Visit Our Official Web بلا تحقیق فارورڈ اور بے مقصد پوسٹ کلچر سے نکلیں Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

بلا تحقیق فارورڈ اور بے مقصد پوسٹ کلچر سے نکلیں

  


بلا تحقیق فارورڈ اور بے مقصد پوسٹ کلچر سے نکلیں 

8 مئی 2023 

محمد طارق خان 


موبائل فون کی ایجاد، ایس ایم ایس و سوشل میڈیا کی آمد اور ہر خاص و عام تک انٹرنیٹ کی رسائی کے بعد ایک عجیب و غریب رواج فروغ پا گیا ہے کہ لوگ بالعموم ہر سنی سنائی بات کو بلا تصدیق و تحقیق آگے بڑھا دیتے ہیں۔ اسے بدقسمتی کہیں کہ کتابیں پڑھنے اور تحقیق کرنے کا شوق اور حوصلہ ختم ہوگیا ہے، سوشل میڈیا پر جو الم غلم کانٹینٹ نظر آیا، اپنی علمیت جھاڑنے یا کم علمی کے باعث اس سے مرعوب ہونے کے سبب وہ کانٹینٹ سوشل میڈیا پر پوسٹ یا پھیلانا شروع کردیا جاتا ہے۔ 

آج ایسی دو پوسٹس نظر سے گزریں اور اتفاق کی بات ہے دونوں پوسٹس ہمارے ایک محترم جناب وقار علی بیگ صاحب کے توسط سے دیکھنے کو ملیں۔

پہلی پوسٹ میں ایک نام نہاد دانشوڑ فرماتے ہیں کہ اصل پاکستان تو بنگال تھا، موجودہ پاکستان کا تو تحریک پاکستان سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا، اس پاکستان کے رہنے والے (پنجابی سندھی،پٹھان اور بلوچ) تو انگریزوں کے آلہ کار تھے، اسی لئے ان علاقوں میں انگریز نے کوئی جمہوری ادارے بھی قائم نہیں کئے ۔۔۔ الاخ ۔۔۔

میں گزشتہ کافی عرصے سے سوشل میڈیا اور کچھ دوسرے فورمز پر یہ دیکھ رہا ہوں کہ کچھ لوگ جان بوجھ کر موجودہ پاکستان کے لوگوں کو تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان سے متفر اور دور کرنے اور مشرق سے ہجرت کرکے یہاں آنے والوں کے دلوں میں مقامی لوگوں سے نفرت اور بُعد پیدا کرنے کے لئے اس طرح کا پروپیگنڈہ تسلسل کی ساتھ کر رہے ہیں، جس کا حقیقت سے دور دور کا واسطہ نہیں۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک پاکستان میں اُن علاقوں کے لوگوں کی قربانیاں بے مثال ہیں و لازوال ہیں، جو تقسیم کے وقت پاکستان میں شامل ہی نہیں ہوئے، اور پھر ان میں سے ایک بڑی تعداد نے ہجرت کی صعوبتیں جھیلیں، بعض نے دو بار ہجرت کی اور قربانی دی، ایک اجنبی سرزمین کی جانب اللہ اور اسلام کی خاطر ہجرت کی، اسے اپنا مستقر اور گھر بنایا۔

اسی طرح بنگال کے لوگوں نے بھی پاکستان کے حصول کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، مسلم لیگ کی بنیاد 1906 میں بنگال میں رکھی گئی اور تحریک پاکستان کے عظیم رہنماؤں کی فہرست میں کئی بنگالی زعماء کا نام سرِفہرست ہے، مگر ایسا کہنا کہ پنجاب، سندھ، پختونخوا اور بلوچستان کے لوگوں کا تحریک آزادی میں کوئی حصہ ہی نہیں تھا، تاریخی حقائق کے منافی اور انتہائی خطرناک  بات ہے۔ 

