ڈیجیٹل بھکاری اور بھکارنیں
پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ اپنے حق سے بڑھ کر آپ جو بھی مانگتے ہیں دوسرا خوشی سے دے دے تو اس کا احسان ہے۔ اور ترس کھا کر یا آپ کے ترلوں منتوں سے تنگ آ کر جان چھڑانے کو دیدے تو بھیک کہلاتی ہے۔
ایسی بھیک لینے والا بھکاری کہلاتا ہے۔ اور ضروری نہیں یہ بھیک کرنسی نوٹ کی شکل میں ہو۔ یہ کسی رعایت کی شکل میں ہو سکتی ہے۔ سفارش کی شکل میں بھی۔ اور اپنا کوئی نقصان معاف کر دینے کی شکل میں بھی۔
عام زندگی میں بھی ایس بھکاری اور بھکارنیں آپ کو گلی کوچوں کے علاوہ ہر رش والی جگہ ڈرامے بازی کر کے معمولی چیزیں جیسے پنسل، کاپی، کھلونا، غبارے لے کر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔
یاد رکھیں یہ عام محنتی لوگوں سے الگ ہوتے ہیں لیکن اکثر ہم پہچان نہیں پاتے۔ اصلی خود دار محنت کرنے والا غیرت مند ہوتا ہے۔ اس کا پیٹ بھوکا ہوتا ہے، مگر آنکھوں میں شرم ہوتی ہے۔ اس کو اس کے مال سے زیادہ قیمت دیں تو اول لینے سے انکار کرتا ہے۔ لے لے تو اس کی کوشش ہوتی ہے اس کے بدلے آپ کو کوئی مزید چیز دیدے اس ایکسٹرا پیسے کے بدلے۔
جبکہ ڈرامے باز بھکاریوں کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ ان سے ماچس خرید لو تو اول تو بازار میں دس روپے ملنے والی چیز کے پچاس یا سو روپے بتائیں گے۔ اگر قیمت معمولی ہوگی تو انکی زیادہ تر کوشش ہوگی کہ آپ انکی شکل دیکھ کر ترس کھا کر ویسے ہی پیسے دیدیں۔ اور ان سے چیز نہ لیں۔ اگر آپ پیسے پکڑائیں اور پھر چیز کا تقاضا کریں تو اکثر انکا منہ ڈھلک جاتا ہے۔ کیونکہ چیز تو محض مانگنے کا بہانہ ہوتا ہے۔ یہ جو آواز لگا رہے ہوتے ہیں اس میں بھی چیز کی خوبیاں کم اور اپنی مجبوریاں زیادہ بتا رہے ہوتے ہیں
ان میں سے اکثر کی سیل پچ یہ ہوتی ہے۔ باجی، بھائی ، انکل ۔ ۔ یہ چیز لے لیں۔ ۔ میں صبح سے بھوکا ہوں ۔ ۔ کچھ نہیں کھایا میں نے ۔ ۔ صبح سے ایک بھی پنسل نہیں بکی ۔ ۔ میرے ابو بیمار ہیں ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ سچ جھوٹ کو ایک سائیڈ پر رکھ کر تھوڑی دیر غور کریں تو آپ کو صاف نظر آئیگا کہ چیز بیچنا ایک دھوکا ہے ۔ ۔اصل میں اپنی مجبوریاں بتا کر بھیک مانگنا اصل مقصد ہے۔ ۔ آخری نشانی یہی ہے کہ آپ دس روپے کی پنسل کے بدلے ان کو پانچ سو کا نوٹ بھی دیدیں تو یہ کوشش کریں گے کہ پنسل بھی انہی کے پاس رہے۔ ۔
بالکل ایسے ہی بھکاری اور بھکارنیں اب ڈیجیٹل دنیا میں بھی موجود ہیں۔ جن کا مقصد چیز بیچنا نہیں ہوتا بلکہ اپنی مجبوریوں اور محرومیوں کی داستانیں سنا کر لوگوں کی ہمدردیوں کو کیش کروانا ہوتا ہے۔ ان میں سے اکثر کو کاروبار کا تو چھوڑیں مارکیٹ ہی کا پتہ نہیں ہوتا۔ گاہک سے کیسے ڈیل کرنا ہے۔ چیز بہتر کیسی ہوتی ہے؟ کوالٹی اور معیار کیا ہوتا ہے؟ ڈلیوری کیسے بہتر کی جا سکتی ہے؟ دکانداری کے تقاضے کیا ہوتے ہیں؟ اخلاقیات کیا چیز ہے؟ ۔ ۔ یہ سب تو دور کی چیزیں ہیں۔
اس لیے انکی سیل پچ بھی بالکل انہی بھکاریوں جیسی ہوتی ہے جیسی اوپر بیان کی گئی ہے۔
یہ چیز خرید لیں، میرے گھر راشن بھی نہیں ہے۔
یہ کام میں شروع کر رہی ہوں، مگر میرا موبائل پرانا ہے۔
