کراچی میں حال ہی میں ایک انسانی دودھ کا بینک قائم کیا گیا ہے جس کا مقصد ان بچوں کی مدد کرنا ہے جنہیں ان کی ماؤں کا دودھ میسر نہیں آتا۔ اگرچہ اس اقدام کا مقصد انسانی ہمدردی اور نیک نیتی پر مبنی ہے، مگر دینی اور شرعی نقطہ نظر سے اس طرح کے بینک قائم کرنا جائز نہیں ہے
رضاعت سے پیدا ہونے والی حرمت
اسلامی فقہ کے مطابق، رضاعت سے حرمت پیدا ہوتی ہے، یعنی جو بچہ کسی عورت کا دودھ پیے وہ اس عورت کا رضاعی بیٹا یا بیٹی بن جاتا ہے، اور اس کے ساتھ نکاح ممنوع ہو جاتا ہے۔ یہی حرمت اس عورت کے بچوں، پوتوں اور نواسوں تک بھی وسیع ہوتی ہے۔ مخلوط انسانی دودھ کے بینک میں مختلف خواتین کا دودھ اکٹھا کیا جاتا ہے اور پھر بچوں کو پلایا جاتا ہے۔ اس صورت میں یہ شناخت کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس بچے نے کس خاتون کا دودھ پیا ہے، اور اس سے بعد میں نکاح کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
انسانی دودھ کے بینک میں مختلف خواتین کا دودھ مخلوط ہونے کی وجہ سے یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس بچے نے کس عورت کا دودھ پیا ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال میں یہ ممکن ہے کہ ایک شخص ایسی عورت سے نکاح کر لے جس کی
ماں کا دودھ اس نے بچپن میں پیا ہو۔ یہ شرعی اعتبار سے حرام ہے اور بڑے گناہ کا باعث بنتا ہے۔
اسلامی شریعت نے احکام شرعیہ کی حفاظت پر زور دیا ہے۔ دودھ کے بینک قائم کرنے سے نہ صرف رضاعت کی حرمت کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے بلکہ یہ دیگر شرعی ممانعتوں کا بھی سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے ایسے اقدامات کرنے سے گریز کرنا چاہیے جو بعد میں مشکلات اور گناہ کا باعث بن سکتے ہیں
جدہ کے بین الاقوامی اسلامی فقہی مجمع اور دیگر بہت سے علماء نے انسانی دودھ کے بینک کے قیام کو ناجائز قرار دیا ہے۔ ایک حدیث میں عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ نبی ﷺ نے ایک ایسی عورت کو چھوڑ دینے کا حکم دیا جس کے بارے میں ایک عورت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے دونوں کو دودھ پلایا ہے، اگرچہ یہ دعویٰ مشکوک تھا۔
انسانی دودھ کے بینک قائم کرنے سے نہ صرف دینی بلکہ سماجی مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ رضاعت کے مسائل کی پیچیدگی کی وجہ سے شریعت نے ان امور میں احتیاط کا حکم دیا ہے۔ ایسے اقدامات جو شرعی ممانعتوں کا دروازہ کھولتے ہیں ان سے گریز کرنا چاہیے تاکہ معاشرہ شرعی اصولوں کے مطابق چلتا رہے۔
انسانی دودھ کے بینک کا قیام، خواہ نیک نیتی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہو، شرعی نقطہ نظر سے جائز نہیں ہے۔ اس سے نہ صرف رضاعت کی حرمت کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ دیگر شرعی ممانعتوں کا دروازہ بھی کھلتا ہے۔ اس لیے ہمیں ان معاملات میں دینی اصولوں اور فقہی احکام کی پیروی کرتے ہوئے احتیاط برتنی چاہیے تاکہ معاشرہ شرعی قوانین کے مطابق چلتا رہے اور کسی قسم کے گناہ اور مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ف
⭐⭐⭐⭐⭐⭐