پنجاب، سندھ، پختونخوا اور  بلوچستان آخری وقت تک انگریز استبداد کے خلاف سخت مزاحمت کرتے رہے، دہلی سے بنگال اور اُتر سے دکن تک جب پورا ہندوستان انگریز کے آگے سرنگوں ہو چکا تھا، اس وقت پنجاب، سندھ، پختونخوا اور بلوچستان کے سرفروش انگریز سامراج کے خلاف برسرپیکار اور میدان کارزار میں شجاعت و عزیمت کی نئی داستانیں رقم کر رہے تھے، اِن قلیل اور عسکری لحاظ سے کمتر مجاہدینِ آزادی نے انگریز فوج کو طویل عرصے تک تگنی کا ناچ نچایا اور ناکوں چنے چبوائے، اور یہ علاقے بقیہ ہندوستان کی نسبت سب سے آخر میں مقبوضہ ہوئے، بلکہ پختونخوا اور بلوچستان کبھی بھی مکمل طور پر انگریز کے زیر قبضہ نہیں رہے اور غیر ملکی نوآبادیاتی تسلط کے خلاف یہاں کے مقامی قبائل اور عوام کی مسلح مزاحمت آخر وقت تک مختلف صورتوں میں جاری رہی۔ یہی وجہ ہے کہ انگریز ان علاقوں میں اُس طرح کا انفراسٹرکچر اور نظام قائم نہیں کر سکا، جیسا ہندوستان کے دیگر علاقوں میں طویل عرصہ تک بلا مزاحمت راج کے نتیجے میں بنانے میں کامیاب ہوا، یہاں تو وہ ایک دن ریل پٹری بچھاتا تو دوسرے دن مقامی لوگ اور مزاحمت کار اسے اکھاڑ پھینکتے۔ 

اس کے باوجود جب تحریک قیام پاکستان کا مرحلہ آیا تو ان صوبوں کے مقامی لوگوں نے قیام پاکستان کی جمہوری جدوجہد میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ تحریک پاکستان کے بڑے بڑے کردار اسی خطے سے تھے، قائد اعظم موجودہ سندھ سے تھے، علامہ اقبال پنجاب سے تھے، چوہدری رحمت علی، چوہدری خلیق الزماں وغیرہم کا تعلق بھی پنجاب سے تھا۔ 1940 کی جس قرارداد کو آپ اور ہم آج قرارداد پاکستان کے نام سے جانتے اور پاکستان کی بنیاد مانتے ہیں وہ دراصل قرارداد لاہور تھی جو کہ پنجاب کا دارالحکومت تھا اور ہے۔  

1946 کے انتخابات کے نتیجے میں مسلمان اکثریت کے ساتھ اسمبلیوں میں پہنچے، سندھ اسمبلی نے پاکستان کی قرار داد منظور کی، پختونخوا نے ریفرنڈم کے ذریعے پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور بلوچستان کے وہ علاقے بھی جو تقسیم کے وقت خود مختار تھے، بعد ازاں اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہوئے، وگرنہ آپ 1947 کا پاکستان کا نقشہ اٹھا کر دیکھیں تو تقسیم کے وقت مغربی پاکستان کا رقبہ موجودہ پاکستان کا دو تہائی بھی نہ تھا، اکثر علاقائی ریاستیں جیسا کہ سوات، بہاولپور، رانی پور اور قلات وغیرہ نے قیام پاکستان کے بعد پاکستان شمولیت اختیار کرکے موجودہ مغربی پاکستان کی تکمیل کی۔  

تحریک اسلامی کے بانی سید ابوالاعلی مودودی گو بذات خود ریاست حیدرآباد دکن سے تعلق رکھتے تھے، انہوں نے اپنی علمی دعوت  کا آغاز پہلے پہل دِل٘ی سے کیا اور پھر جماعت اسلامی کے نام سے عالمگیر اسلامی تحریک کی داغ بیل پنجاب ہی کے علاقے پٹھان کوٹ میں ڈالی گئی، جہاں وہ تحریک پاکستان کے عظیم پنجابی رہنما فلسفی اور شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال کی دعوت پر تشریف لائے تھے، اقبال ہی کی تحریک و تعاون سے پٹھان کوٹ مرکز کا قیام عمل میں آیا تھا اور قیام پاکستان کے بعد سید مودودی نے اقبال کے شہر مدفن لاہور پنجاب ہی کو اپنا مرکز بنایا۔

