Visit Our Official Web 1947 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان دریاؤں کے پانی اور پہاڑی نمک پر معاہدے ۔ ایک جائزہ Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

1947 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان دریاؤں کے پانی اور پہاڑی نمک پر معاہدے ۔ ایک جائزہ


1947 میں برطانوی ہندوستان کی تقسیم کے بعد، پاکستان اور انڈیا کے درمیان کئی اہم مسائل پیدا ہوئے، جن میں دریاؤں کے پانی اور پہاڑی نمک کی تقسیم بھی شامل تھی۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے، دونوں ممالک نے 1947 میں دو اہم معاہدوں پر دستخط کیے:

سندھ طاس معاہدہ

اس معاہدے کے تحت، دریائے سندھ اور اس کے پانچ معاون دریاؤں (راوی، چناب، جہلم، ستلج اور بیاس) کے پانی کی تقسیم کا تعین کیا گیا۔ پاکستان کو مغربی دریاؤں (جہلم، چناب اور سندھ) پر کنٹرول حاصل ہوا، جبکہ انڈیا کو مشرقی دریاؤں (راوی، ستلج اور بیاس) پر کنٹرول حاصل ہوا۔

پہاڑی نمک کا معاہدہ

اس معاہدے کے تحت، پاکستان اور انڈیا نے خیبر پختونخواہ کے نمک کے کانوں سے نمک کی پیداوار اور اس کی تقسیم پر اتفاق کیا۔

ہم اپنے اس مضمون میں ان دو معاہدوں کی تفصیلات، ان پر عمل درآمد کی صورتحال، اور ان معاہدوں کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لیں گے ۔

سندھ طاس معاہدہ

جنرل ایوب خان کے دور میں دوبارہ سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہوئے 

سندھ طاس معاہدہ ایک پیچیدہ اور تکنیکی معاہدہ تھا جس میں کئی سالوں کی مذاکرات کے بعد اتفاق کیا گیا تھا۔ معاہدے کی اہم شرائط درج ذیل ہیں:

 پاکستان کو مغربی دریاؤں سے 36 ملین ایکڑ فٹ سالانہ پانی حاصل کرنے کا حق حاصل ہوا۔

انڈیا کو مشرقی دریاؤں سے 40 ملین ایکڑ فٹ سالانہ پانی حاصل کرنے کا حق حاصل ہوا۔

دونوں ممالک نے اپنے اپنے دریاؤں پر ڈیم اور دیگر آبی منصوبوں کی تعمیر کا حق حاصل کیا۔

ایک بین الاقوامی سندھ طاس کمیشن کی تشکیل کی گئی تاکہ معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کی جا سکے۔

پہاڑی نمک کا معاہدہ

پہاڑی نمک کا معاہدہ ایک نسبتاً سادہ معاہدہ تھا جس میں نمک کی پیداوار اور اس کی تقسیم پر اتفاق کیا گیا تھا۔ معاہدے کی اہم شرائط درج ذیل ہیں:

 پاکستان اور انڈیا نمک کے کانوں سے نمک کی پیداوار میں برابر حصہ داری کریں گے۔

نمک کی تقسیم دونوں ممالک کی آبادی کے تناسب کے مطابق کی جائے گی۔

ایک مشترکہ انتظامیہ کی تشکیل کی گئی تاکہ نمک کے کانوں کا انتظام اور نمک کی تقسیم کی نگرانی کی جا سکے۔

لیکن نمک کی کوئی مخصوص قیمت مگر نہیں کی گئی تھی ۔

عمل درآمد کی صورتحال

سندھ طاس معاہدہ اور پہاڑی نمک کا معاہدہ دونوں پر بڑی حد تک عمل درآمد کیا گیا ہے۔ سندھ طاس کمیشن نے دونوں ممالک کے درمیان پانی کے اختلافات کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم، بہت سے مسائل اب بھی باقی ہیں۔

سندھ طاس معاہدے کے تحت، پاکستان کو مغربی دریاؤں سے 36 ملین ایکڑ فٹ سالانہ پانی حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ تاہم، انڈیا نے کئی بار اس پانی کو روکنے کی کوشش کی ہے، اور اب تقریباً پانی روک چکا ہے جس سے پاکستان خشک سالی اور پانی کی کمی کا باعث بنا ہے۔ اور انڈیا اس پر ہڈ دھرمی کا مظاہرہ کرتا آرہا ہے ۔

