Visit Our Official Web خواب ریزہ ریزہ سیراب آنکھوں میں Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

خواب ریزہ ریزہ سیراب آنکھوں میں

 


عرفان ناروال کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والا ایک نوجوان تھا۔ ملکی حالت دن بدن بگڑتے جا رہے تھے - غربت، بے روزگاری اور معاشی تنگدستی نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ بہتر مستقبل کی تلاش میں اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالے۔ اس نے سنا تھا کہ یونان میں زندگی جدید، آسان اور کام کے مواقع بے شمار ہیں۔ اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ وہاں جانے کے لئے ڈنکی لگائے گا، یعنی غیر قانونی طریقے سے یورپ جائے گا۔ اس سفر میں اس کے دو قریبی دوست، علی اور عثمان بھی شامل تھے، جو اسی طرح کی امیدوں کے ساتھ اس سفر پر روانہ ہوئے۔

عرفان، علی اور عثمان نے اپنی جمع پونجی اور خاندان سے کچھ پیسے ادھار لے کر کے ایک ایجنٹ کو دے دیے، جو انہیں غیر قانونی طریقے سے یونان پہنچانے کا وعدہ کر رہا تھا۔ انہوں نے ایجنٹ سے وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی انہیں ایک بہتر زندگی کی طرف لے جائے گا۔ سب نے اپنے دوستوں اور خاندان سے جھوٹ بولا کہ وہ دبئی جا رہے ہیں۔

ان کا سفر انتہائی دشوار اور خطرناک تھا۔ وہ پہلے بلوچستان پہنچے، جہاں سے انہیں ایران کے سرحدی علاقے میں لے جایا گیا۔ ایران میں داخل ہوتے ہی ان کے سفر کی مشکلات نے زور پکڑ لیا۔ ایک رات، جب وہ ایرانی سرحد پار کر رہے تھے، ایرانی سیکورٹی فورسز نے ان کے گروپ پر حملہ کر دیا۔ گروپ کے بہت سے افراد زخمی ہو گئے، اور کچھ کو گرفتار کر لیا گیا۔

عرفان، علی اور عثمان نے بھاگنے کی کوشش کی۔ وہ ایک سنسان علاقے میں پہنچ گئے، جہاں رات کی تاریکی اور سردی نے ان کی مشکلات میں انتہائی اضافہ کر دیا۔ علی اور عثمان شدید زخمی تھے اور ان کے پاس نہ تو پانی تھا اور نہ ہی خوراک۔ عرفان نے اپنی بہترین کوشش کی کہ وہ اپنے دوستوں کی مدد کر سکے، مگر حالات کے سامنے وہ بے بس ہو گیا۔

علی کی حالت تیزی سے بگڑنے لگی۔ اس کی چوٹیں شدید تھیں اور وہ شدید تکلیف میں تھا۔ کچھ ہی دیر میں، علی نے عرفان کے ہاتھوں میں اپنی آخری سانس لی۔ عرفان نے اپنے دوست کو کھو دیا اور وہ دل شکستہ ہو گیا۔ اس نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا، مگر عثمان کی حالت بھی بگڑنے لگی۔ عثمان نے عرفان کو کہا کہ وہ اپنی زندگی بچانے کی کوشش کرے اور اسے چھوڑ دے۔ مگر عرفان اپنے دوست کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔

عثمان بھی کچھ ہی دیر بعد دم توڑ گیا۔ عرفان نے اپنے دونوں دوستوں کی لاشوں کو وہیں چھوڑ کر بڑی مشکل سے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ دل میں شدید دکھ اور غم کے ساتھ، عرفان نے اپنے سفر کو جاری رکھا۔ رات کے سناٹے میں جب عرفان تنہا ہوتا، اسے اپنے دوستوں، ماں باپ اور بہن بھائیوں کے چہرے یاد آتے۔ اس کی ماں کی محبت، باپ کی نصیحتیں، اور بہن بھائیوں کی شرارتیں، سب کچھ اس کے دل و دماغ میں گھومتے رہتے۔ وہ رات کو آنکھیں بند کرتا تو اسے اپنی ماں کی وہ آواز سنائی دیتی جو اسے بچپن میں لوری سنایا کرتی تھی۔