تحریک پاکستان میں بنگال کا کردار اور قربانیاں یقینا اہم ہیں، اور ہمیں اس میں کوئی کلام نہیں کہ وہ اصل پاکستان تھا، مگر موجودہ پاکستان کو یا یہاں کے رہنے والوں کو نیچا دکھانے یا قیام پاکستان کی تحریک سے لا تعلق کرنے سے جو نقصان ہوگا وہ سطحی سوچ کے یہ لبرل دانشوڑ یا تو سمجھ ہی نہیں سکتے یا جان بوجھ کر پاکستان کے خلاف اس گھناؤنی سازش کا حصہ ہیں۔ مقامی اور غیر مقامی کی اصطلاحات اور مہاجرین اور انصار کے درمیان تفاوت پیدا کرنے کی یہ کوشش بھیانک اور تباہ کن ہے۔ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود عالمی سطح پر اگر آج بھی امریکہ، بھارت یا اسرائیل کو کسی قسم کے کوئی خدشات یا خطرہ یا کھٹک ہے تو وہ اسی مغربی پاکستان سے ہے بنگلہ دیش سے نہیں۔

دوسری پوسٹ بھی مرزا وقار علی بیگ صاحب کے توسط سے نظر سے گزری، یہ وڈیو میں پہلے بھی دیکھ چکا ہوں، اس میں جو دانشوڑ اپنے تئیں غور طلب دقیق علمی نکتے اٹھا رہے ہیں وہ نہ صرف سطحی اور کم علمی پر مبنی ہیں، بلکہ ان کی مختصر گفتگو انتہائی بے ربط اور تاریخی اغلاط سے بھرپور ہے،جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی اپنی علمی استعداد کیا ہے۔

موصوف کی گفتگو کا لب لباب یہ ہے کہ داؤد اور سلیمان علیہ السلام اجمعین لوہار تھے، عیسیٰ علیہ السلام چرواہے تھے، اور ہمارے آقا و خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک معلم تھے۔ مگر معلم کی امت مسلمان پستی کا شکار ہیں اور لوہار اور چرواہے کی امتیں یعنی بنی اسرائیل اور عیسائی ترقی کے بام عروج پر فائز ہیں، ایسا کیوں ہے؟ ان کی گفتگو سے یہ تاثر ملتا کہ گویا یہ کوئی ایسا دقیق علمی نکتہ ہے جس کا سراج الحق سمیت جماعت اسلامی کی قیادت بلکہ پورے عالم اسلام کے پاس کوئی جواب ہی نہیں۔

تو حضور جواباٌ عرض ہے کہ اولاٌ تو بنی اسرائیل داؤد اور سلیمان علیہ السلام اجمعین کی امت ہیں ہی نہیں، بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت اور شریعت موسوی کے پیروکار ہیں۔

دوسری بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے آپ کو علامتی طور پر چرواہا اور بنی اسرائیل کو اللہ کی گم کردہ راہ بھیڑیں کہا کرتے تھے، جنہیں راہ راست پر لانے کے لئے اللہ نے عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔ یوں وہ علامتی طور پر چرواہے ہوئے، مگر ان کا ان کی والدہ حضرت مریم علیہ السلام کے شوہر کا اصل پیشہ ترخان یا بڑھئی کا تھا، حضرت مریم کے شوہر کا نام یوسف ترخان یعنی Joseph the Carpenter تھا۔

تاہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بنیادی کردار ایک معلم اور مصلح کا تھا، وہ بھی ایک معلم بنا کر بھیجے گئے تھے، جن کا کام بنی اسرائیل کو شریعت موسوی کے مطابق تعلیم دینا اور ان کے اخلاق و کردار کی تطہیر اور تربیت کرنا تھا، اصحابِ عیسیٰ کو عبرانی انجیل میں شاگرد کے نام سے منسوب کیا گیا ہے (یعنی کہ Disciples) اور حضرت عیسیٰ کے یہ شاگرد عیسیٰ علیہ السلام کو استاد (عبرانی یا ارامی زبان میں رابی) کہہ کر پکارتے تھے، یہی لفظ ہماری اردو میں مستعمل مر٘بی کے لفظ کا مآخذ بھی ہے جس کے معنی تربیت کرنے والے کے ہیں، رابی یعنی استاد کے لفظ کا انگریزی میں ترجمہ آقا یعنی lord کیا گیا اور لارڈ کا ایل احترام اور امتیاز کی غرض سے بڑا یا capital لکھا جانے لگا (یعنی Lord) اور پھر کمال علمی بد دیانتی سے کام لیتے ہوئے اِس استاد یا آقا کے لفظ کو اردو اور دیگر زبانوں کے تراجم میں خداوند کردیا گیا۔ الغرض حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی استاد تھے، جیسا کہ ہر نبی کا بنیادی منصب استاد ہی ہوتا ہے۔