مندرجہ بالا تحریر ایک عالم دین نے تحریر کی ہے۔ لیکن اس سے معاشرے پر کیا اثر پڑے گا اور قران حدیث میں اس بارے کیا حکم ہے کچھ مختصر سا میں اضافہ کر رہا ہوں تاکہ عوام کو احساس ہو کہ یہ کتنا اہم مسئلہ ہے۔
یہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک خالص دینی معاملہ ہے۔ اور اس سے معاشرے میں کیا خرابی پیدا ہوگی اس پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں ۔
کتاب الرضاع
_مدت رضاعت میں تھوڑا یا زیادہ دودھ پلانے سے حرمت_
ضروری نوٹ
ڈھائی سال کے اندر دودھ پلانے کو رضاعت کہتے ہیں۔
رضاعت سے حرمت نسب سے حرمت کی طرح ثابت ہوتی ہے۔
اس کی دلیل قرآن کریم کی دو آیات ہیں
"تمہاری مائیں جس نے تم کو دودھ پلایا اور تمہاری رضاعی بہن جن سے نکاح حرام ہے۔"
(سورہنساء، آیت 23)
"مائیں اپنی اولاد کو دو سال مکمل دودھ پلائیں جو مدت رضاعت پوری کرنا چاہیں۔"
(سورہ بقرہ، آیت 233)
تشریح
امام اعظم کے نزدیک رضاعت کی مدت ڈھائی سال ہے۔
اگر اس مدت میں عورت نے بچے کو تھوڑا سا بھی دودھ پلایا تو حرمت ثابت ہو جائے گی۔
پانچ گھونٹ پینا ضروری نہیں ہے ۔
حرمت کی دلیل
حدیثنبویﷺ
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ کیا رضاعی ماں کی بہن سے نکاح جائز ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا: نہیں، رضاعت حرام کرتی ہے ان کو جن کو نسب کرتا ہے۔"
(صحیح بخاری، کتاب الرضاع، باب ویحرم من الرضاعة ما یحرم من النسب)
فقہی اقوال
تھوڑے سے مقصد دودھ سے حرمت ثابت ہونے کی دلیل:
حضرت علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم فرماتے تھے: "حرام ہوتا ہے تھوڑا اور زیادہ دودھ پینے سے۔"
(نسائی، کتاب الرضاع)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "دو سال کے اندر ہو تو چاہے ایک مرتبہ چوسنا ہو وہ حرام کرتا ہے۔"
(موطا امام محمد، کتاب الرضاع)
میں مطلق لفظ استعمال ہوا ہے، اس لیے تھوڑا سا پلانے سے بھی حرمت ثابت ہو جائے گی ۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ پانچ مرتبہ بچہ دودھ چوسے گا تب حرمت ثابت ہوگی، اس سے کم سے نہیں۔
حاصل کلام
اسلام میں رضاعت کو ایک اہم رشتہ سمجھا جاتا ہے جو ایک عورت اور اس کے دودھ پلانے والے بچے کے درمیان پیدا ہوتا ہے۔ یہ رشتہ نسب کے رشتے کے برابر ہے اور اس کے احکامات بھی اسی طرح نافذ ہوتے ہیں۔ رضاعت کی مدت کے دوران، رضاعی ماں اور باپ بچے کے لیے حلال نہیں ہوتے اور ان کا آپس میں نکاح کرنا حرام ہے۔
مدت رضاعت
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک رضاعت کی مدت ڈھائی سال ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ایک عورت کسی بچے کو ڈھائی سال کے اندر دودھ پلاتی ہے تو وہ اس بچے اور اس کے رضاعی بہن بھائیوں کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔
تھوڑے دودھ سے حرمت
اگر رضاعت کی مدت میں عورت نے بچے کو تھوڑا سا بھی دودھ پلایا تو اس سے حرمت ثابت ہو جائے گی۔ پانچ گھونٹ پینا ضروری نہیں ہے۔ اس کی مندرجہ بالا دلیلیں ثابت کرتی ہیں کہ رضاعت کی اسلام میں کیا اہمیت ہے۔
یاد رکھیں
یہ جدید ذہنوں کی ابلیس سوچ ہے جو ماؤں کے دودھ کا بنک بنا دیا ہے۔ اس معاشرے میں کیا انتشار یا بگاڑ پیدا ہوگا اس پر غور کر انسان کانپ اٹھتا ہے
