تھا۔ یہاں ایک قابل ذکر بات یہ نوٹ کرنے والی ہے کہ یہی مولانا صاحب بانی پی ٹی آئی کو تسلسل کے ساتھ ایک "یہودی ایجنٹ" بھی قرار دیتے رہے ہیں۔ یہاں دوسری اہم بات یہ نوٹ کرنے والی ہے کہ مولانا صاحب فطری طور پر نون لیگ کے سدا حمایتی اور اتحادی رہے ہیں اور پی ٹی آئی حکومت کا سن 2021 میں تختہ اُلٹنے کے لیئے جے یو آئی (ف) نے ایک ہراول دستے کا کردار ادا کیا اور بعد میں نون لیگ کی حکومت میں اپنے بیٹے کی وفاقی وزارت سمیت جے یو آئی (ف) کے لیئے دیگر اہم وزارتوں کے علاوہ کئی اہم عہدے بھی حاصل کیئے۔
مولانا صاحب نے بیک وقت پی ٹی آئی کی گذشتہ حکومت (سن 2018-20121) اور پی ڈی ایم موجودہ حکومت کو بھی یہ کہہ کر لتاڑ دیا کہ "سن 2018 اور 2024 کے الیکشن کے نتائج دھاندلی کی پیداوار ہیں۔" گویا ایک ہی جُملے (تیر) سے انہوں نے دو شکار کر ڈالے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ "بلوچستان، خیبرپختونخوا میں حکومت کی رٹ ختم ہوچکی ہے اور حکومت اگر امن نہیں دے سکتی تو ٹیکس کس بات کا لیتی ہے۔" اُنہوں نے مزید کہا کہ وہ "اپنے حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو بتانا چاہتا ہوں یہ ہے پاکستان کی سوچ ، مینار پاکستان پر انسانوں کے سمندر کی رائے کے آگے جھکنا ہوگا۔" اس آخری فقرے پر غور کیا جائے تو منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ پی ڈی ایم جس کا وہ خود حصہ ہیں اُسی کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو بیک وقت پیغام دے رہے ہیں کہ موجودہ حکومت کو ختم ہونا چاہیئے اور عوامی رائے جو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مخالف ہے اُس کے مطابق عوام کے نمائیندےمنتخب ہونے چاہیئں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حکومت میں مولانا صاحب کو اُن کی مرضی کے مطابق حصہ نہیں ملا جس کی وجہ سے وہ سب سے نالاں ہیں۔
اگرچہ مولانا نے اشارہ ختم نبوت ﷺ اجتماع میں شامل جماعتوں کو عوامی نمائیندہ کہا لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ آجتک تمام اسلامی جماعتیں ملکر بھی پورے مُلک میں ہمیشہ چند سیٹوں سے الیکشن جیت نہیں سکتیں۔ یہ بات سوچنے کی ہے کہ اگر مولانا صاحب جس طرح اسٹیبلشمنٹ کو جھکانے کی بات کرتے ہیں تو ایسا کون چاہتا ہے؟ کیا یہ وہی بیرونی ایجنڈا نہیں یا بیرونی ایجنڈے کے ساتھ لائنمنٹ رکھنے والی سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا نہیں؟ کیا یہی فتنہ خوارج کی کے پی کے اور بلوچستان میں کاروائیوں کا ایجنڈا نہیں؟ کیا یہی پاک فوج کے خلاف امریکی، مغربی، بھارتی اور افغانی بین پراپیگنڈا نہیں؟ کیا یہی کام سوشل میڈیا پر ڈیجیٹل دہشت گرد نہیں کررہے؟ مولانا صاحب کے اس انتہاء پسندانہ اور منافقانہ رویے کی وجہ پر جب غور کیا جائے تو اُن کی پوری سیاست ذاتی مُفاد کے گرد گھومتی ہے جس کے حصول کے لیئے وہ کسی جماعت سے کسی وقت بھی اتحاد کرسکتے ہیں۔ الیکشن نتائج کو مولانا صاحب نے کبھی مانا ہی نہیں اور تاریخ میں اُن کے یہ الفاظ ثبت ہیں کہ سیاست میں "دھاندلہ" کے الفاظ انہی ہی کی ایجاد کردہ اصطلاح ہے۔ گویا وہ حکومت کے مزے بھی اُڑاتے ہیں اپنی ہی الیکشن میں کامیابی کو دھاندلی کی پیداورا قرار دینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
مولانا صاحب کی ساری سیاست اور اسلام کو ایک مذہبی کارڈ کے طور پر ذاتی فوائد حاصل کرنے کی مہارت سے کون واقف نہیں؟ یہی مولا ناصاحب کبھی پیلی وردی میں ملبوس مدرسے کے بچوں کو شو پریڈ کرکے پی ٹی آئی حکومت کے دور میں اسلام آباد فتح کرنے کا عزم رکھتے تھے اور بانی پی ٹی آئی کو یہودی ایجنٹ بھی کہتے تھے لیکن آج اُن کی پی ٹی آئی کے اہم عہدیداروں سے خفیہ اور طاہری مُلاقاتیں بھی ہورہی ہیں اور اُن سے ممکنہ اتحاد پر بات بھی چل رہی ہے۔ اور یہی کام وہ پی ٹی آئی کی حکومت کو سن 2012میں گرانے کے لیئے کر چُکے ہیں۔ مولانا صاحب کو داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے کس مہارت اور فنکاری کے ساتھ بیک وقت وکٹ کے چاروں طرف سیاسی اسٹروک کھیلے لیکن گراؤنڈ کیا تھی اور اجتماع کس لیئے تھا؟ اس اجتماع میں تو لوگ خاتم النبیں ﷺ کی محبت اور دین کے اہم فریضے ختم نبوت ﷺ کے تحفظ کے لیئے آئے تھے اور مولانا نےاس کااپنے سیاسی مقاصد کے لیئے بھرپور استعمال کیا یہی وہ باتیں سب سے اہم ہیں جن کو دیگر مسالک کے علماء اور مشائخ نے ذہن میں رکھتے ہوئے اس اجتماع میں شرکت نہیں کی۔