تیسری بات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن میں بکریاں چرائیں وہ بھی چرواہے تھے، نوجوانی میں تجارت کا اغاز کیا، تو آپ پیشے کے اعتبار سے تاجر ہوئے، انہوں نے دنیا کو توحید کی تعلیم دی تو معلم ہوئے، ہجرت کی تو مہاجر ہوئے، جنگوں کی قیادت کی تو جرنیل ہوئے، ریاست کے سربراہ بنے تو حکمران، لوگوں کے درمیان فیصلے کئے تو منصف، جرائم پر حد جاری کی تو قاضی بھی تھے، امانتیں رکھیں تو امین کہلائے اور حق و سچ کی گواہی دی تو صادق معروف ہوئے۔

المختصر ہر نبی کے کئی کردار ہوتے ہیں، تاہم بنیادی کردار تعلیم دینا ہی ہوتا ہے، اس لیے ہر نبی یا رسول ایک رابی، مربی یا معلم ہوتا ہے۔ 

اب آئیں انبیاء کی امت کی طرف، ہر نبی نے توحید کی تعلیم دی مگر ان کی امت میں شرک رائج ہوگیا، موسی علیہ السلام کی زندگی میں سامری نے بچھڑا بنا کر پوجا شروع کردی اور بنی اسرائیل خود کو اور قرآن کے مطابق حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بھی کہتے تھے، عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے بعد ان کی امت نے ان کو اللہ کا بیٹا بنا کر تثلیث کا مشرکانہ نظریہ اختیار کرلیا۔ بعینہ جتنے بھی معلوم او نامعلوم انبیاء گزرے ان کی زندگی ہی میں یا ان کے بعد ان کی امتوں میں بگاڑ کی مختلف صورتیں رونما ہوئیں، اور یہ امتیں بتدریج زوال کا شکار ہو کر تاریخ اور مذاہب کی کتابوں میں محض ایک تذکرے کے طور پر باقی مگر صفحہ ہستی سے عملاً معدوم ہوگئیں۔

اسے طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں بھی ان کے بعد لا تعداد برائیاں رواج پاگئیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب، زنا اور سود کو حرام قرار دیا مگر بعد میں کچھ مسلمان ان کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہوگئے، کچھ قبر پرستی اور دیگر اقسام کے شرک میں مبتلا ہوئے، جھوٹے مدعیان نبوت پیدا ہوئے، و ہذا علی القیاس۔ 

یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ان سب سیاہ کاریوں کی ذمہ داری محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا ان انبیا پر نہیں ڈالی جاسکتی جن کی امتوں میں بگاڑ پیدا ہوگیا، وہ تو اپنی زندگی میں تفویض شدہ ذمہ داری اِتمام حجت کی حد تک نبھا اور حق پہنچا گئے۔ ان کی وفات کے بعد یا زندگی ہی میں اگر امت یا اس کا ایک یا ایک سے زائد گروہ کسی بگاڑ میں مبتلا ہوئے تو اس کی ذمہ داری، انبیاء معصومین پر نہیں ڈالی جاسکتی، اِس بگاڑ کے ذمہ دار وہ بگڑے ہوئے امتی خود تھے اور ہیں۔