میں نے اکٹھا مال اٹھا لیا ہے مگر میرے پاس اتنے پیسے دینے کے لیے نہیں ہیں۔ مدد کر دیں ۔ ۔چیزیں خرید لیں۔ ۔
آج میرے بچے کو بخار آ گیا ، سارا دن ضائع ہو گیا ، میں لسٹ نہیں لگا سکی ۔ ۔ بس گھر اور کام ساتھ چلانا بہت مشکل ہے ایک عورت کے لیے ۔ ۔ مگر مجبوری ہے۔
آپ کہیں گے یہ تو سیل پچ نہیں ہے ۔ ۔ یہ تو عام سی باتیں ہیں۔ ۔ میں کہوں گا ۔ ۔آپ بہت بھولے ہیں۔ ۔ بالکل ویسے بھولے ۔۔ جو بازار میں معذور دیکھ کر دس بیس روپے اسکی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔ بعد میں شام کو وہ "معذور" پانچ دس ہزار کی دیہاڑی سمیٹ کر اٹھ کر کدکڑے لگاتا اپنے گھر چلا جاتا ہے۔ ۔
چلیں میں یہ نہیں کہتا کہ ان ڈیجیٹل بھکاری بھکارنوں کے گھریلو مسائل نہیں ہونگے۔ ۔ کچھ واقعی مجبور ہونگی ۔ ۔ لیکن ایسی مجبوریوں کو کوئی غیرت مند دکاندار اپنی دکان پر لگانے کی حرکت کبھی نہیں کرتا۔ ۔
لاہور میں شاہ عالمی بازار ہے۔ سینکڑوں چھوٹی چھوٹی دکانیں اور ان میں بیٹھے دکاندار ۔ ۔ ہر ایک کی الگ کہانی ۔ ۔ لیکن انکی دکانوں پر لگے سائن بورڈ کیا کہتے ہیں ؟
۔ زرا پڑھیں ۔ ۔
- ۔ ہر مال بہترین ۔ گارنٹی کے ساتھ ۔ ۔
- ۔ چائنہ سے درامد ۔ کوالٹی اور قیمت میں بہترین۔
- ۔ جرمنی سے امپورٹڈ جنریٹر ۔ دس سال گارنٹی ۔
- ۔ سب سے سستا، ہر مال سو روپے ۔
- بازار سے با رعایت ، پچیس سال پرانی دکان ۔
دیکھا آپ نے ۔ ۔ سب کاروباری ہیں ۔ ۔ سب مال بیچ رہے ہیں۔ سب اپنے مال کی بات کر رہے ہیں۔ ۔
لیکن اگر شاہ عالمی مارکیٹ کے یہ دکاندار ڈیجیٹل بھکاریوں جیسے ہوتے ۔ ۔ تو ان کی دکانوں کے بورڈ کچھ یوں ہوتے:
- ۔ میرے دونوں گردے خراب ہیں، میرا مال خرید لیں۔
- ۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھوکے ہیں ۔ ۔
- ۔ میری بیوی مر گئی ہے، گھر میں کھانا پکانے والا کوئی نہیں۔
- ۔ میرے گھر کی چھت ٹپک رہی ہے۔ ٹھیکیدار دھوکے باز نکلا۔ خریداری کر کے میری مدد کریں۔
- ۔ میری گاڑی چوری ہو گئی، نقصان بھرنے کے لیے مجھ سے جنریٹر خرید لیں۔
- ۔ میری دکان میں آگ لگ گئی تھی، سارا مال جل گیا ۔ ۔ مہربانی کریں قیمت زیادہ دیں۔
مجھے یقین ہے ان میں سے ایک بھی بورڈ آپ کو شاہ عالمی مارکیٹ تو کیا ، دنیا میں کہیں بھی نظر نہیں آئیگا ۔ ۔ سوائے بھکاریوں کے ہاتھ میں ۔ ۔
اب آپ سوشل میڈیا پر آ جائیں۔
اور خود فیصلہ کر لیں ۔ ۔ آپ کو دو قسم کے دکاندار نظر آئیں گے۔ ۔
ایک وہ جو اچھا مال بیچتے ہیں۔ مال کی خوبیاں بیان کرتے ہیں۔ اچھی قیمت اور اچھی ڈلیوری دیتے ہیں۔ ۔ ۔ اور کسی بھی غلطی کوتاہی کی صورت میں فوری ازالہ کرتے ہیں۔
ایسے لوگ برانڈ کہلاتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں بہت سے لوگوں کا نام ہی برانڈ بن چکا ہے۔
اور دوسری طرف وہ ڈیجیٹل بھکاری اور بھکارنیں ہیں۔ ۔ جن کا مال فضول ، قیمت زیادہ ، ڈلیوری کا کچھ پتہ نہیں ۔ ۔ اور جنکی آہ و بکا آسمان تک ۔ ۔ ان کے پیجز ہوں، سوشل میڈیا وال ہو ۔ ۔ یا وٹس ایپ ۔ ۔ ہر جگہ ایک ہاہا کار مچی ہوتی ہے ۔ ۔ مال بیچنے سے زیادہ اپنی تکلیفوں ۔ ۔ حسد ۔ ۔ نالائقی ۔ ۔ نقصان ۔ ۔ بیماریوں ۔ ۔ مصیبتوں کی کہانیاں بیان ہوتی ہیں ۔ ۔ ہر وقت بقول شخصے پھوڑی بچھی ہوتی ہے۔ ۔ اور بین چالو ہوتے ہیں۔ ۔ ۔
