Visit Our Official Web بدقسمت عوام اور خوش قسمت حکمران Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

بدقسمت عوام اور خوش قسمت حکمران

 

ہم اکثر دیکھتے ہیں اور اب تو محسوس بھی کرتے ہیں کہ ہمارے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب کردہ عوامی نمائندوں نے ہمیشہ اسمبلیوں میں اپنے لیے یا اپنی پارٹی اور اپنی اپنی جماعتوں کے لیے تن من کی بازی لگا کر اونچی اونچی آواز میں آواز اٹھائی ہے کیا عوام کے لیے اس عوام کے حقوق کے لیے عوام کے بہتر مستقبل کے لیے ہمارے منتخب کردہ نمائندوں کی زبان کیوں رک جاتی ہے کاش ایسا ہوتا کہ عوامی نمائندے عوام کے استحقاق کیلئے اکٹھے ہوئے ہوتے۔ ان عوام کیلئے آواز اٹھائی ہوتی جو اِن کے دعووں اور وعدوں میں آ کر ہر بار مینڈیٹ دے بیٹھتے ہیں۔ ہوشربا مہنگائی ہو یا شہری سہولیات‘ ان سبھی سے بے نیاز عوامی نمائندوں کو عوام کی حالتِ زار پر تو کبھی رحم نہ آیا۔ اپنے ضمیر پر کیسا کیسا بوجھ اٹھائے ہائوس میں سج دھج کر آ بیٹھتے ہیں۔ عوام سے وعدہ خلافیوں اور بد عہدیوں میں ڈوبے ہر دور میں صرف اپنے ہی بت کی پرستش کرتے ہیں۔ انکی لوٹ مار کی داستانیں ہوں یا دیگر سکینڈل‘ یہ انہیں اپنا استحقاق سمجھ کر نازاں اور شاداں دکھائی دیتے ہیں۔ لوٹ مار کی داستانیں ہوں یا ایوان کے اندر بیٹھ کر اپنی دنیا سنوارنے کی دھن‘ سیاسی سرکس میں قلابازیاں ہوں یا ایوان میں لگا اکھاڑا۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی ہو یا دست و گریباں ہونے کے واقعات۔ دشنام طرازی ہو یا تند و تیز جملوں کا تبادلہ۔ الغرض عوامی مسائل سے بے نیازی کے سبھی مناظر کو قانونی تحفظ دینے کیلئے کیا حلیف کیا حریف‘ سبھی ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مفادات کے جھنڈے تلے ایک بار پھر اکٹھے نظر آتے ہیں۔عوام کو روزگار فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے ،ایسا کرکے حکمران کسی پر کوئی احسان نہیں کر تے۔

پاکستان میں گزشتہ مالی سال میں غربت بڑھ کر تشویش ناک حد تک پہنچ گئی ہے جس سے مزید سوا کروڑ افراد غربت کے جال میں پھنس گئے ہیں۔ اس وقت 12کروڑ 50لاکھ افراد غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔عوام اگر احتجاج کریں تو ان پر مہنگائی کے کوڑے برسائے جاتے ہیں تاکہ وہ اس نظام سے بغاوت کا سوچ بھی نہ سکیں۔ عوام مرتے ہیں تو مریں ان کی بلا سے۔ رعایہ اور عوام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ عوام کے حقوق ہوتے ہیں جیسے مغرب میں ہیں اور رعایا کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔ بظاہر آزاد ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ غلام ہی ہوتے ہیں۔ہم آج بھی 21ویں صدی میں حکمران طبقات کی رعیت ہیں۔ نہ معاشی نہ سیاسی نہ انسانی حقوق ۔ایک حکمت عملی کے تحت رعایا کو مسلسل خوف اور عدم تحفظ میں مبتلا رکھا جاتا ہے۔ان سیاسی جماعتوں کے لیڈرز میں کسی کو بھی عوام سے کوئی سروکار نہیں بس ہر کوئی وزیراعظم کی سیٹ پر آنا چاہتا ہے تاکہ وہ مزید فرعونیت کا مظاہر ہ کر سکے۔ پوری دنیا  میں سیاسی منصب  اور عہدے عوام کی خدمت کے  لیے  ہوتے ہیں اس لیے ان  عہدوں پر براجمان ہونا ایک بہت بڑے اعزاز کی بات ہوتی ہے مگر ہمارے سیاست دان تو ان عہدوں پر آکر عوام کو کوئی فائدہ پہنچانے کی بجائے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے پر قانون سازی کرتے ہں اور اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے اعزاز سمجھتے ہیں۔‏پاکستانی عوام بدقسمت ہیں کہ انہیں ایک لالچی، خودغرض اور عوام دشمن حکمران طبقے سے پالا پڑا ہے۔ یہ دو فیصد حکمران طبقہ 98 فیصد عوام کا خون چوس کر اپنے مفادات اور عیاشیوں کا خرچ پورا کر رہا ہے۔

اس نظام ظلم کے خلاف متحد ہونے، مخلص قیادت کو پہچان کر اسکے پیچھے چلنے کی ضرورت ہے۔میرے چند دوست ایسے بھی ہیں جن کو ہمارے سیاسی قائدین سے اتنا شدید لگاؤ ہے کہ وہ اپنے محبوب قائدین کی خاطر دن کے اجالے کو رات کہنے سے نہیں چوکتے اور اب بھی اپنی تمام تر تعلیمی و ذہنی قابلیت کے ساتھ موجودہ سیاسی نظام کے کرتا دھرتا حضرات سے اپنی آخری امیدیں لگائے اپنی زندگی کے سنہرے دن کاٹ رہے ہیں کہ شاید ابھی مداری کے چغے میں کوئی ایسا سحر سامری ہو جس کے پھونکنے سے نہ صرف پاکستان کے تمام مسائل حل ہو جائیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم کا قرضہ، بے روزگاری، مہنگائی اور تمام نام نہاد مافیاز کا خاتمہ بھی ہو جائے جن کی وجہ سے واحد اسلامی ایٹمی طاقت ایشین ٹائیگر بن جائے

🔵🔴🔵🔴🔵

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url