رضاعت کی مدت میں تھوڑا یا زیادہ دودھ پلانے سے حرمت ثابت ہونے کا حکم شرعی احکامات میں سے ایک اہم حکم ہے۔ اس حکم کی حکمت یہ ہے کہ معاشرے میں جنسی تعلقات کے بارے میں واضح حدود قائم کی جائیں اور خاندانوں کے درمیان مضبوط تعلقات کو فروغ دیا جائے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس حکم کی پوری پابندی کریں اور رضاعت کی مدت میں احتیاط برتیں۔
نوٹ
مندرجہ بالا کچھ تحریر فقہی کتابوں سے ماخوذ ہے۔
احادیث مبارکہ سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رضاعی بچے اور ان کے رضاعی ماں باپ ایک دوسرے پر محرم ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ایک دوسرے سے شادی نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کے
درمیان نکاح جائز ہے۔
( اب آپ تصور کریں کہ اس طرح دودھ بینک بننے سے اسلامی معاشرے میں کسے معلوم ہوگا کہ کس نے کس ماں کا دودھ پیا؟ اور جس سے وہ شادی کر رہا ہے یا کر رہی ہے وہ اس کی/ کا رضاعی بھائی یا بہن بھی ہو سکتی ہے ۔ کیا یہ ایک ابلیسی منصوبہ نہیں جو انسانی ہمدردی کی خوبصورت نقاب کے پیچھے ہے۔؟ )
رضاعی محرمیت کے احکامات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ
رضاعی بچے اور اس کے رضاعی بہن بھائی ایک دوسرے پر بھائی بہن ہو جاتے ہیں۔
رضاعی ماں اور اس کے رضاعی بیٹے کے درمیان نکاح جائز نہیں ہے۔
رضاعی باپ اور اس کی رضاعی بیٹی کے درمیان نکاح جائز نہیں ہے۔
رضاعی دادا اور اس کی رضاعی پوتی کے درمیان نکاح جائز نہیں ہے۔
رضاعی نانا اور اس کے رضاعی نواسے کے درمیان نکاح جائز نہیں ہے۔
رضاعی محرمیت کے احکامات کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں جنسی تعلقات کے بارے میں واضح حدود قائم کی جائیں اور خاندانوں کے درمیان مضبوط تعلقات کو فروغ دیا جائے۔
یہ احکامات اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ
خاندان کے ارکان کے درمیان جنسی تعلقات کا امکان ختم ہو جائے۔
خاندان کے ارکان کے درمیان محبت اور احترام کے جذبات کو فروغ ملے۔
خاندانوں کے درمیان معاشرتی یکجہتی اور استحکام کو مضبوطی ملے۔
رضاعی محرمیت کے احکامات اسلام کی اخلاقی تعلیمات کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ان احکامات پر عمل کرکے مسلمان معاشرے میں ایک صحت مند اور اخلاقی ماحول کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
یہاں کچھ اضافی نکات ہیں جو رضاعی محرمیت کی اہمیت کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں:
رضاعی محرمیت صرف ایک مذہبی حکم نہیں ہے، بلکہ یہ ایک سماجی اور نفسیاتی ضرورت بھی ہے۔
رضاعی محرمیت خاندان کے ارکان کے درمیان اعتماد اور تحفظ کا احساس پیدا کرتی ہے۔
رضاعی محرمیت بچوں کو جنسی استحصال اور بدسلوکی سے بچانے میں مدد کرتی ہے۔
اگر آپ رضاعی محرمیت کے بارے میں مزید جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں، تو آپ کسی عالم دین یا اسلامی اسکالر سے مشاورت کر سکتے ہیں۔ وہ آپ کو کامل اور علمی طور پر مکمل راہنمائی فرما سکتے ہیں
میں امید کرتا ہوں کہ یہ معلومات آپ کے لیے مفید ثابت ہوں گی۔