اسے یاد آتا کہ کیسے اس کی ماں اسے اپنے بازوؤں میں بھر کر کہانیاں سناتی تھی اور اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی تھی۔ اس کا باپ، جو ہمیشہ اس کی تعلیم اور تربیت کے لیے محنت کرتا تھا، اپنے بیٹے کے مستقبل کے خواب دیکھتا تھا۔ اس کے بہن بھائی، جو اس کے ساتھ کھیلتے تھے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہنس پڑتے تھے، سب کچھ اس کے ذہن میں گردش کرتا رہتا۔

عرفان کے دوستوں کی موت نے اس کے حوصلے کو توڑ دیا، مگر اس نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ ترکی پہنچا، جہاں ایجنٹ نے اسے اور دیگر مسافروں کو ایک چھوٹی کشتی میں بٹھا دیا۔ کشتی میں جگہ کی کمی اور پانی کے داخل ہونے کی وجہ سے مسافروں کی حالت بد سے بدتر ہو گئی۔

رات کی تاریکی میں کشتی ہچکولے کھاتے ہوئے یونان کی ساحلی حدود میں داخل ہوئی، مگر قسمت نے عرفان کا ساتھ نہیں دیا۔ یونان کے کوسٹ گارڈز کو مخبری ہو چکی تھی، انہوں نے نے کشتی کو روکا اور غیر قانونی مسافروں کو گرفتار کر لیا۔ عرفان اور اس کے ساتھیوں کو ایک کیمپ میں قید کر دیا گیا، جہاں انہیں انتہائی برے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہاں انہیں کھانا، پانی اور بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں تھیں۔

عرفان کی صحت دن بدن خراب ہوتی گئی۔ خوراک کی کمی، سخت سردی اور کیمپ کے ناقص حالات نے اسے بیمار کر دیا۔ ایک رات، جب درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے گر گیا، عرفان بخار اور کمزوری کی حالت میں اپنی زندگی کی جنگ جیسے ہر رہا تھا۔ اس کے ساتھیوں نے اسے بے بسی سے دیکھا، مگر کوئی بھی اس کی مدد کرنے کے قابل نہ تھا۔ عرفان نے اپنے خوابوں اور امیدوں کے ساتھ اس کیمپ میں اپنی آخری سانس لی۔

اس کی آخری سانسوں میں، اسے اپنی ماں کی آواز سنائی دی، "میرے بیٹے، تُو کہاں ہے؟" اس کی ماں کی وہی آواز، جو بچپن میں لوری سناتی تھی، آج اس کے دل کو چیرتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اسے اپنی ماں کی آنکھوں کی وہ چمک یاد آئی، جو ہمیشہ اس کے گھر آنے کا انتظار کرتی تھی، اور اب وہ چمک ہمیشہ کے لیے بجھ چکی تھی۔

اس کے باپ کا چہرہ، جو ہمیشہ اس کی کامیابی کے خواب دیکھتا تھا، اس کے سامنے آیا۔ وہی باپ، جو دن رات محنت کرتا تھا تاکہ اس کا بیٹا ایک دن کامیاب انسان بنے، اور آج اس کی محنت کے خواب، آنسوؤں میں ڈوبے ہوئے، بکھرتے ہوئے نظر آئے۔ 

اسے یاد آیا کہ کیسے وہ اپنے والد کے ساتھ گاؤں کے باغ میں جایا کرتا تھا، جہاں وہ دونوں درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر باتیں کرتے تھے۔ اس کے والد ہمیشہ اسے نصیحتیں کرتے تھے اور اس کے مستقبل کے خواب دیکھتے تھے۔ باغ کی ہر کلی اور ہر پھول کی خوشبو آج عرفان کے دل کو درد سے بھر رہی تھی، کہ وہ سب خواب ادھورے رہ گئے۔