ایک خاص قسم تو میں بھول ہی گیا ۔ ۔ گاڑی ۔ ۔ بس ۔ ۔ چنگ چی پر سفر کرتے کوئی بھکارن مانگنے آ جائے اور کوئی اس انکار کر دیں ۔ ۔ تو وہ باقاعدہ کوسنے دینے پر آ جاتی ہے ۔ ۔پچھلے دنوں شائد کراچی سے ایک ایسی بھکارن کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی ۔ ۔ جس میں وہ ایک دکاندار سے الجھ رہی تھی کہ دس روپے کی اوقات نہیں تیری ۔ ۔ مجھے بھیک نہیں دے رہا ۔ ۔ بھیک ہی تو مانگ رہی ہوں ۔ ۔ دیتا کیوں نہیں ۔
بس ایسی ہی ڈیجیٹل بھکارنیں بھی ان آن لائن سیلرز میں آن شامل ہوئی ہیں۔ ۔ ۔ زرا کسی نے سودا لینے سے انکار کیا ۔ ۔ تو انکے کوسنے شروع ۔ ۔ ۔ "بھیک ہی تو مانگ رہی ہوں ۔ ۔ دیتا کیوں نہیں رے تو؟؟" ۔ ۔
یاد رکھیں۔ ۔ زندگی کسی کے لیے آسان نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ہر کوئی کسی نہ کسی آزمائش یا امتحان سے گزر رہا ہے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ آپ غریب ہیں اس لیے ٹینشن میں ہیں تو ایک دن کے خدا ٓپ کو ملک ریاض بنا دے تو آپ کو تو ہارٹ پہلے گھنتے میں فیل ہو جائے۔ ۔
یہاں دنیا میں منزلیں انہی کو ملتی ہیں جو درد سہنا اور چپ رہ کر کام کرنا جانتے ہیں۔ ۔ رونے چیخنے والوں کو بھیک ہی ملتی ہے ۔ ۔ منزل نہیں ۔ ۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ بڑے بڑے نام بہت خوش زندگی گزار رہے ہیں، ان کی زندگی میں کوئی غم نہیں ۔ ۔ تو کبھی انکی کہانیاں سنیں ۔ ۔ ہر ایک کی کہانی میں آپ کو عزم و ہمت نظر آ ئیگا ۔ ۔ لیکن بھیک مانگنا کہیں نہیں ملیگا ۔ ۔ جس نے زندگی میں ایک بار تعلق، پیسے، فیور، آسانی کی بھیک قبول کر لی۔ ۔ وہ ساری زندگی کے لیے اپاہج ہو جاتا ہے ۔ ۔ بڑا آدمی کبھی نہیں بن سکتا ۔ ۔
مجھے اجازت نہیں ہے ورنہ سوشل میڈیا اور میڈیا کے بڑے ناموں کے دکھ آپ کو بتاتا تو آپ کے بچے کا بخار ، خاوند کی بیروزگاری ، یا دو وقت کا فاقہ شائد ان دکھوں کے سامنے کچھ بھی نہ ہو ۔ ۔ جن کا یہ بڑے ظرف کے لوگ کبھی زکر بھی نہیں کرتے ۔ ۔ ۔ بلکہ ان سب کو بھلا کر وہ دوسروں کے دکھوں کا مداوا کر رہے ہوتے ہیں۔
چھوٹے ذہن میں جب بڑا خیال سما جائے تو وہ چھوٹا نہیں رہتا ۔ ۔ لیکن چھوٹے ذہن میں اگر چھوٹا خیال چھا جائے تو کبھی بڑا انسان بن ہی نہیں پاتا۔
اللہ ہمیں ڈیجیٹل یا حقیقی زندگی ۔ ۔ ونوں جگہ بھکاری بننے سے بچائے اور بھکاریوں کے مکر و فریب سے بھی بچا کر رکھے ۔ آمین۔
محمود فیاض
- Digital beggars
- Online begging
- Cyber-begging
- E-begging
- Internet panhandling
- Social media begging
- Donations
- Scams
- Fraud
- Exploitation
- Sympathy
- Manipulation
- Guilt-tripping
- Vulnerability
- Self-sufficiency
- Dignity
- Hard work
- Perseverance
- Selflessness
- Humility
- Gratitude
- Compassion
- Empathy
- ڈیجیٹل بھکاری
- آن لائن بھیک
- سائبر بھیک
- ای بھیک
- انٹرنیٹ پین ہینڈلنگ
- سوشل میڈیا بھیک
- عطیات
- دھوکہ دہی
- فراڈ
- استحصال
- ہمدردی
- ہیرا پھیری
- جرم کا احساس
- کمزوری
- خود کفائی
- عزت
- محنت
- ہمت
- بے غرضی
- انکساری
- شکر گزاری
- ہمدردی
- ہمدردی