علمی تراشے بلال افتخار خان کے قلم سے۔
دوبارہ تعمیر کے لئے توڑنا پڑتا ہے۔۔۔ ٹوٹنے والا اس عمل سے بھاگتا چاہتا ہے۔۔۔ وہ پیٹرن جو اُس نے اپنا رکھے ہوتے ہیں ۔۔۔نفس انہی میں تحفظ کی کیفیت پاتا ہے۔۔۔زمان و مکان کی قید اُسے رسی چھوڑنے نہیں دیتی۔۔۔ جبکہ بچانے والے کا فیصلہ ہے کہ رسی چھوڑے گا تو ہی بچے گا۔۔۔ اسی کشمکش میں زندگی گزر جاتی ہے۔۔ اور امتحان کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔۔۔ تمام پوٹینشل کے باوجود وہ امتحان میں فیل ہو جاتا ہے ،صرف اس لئے کے رسی نہیں چھوڑی جاتی۔۔۔ اب اگر مالک کی رحمت شامل حال ہو تو حالات ایسے بن جاتے ہیں کے رسی چھوڑنی پڑتی ہے۔۔۔ لیکن اس نقطے تک پہنچنے کے لئے اُن اُن صعوبتیون سے گزرنا پڑتا ہے جو نفس کے کس بل نکال دیتی ہیں۔۔۔ لیکن کئی بار رسی تو جل جاتی ہے لیکن بل خاکستر ہو کر ہی نکلتا ہے۔۔۔ پس اگر خاکستر ہو کر بھی بل نکل جائے تو رحمت ہے کیونکہ امتحان ختم ہونے سے پہلے کامیابی کی راہ مل گئی ورنہ امتحان میں بندہ تو رسی سے چمٹا ہی رہتا ہے۔۔۔ ہر لمحے اذیت سہتا ہے۔۔۔ حق جان کر بھی رسی کو نجات سمجھتا ہے۔۔۔ لمحے لمحے مرتا ہے لیکن ایک ہی بار مرنے سے ڈرتا ہے۔۔۔
عروج بھی حقیقت ہے اور ذوال بھی حقیقت ہے۔۔۔ کئی عروج دراصل ذوال ہوتے ہیں اور کئی ذوال حقیقت میں عروج ۔۔یا کامیابی کی نوید ۔۔پس معرفت کا اصول اول ہے خود کو اُس کے ہاتھون میں چھوڑ دو جو خالق و مالک ہے محدود و لامحدود کا۔۔۔۔ پھر یا تو تم تھام لئے جاو گے۔۔۔ یا توڑ کر دوبارہ تعمیر ہوگے اور تھام لئے جاو گے۔۔۔ یا خود کی انا کے ہاتھوں ذبع ہو جاو گے اور قصور تمہارا ہو گا ۔۔
عشق کا بھی میعار ہوتا ہے
پرونہ ہر دم جلنے کو تیار ہوتا ہے
نفس بے قابو تو عیار ہوتا ہے
کامیاب وہ جسے منزل سے پیار ہوتا ہے
(محمد بلال افتخار)
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں
(علامہ محمد اقبال)
🔷🔶🔴🔵🔴🔶🔷
ہمارے ولن ہمارے اندر کی سرکشی کا علامتی اظہار ہوتے ہیں
جب سماج کے عمومی دھارے کا رُخ شر سے خیر کی طرف مڑنے لگے گا تو ولن بھی اپنی موت آپ مر جاۓ گا
قوم طاغوت پرستی کاشکار ہو تو وقت کے فرعونوں کے ظلم پر شکوہ کرنے سے پہلے اپنا احتساب ناگزیر ہے
جیسے جیسے سماج میں خیر بڑھے گی تو شر کی قوتیں جو ولن بن کر راج کرتی ہیں دم توڑ جاٸیں گی
افسوس اُس بےہنگم ہجوم پر جو سماج کا جزوِ لاینفک ہوتے ہوۓ بھی یکسو اور یکجہت ہو کر قوم نہ بن سکا
اور اپنی کوتاہیاں دوسروں کے سر منڈھتا رہے
⭕🔵🔴🔶🔷⭕
حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا: علم عمل کے ساتھ جڑا ہوا ہے،پس جو علم حاصل کرلیتا ہے وہ عمل کرتا ہے، اور علم عمل کو آواز دیتا ہے، اگر وہ اس کی آواز پر لبیک کہے تو ٹھیک ورنہ علم وہاں سے رخصت ہو جاتا ہے۔
🔷🔶🔴🔵⭕🔵🔴🔶🔷
جس نے رب کے لئے جھکنا سیکھ لیا وہی علم والا ہےکیونکہ علم والے کی پہچان عاجزی ہے اور جایل کی تکبر ہے۔۔۔۔منبہ والائیت امیر المومنین جناب علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ
🔴🔵🔶🔷🔷🔶🔵🔴