اس کے بہن بھائیوں کی مسکراہٹیں اور محبت، جو ہمیشہ اس کے گرد گونجتی تھیں، آج یادوں کی صورت میں دل کو چیر رہی تھیں۔ وہ لمحے جب وہ سب ایک ساتھ ہنستے کھیلتے تھے، آج ماضی کی دھندلی یادیں بن کر رہ گئے تھے۔ اسے یاد آیا کہ کیسے وہ سب بھائی بہن باغ میں کھیلتے تھے، درختوں کے نیچے بیٹھ کر کہانیاں سنتے تھے، اور ایک دوسرے کے ساتھ ہنس ہنس کر گر پڑتے تھے۔

وہ سب کچھ جو کبھی اس کے دل کو گرماتا تھا، آج ایک دردناک حقیقت کی شکل میں اس کے سامنے تھا۔ عرفان کو یہ محسوس ہوا کہ اس کی زندگی کا سب کچھ، اس کی ماں کی دعائیں، اس کے باپ کی محنت، اس کے بہن بھائیوں کا پیار، سب کچھ ایک خواب تھا جو اب ٹوٹ چکا تھا۔ اس کے دل میں ایک شدید تکلیف اور افسوس کی لہر اٹھی کہ وہ کبھی ان سب کی امیدوں اور محبت کا جواب نہ دے سکا۔

مگر اب وہ سب کچھ ماضی کا حصہ بن چکا تھا، ایک ایسا ماضی جو کبھی لوٹ کر نہیں آ سکتا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، دل میں شدید دکھ اور ندامت، اور زندگی کا چراغ بجھتا ہوا محسوس ہوا۔ یہ سب کچھ سوچتے ہوئے، عرفان نے اپنی آخری سانس لی، اس کے لبوں پر ماں کی دعا تھی اور دل میں اپنے پیاروں کی یادیں۔

وہ سب کچھ جو کبھی اس کے دل کو گرماتا تھا، آج ایک دردناک حقیقت کی شکل میں اس کے سامنے تھا۔ عرفان کو یہ محسوس ہوا کہ اس کی زندگی کا سب کچھ، اس کی ماں کی دعائیں، اس کے باپ کی محنت، اس کے بہن بھائیوں کا پیار، سب کچھ ایک خواب تھا جو اب ٹوٹ چکا تھا۔ اس کے دل میں ایک شدید تکلیف اور افسوس کی لہر اٹھی کہ وہ کبھی ان سب کی امیدوں اور محبت کا جواب نہ دے سکا۔ 

مگر اب وہ سب کچھ ماضی کا حصہ بن چکا تھا، ایک ایسا ماضی جو کبھی لوٹ کر نہیں آ سکتا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، دل میں شدید دکھ اور ندامت، اور زندگی کا چراغ بجھتا ہوا محسوس ہوا۔ یہ سب کچھ سوچتے ہوئے، عرفان نے اپنی آخری سانس لی، اس کے لبوں پر ماں کی دعا تھی اور دل میں اپنے پیاروں کی یادیں۔

عرفان کے مرنے کے بعد اس کی لاش کو واپس پاکستان بھیج دیا گیا۔ جب اس کی لاش تابوت میں گھر پہنچی تو اس کی ماں اس کے بے جان جسم کو گلے لگا کر رو پڑی، باپ نے اپنے بیٹے کے مستقبل کے خوابوں کو آنسوؤں میں بہا دیا، اور بہن بھائی اپنے پیارے بھائی کے کھو جانے پر نڈھال ہو گئے۔ عرفان کی کہانی ان تمام لوگوں کے لیے ایک سبق ہے جو غیر قانونی طریقوں سے بہتر مستقبل کی تلاش میں اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ غربت اور مشکلات ہمیں مجبور کر سکتی ہیں، مگر صحیح راستے اور قانونی طریقے ہی بہتر ہیں۔ عرفان کی اور اس کے دوستوں کی دردناک موت نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کا خواب دیکھنا ایک خطرناک اور مہلک راستہ ہے۔

منقول 

⭕⭕⭕⭕⭕⭕___________________________

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url