6 ستمبر 1965 کی سنہری یادیں
میجر (ر) ساجد مسعود صادق
5/6 ستمبر سن 1965 کی رات کو 2بجے 23 فیلڈ رجمنٹ آرٹلری (المعروف گنز آف واہگہ) کے اپریشن روم میں رجمنٹ کے تمام آفیسرز جمع تھے اور رجمنٹ کمانڈر لاہور کے واہگہ بارڈر پر دُشمن کے ممکنہ حملے کے بارے ضروری احکامات جاری کررہا تھا۔ رات تین بجے کے قریب باٹا پور روڈ پر اسی رجمنٹ کے آرٹلری ابزرورز کی ایک ٹیم رواں دواں تھی جس میں ایک ینگ لیفٹینٹ نے بارڈر پر اور ایک کیپٹن نے باٹا پور کی مسجد کے مینار پر روشنی پھیلنے سے پہلے ابزرویشن پوسٹس قائم کرنی تھیں۔ کیپٹن کی منزل جلد آگئی اور لیفٹینٹ جب اپنے ساتھ ایک اپریٹر اور گن مین کو لیکر بارڈر کے قریب پہنچا تو اُسے پاکستانی علاقے کے اندر انٹرنیشنل بارڈر کراس کرنے والی بھارتی سپاہ نے گرفتار کرلیا۔ اس چھوٹی سی ٹیم کو جب بھارتی بٹالین کمانڈر کے سامنے پیش کیا گیا تو اُس نے پاکستانی فوج کے بارے میں سوال پوچھا کہ “وہ (پاکستانی فوجی) کدھر ہیں؟ لیفٹیننٹ نے بڑے اطمینان سے جواب دیا آگے بڑھو وہ تمہارے استقبال کے لیئے تیار بیٹھے ہیں۔” (بحوالہ رجمنٹل ہسٹری 23 فیلڈ رجمنٹ آرٹلری المعروف گنز آف واہگہ )
6 ستمبر 1965 کی رات کو تین بجے دُشمن چُپکے سے بارڈر پار کرچُکا تھا اور رعونت پر مبنی پروگرام یہ تھا کہ یہ فوج صبح ناشتہ جاکر لاہور کے جمخانہ کلب میں کرے گی۔ ایسے میں پاکستان کے صدر ایوب کے پاکستان ریڈیو پر خطاب کے الفاظ “بزدل دُشمن نے رات کی تاریکی میں ہمارے بارڈر پر اچانک حملہ کردیا ہے” نے پاکستانی قوم کے اندر ایک بجلی سی بھردی اور پُوری قوم ہی دفاع وطن کی خاطر کٹ مرنے کے لیئے بارڈر کی طرف چل پڑی پھر اس کے علاوہ شکرگڑھ (چونڈہ) کے محاذ پر اقوامِ عالم کی جنگی تاریخ کا سب سے بڑا ٹینکوں پر مُشتمل ایک ہجوم اُمڈ آیا لیکن ان ٹینکوں کے سامنے پاکستانی فوج کے سپاہی سینے سے بم باندھ کر لیٹ گئے ان دونوں محاذوں پر بھارتی حملہ کو بڑی جُرات سے ناکام بنانے کے بعد بھارت پر جوابی حملہ (کاؤنٹر اٹیک) کیا گیا اور پاکستانی فوج دیکھتے ہی دیکھتے چھمب جوڑیاں سیکٹر میں کشمیر کو بھارت سے کاٹنے کے بالکل قریب پہنچ گئی۔ ایک طرف لاہور شالامار باغ میں شیرنی اور رانی (پاکستانی میڈیم اور ہیوی توپیں) چنگھاڑ رہی تھیں تو دوسری طرف کھیم کرن اور چھمب جوڑیاں میں ہندو بنیے کی چیخیں آسمان تک پہنچ رہی تھیں۔ 23 ستمبر تک جنگ بندی کے وقت پاکستان 590 مربع کلومیٹر کا علاقہ بھارت سے چھین چُکا تھا جن میں سے 490مربع کلومیٹر چھمب سیکٹر اور 50 مربع کلومیٹر کھیم کرن سیکٹر کا علاقہ شامل تھا۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ کا آغاز جنوری کی ابتداء میں ہی ہوچُکا تھا جب “کچھ” اور “سندھ” کے درمیانی 3500 مربع کلومیٹر سمندری علاقے “رن” جسے “رن آف کچھ” بھی کہا جاتا ہے پر پاک بھارت کی جھڑپ ہوئی جس پر پاکستانی افواج نے بھارت کو عبرتناک شکست دے کر قبضہ کرلیا بعد میں اس تنازعہ کی ثالثی امریکی صدر ووڈ رُو ولسن نے کی۔ مارچ کے مہینے میں بھارتی صدر لال بہادر شاستری نے بھارتی قانون میں ترمیم کرتے ہوئے کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لیئے شق نمبر 356اور357 کا اضافہ کرتے ہوئے کشمیر میں گورنر راج نافذ کردیا جس پر کشمیریوں نے احتجاج شروع کردیا اور کشمیری لیڈر “شیخ عبداللّٰہ” کو بھارت نے پابند سلاسل کردیا جس پر کشمیری عوام اور بھی بپھر گئے۔ کشمیر پر کنٹرول کے مسئلے پر بھارت نے ہمیشہ کی طرح پاکستان کے خلاف واویلہ شروع کردیا اور آخر کار پاکستان کو 24 جولائی کو ایک کمانڈو اپریشن “آپریشن جبرالٹر” لانچ کرنا پڑا یوں تو 5اگست کو ہی بھارت نے پاکستان پر حملے کا اعلان تو کردیا لیکن اصل 1965 کی جنگ کا باقاعدہ آغاز 6 ستمبر کو بھارتی حملے سے ہوا۔