قرآن و حدیث میں یہ بات صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ آخرت میں یوم حساب کے دن جب یہ بگڑی ہوئی امتیں یا گروہ اللہ کے حضور پیش ہوں گے، تو اُن کے انبیاء اِن بگڑے ہوئے لوگوں اور اُن کے عقائد و اعمال سے مکمل برات کا اظہار کریں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہم نے تو آپ کا پیغام ٹھیک ٹھیک اور بغیر کسی ابہام کے پہنچا دیا تھا، ہماری تعلیم کے برعکس یہ لوگ جو کچھ کہتے اور کرتے رہے ہم اُس سے بری الذمہ ہیں۔

آخری بات محمد صلی اللہ علیہ وسلم، یعنی کہ معلم کی امت نے، اپنے آقا اور استاد کی تعلیم کی لاج رکھی اور ایک مختصر عرصے میں تاریخ انسانی میں وہ عروج پایا، جس کی مثال ملنا ممکن نہیں، دنیا کی دو بڑی اور وقت کی عظیم ترین طاقتوں کو مکمل طور پر سرنگوں کردیا، دنیا کو یکسر نیا اور آج تک قابل عمل اور نافذ العمل سیاسی، سماجی، اخلاقی، علمی، عدالتی، معاشی اور انتظامی نظام دیا، سائنس اور ٹیکنالوجی میں وہ مقام حاصل کیا کہ آج بھی دنیا کی غالب اقوام جس سائنس اور ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر سپر پاور کہلاتی ہیں وہ اعتراف کرتی ہیں کہ ان علوم کی بنیاد اہل اسلام نے رکھی، الجبرا ہو یا الگورتھم، کیمیا ہو یا طِب، علمِ الفلکیات ہو یا جُغرافیہ مسلمانوں نے ہر شعبہ ہائے زندگی میں کئی صدیوں تک دنیا کی رہنمائی کی۔

آج ہم پر ایک زوال کی کیفیت ہے، اور تاریخ عالم گواہ ہے کہ کوئی بھی امت یا قوم ہمیشہ عروج پر نہیں رہتی، بلکہ بناؤ اور بگاڑ کے قوانین الٰہی کے تابع اقوام عالم کی قیادت اور سیادت کا سہرا کبھی ایک اور کبھی دوسری امت کے سر رہا ہے، قرآن میں مذکور کہ اللہ کے لئے کچھ مشکل نہیں کہ اگر تم بحیثیت امت اپنے فرض منصبی سے روگردانی کرو تو وہ تمہیں بدل کر تمہاری جگہ ایک اور امت کو امامت کے مرتںے پر سرفراز کردے۔ اس لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارے زوال کا سبب اور تعلق اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے دوری، احکام الہی سے روگردانی اور قانون فطرت کے مطابق امامت کی شرائط پورا کرنے میں ناکامی سے ہے، نہ کہ نبی کی تعلیمات میں کسی کمی، کوتاہی یا خرابی سے۔

بقول اقبال 

آ تجھ کو میں بتاؤں کہ تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر

مسلمان اپنا سنہرا دور گزار چکے، ایک ایسا دور جس سے مغربی دنیا آج بھی حسد، اس کی پیروی اور اس سے علم کشید کرتی ہے۔ 

بدقسمتی سے آج ہم مسلمان، اہل ایمان اور تحریک سے وابستہ لوگ بھی جذباتیت اور سطحیت کا شکار ہیں اور موصوف جیسے نام نہاد دانشوڑوں کے سطحی اعتراضات اور ان کے اٹھائے گئے لایعنی سوالات و اشکالات سے متاثر ہو جاتے ہیں۔

خدارا اس بلا تحقیق فاروڈ اور بے مقصد پوسٹ کرنے کے کلچر سے باہر نکلیں، اپنی علمی سطح اور استعداد میں مطالعے کے ذریعے اضافہ کریں، اور خود کو اس قابل بنائیں کہ ان جیسے نام نہاد دانشوڑوں کے اعتراضات کا آپ خود تشفی اور تسلی بخش جواب دے سکیں، بجائے یہ کہ سراج الحق یا دوسرے اکابرین کی طرف دیکھیں یا اِن بے سروپا اعتراضات سے متاثر ہو کر، اور اِنہیں علمیت کا شاہکار سمجھ کر آگے بڑھائیں۔

و ما علینا الا البلاغ المبین




🔵🔴🔵🔴🔵

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url