اس جنگ میں لاہور، چونڈہ ، چھمب اور کھیم کرن کے محاذوں پر پاکستانی افواج اور پاکستانی قوم نے ملکر وہ تاریخ رقم کی کہ جس کو پاکستان کا دُشمن بھارت کبھی بُھلا نہ سکے گا۔ محض 17 دن کی جنگ کے بعد بھارت اپنی واضح شکست کو سامنے دیکھ کر بوکھلا سا گیا۔ ایسے میں بین الاقوامی سُپر پاورز بھی اس جنگ میں کُود گئیں۔ امریکہ نے تو اس جنگ سے لاتعلقی کا اعلان کردیا لیکن روس بھارت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوگیا ایسے میں چین نے بھی بھارت پر حملے کی دھمکی دے دی۔ آج 58سال بعد پاکستانی قوم اور اُس کے ارباب اقتدار کے لیئے ایک موقعہ ہے کہ وہ اس چیز پر غور فکر کریں کہ 1965 میں بھارت کو ناکوں چُنے چبوانی والی پاکستانی افواج اور پاکستانی قوم سن 1971میں کیوں ناکام ہوئیں؟ جس کا سادہ سا جواب ہے کہ 1965 میں پاکستانی قوم اور پاکستانی افواج یَکمُشت و یک جاں تھے جبکہ سن 1971 میں اقتدار کی رسہ کشی میں پاکستانی افواج اور سیاستدانوں کے درمیان ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایک خلیج تو تھی لیکن حالات کی نزاکت کے ادراک سے عاری قیادت اُس وقت پاکستان کو کنٹرول کررہی تھی۔
اس سنہری دور کو یاد کرتے ہوئے پاکستانی قوم کو یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ آج پاکستان میں سن 1965 سے بہت مختلف سیاسی فضاء اور ماحول ہے اگر یوں کہا جائے کہ آج کا پاکستان بالکل سن 1971 کے نومبر و دسمبر جیسا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ بھارت بھی ایک تسلسل سے پاکستان کے مشرقی بارڈر پر چھیڑ خوانی میں مصروف ہے اور بالخصوص مُودی سرکار جس دن سے اقتدار میں آئی ہے پاکستان بھارت سے حالت جنگ میں ہے ایسے میں پاکستانی سیاسی انتشار ، معاشی کمزوری اور پاکستانی افواج اور قوم میں بڑھتے فاصلے پاکستان کو دُرست سمت میں لیکر ہر گز نہیں جارہے۔ ایسے میں عسکری و سیاسی قائدین کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے اور عوام کو بھی بین الاقوامی بالخصوصی بھارتی میڈیا کے پراپیگنڈے کا شکار ہوکر مایوسی کی بجائے حالات کی نزاکت کو بھی سمجھنا چاہیئے اور دُشمن کی تمام چالوں پر بھی نظر رکھنی چاہیئے۔ جدید دور میں جنگ میدان جنگ سے زیادہ میڈیا پر لڑی جاتی ہے جسے ہائبرڈ وار یا ففتھ یا سکس جنریشن وار فیئر کہتے ہیں۔
پاکستانی قائدین کو بیرونی طاقتوں کے ماضی کے رویے کو مدنظر رکھتے ہوئے خُدا اور اپنی عوام پر بھروسہ کرنا ہوگا کیونکہ بین الاقوامی طاقتوں کے نزدیک پاکستان کے ہونے یا نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا لیکن پچھتر سالوں سے دلوں میں آزاد، باغیرت اور مضبوط مُلک کے سپنے سجانے والے غریبوں کو اس سے بہت فرق پڑتا ہے۔ 1965کے سنہرے دور کے اٹھاون سال بعد آج ایک بار پھر پاکستان سن 1971 کی جنگ سے تھوڑی دیر پہلے جیسی صورتحال سے دوچار ہے آج پاکستانی سیاسی بساط پر مُجیب اور بھٹو دونوں موجود ہیں اور اللّٰہ نہ کرے اگر خدانخواستہ پاک افواج کی صفوں سے جنرل نیازی یا جنرل یحیٰ جیسا کوئی کردار برآمد ہوا تو پاکستان پھر کسی سانحہ سے دوچار ہوسکتا ہے لہذا پاکستان کے ہرفرد، ہر قائد اور ہر ادارے کو محتاط ہونے اور اپنی سمت دُرست کرنے کی ضرورت ہے اور ایسا تبھی ممکن ہے جب ذاتی مُفادات اور اناؤں سے پاکستان کی بقاء اور وقار کومقدم رکھا جائے۔ (ختم شُد)
⭕⭕⭕⭕⭕