پہاڑی نمک کے معاہدے کے تحت، پاکستان  انڈیا کی نمک کی ضرورت کو پورا کرے گا۔ لیکن اس، وقت حالات یہ ہیں کہ پاکستان سے انڈیا اپنی ضرورت سے زیادہ نمک لیتا ہے۔ اور پاکستان کا الزام ہے کہ انڈیا اسے یورپ اور امریکہ میں اپنی پروڈکٹ کہہ کر مہنگے داموں فروخت کر رہا ہے ۔

خلافی ورزیاں

پاکستان کا الزام ہے کہ انڈیا نے کئی بار سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، بشمول:

 مغربی دریاؤں سے پانی روکنا

غیر قانونی ڈیم اور آبی منصوبے بنانا

سندھ طاس کمیشن کے فیصلوں کی خلاف ورزی کرنا

انڈیا کے غیر قانونی ڈیمز کے نام

پاکستان کا الزام ہے کہ انڈیا نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کئی غیر قانونی ڈیم بنائے ہیں۔ ان میں سے کچھ اہم ڈیموں کے نام درج ذیل ہیں:

تولتوا ڈیم

یہ ڈیم دریائے راوی پر واقع ہے اور اس کی تعمیر 1989 میں مکمل ہوئی تھی۔ پاکستان کا الزام ہے کہ یہ ڈیم سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے کیونکہ اس سے پاکستان کو دریائے راوی سے حاصل ہونے والے پانی کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔

راناپراد ڈیم

 یہ ڈیم دریائے چناب پر واقع ہے اور اس کی تعمیر 2001 میں مکمل ہوئی تھی۔ پاکستان کا الزام ہے کہ یہ ڈیم بھی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے کیونکہ اس سے پاکستان کو دریائے چناب سے حاصل ہونے والے پانی کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔

سالال ڈیم

 یہ ڈیم دریائے چناب پر واقع ہے اور اس کی تعمیر 1987 میں مکمل ہوئی تھی۔ پاکستان کا الزام ہے کہ یہ ڈیم بھی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے کیونکہ اس سے پاکستان کو دریائے چناب سے حاصل ہونے والے پانی کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔

پاکال ڈول ڈیم

 یہ ڈیم دریائے ستلج پر واقع ہے اور اس کی تعمیر 2018 میں مکمل ہوئی تھی۔ پاکستان کا الزام ہے کہ یہ ڈیم بھی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے کیونکہ اس سے پاکستان کو دریائے ستلج سے حاصل ہونے والے پانی کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔

پاکستان نے انڈیا کے خلاف ان غیر قانونی ڈیموں کے معاملے پر بین الاقوامی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کیا ہے۔ انڈیا نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے تمام ڈیم سندھ طاس معاہدے کے مطابق ہیں۔ تاہم، اس معاملے پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں آیا ہے۔

انڈیا کا پاکستان سےسستا نمک خرید کر عالمی منڈی میں مہنگا فروخت کرنا

پہاڑی نمک کا معاہدے کے تحت، پاکستان اور انڈیا نمک کے کانوں سے نمک کی پیداوار میں برابر حصہ داری کریں گے۔ اور پاکستان انڈیا کی نمک کی ضرورت پوری کرتا رہے گا۔ تاہم، پاکستان کا الزام ہے کہ انڈیا نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور نمک کی زیادہ حاصل کر رہا ہے۔

انڈیا پاکستان سے سستا نمک خریدتا ہے اور اسے اپنے نام سے دنیا بھر میں فروخت کرتا ہے۔ اس سے پاکستان کو مالی نقصان ہوتا ہو رہا ہے ۔اور اس کی نمک کی صنعت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

پاکستان نے انڈیا کے خلاف اس معاملے پر بھی بین الاقوامی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کیا ہوا ہے۔ انڈیا ان الزامات کی بھی تردید کرتا ہے ( حالانکہ گلابی نمک انڈین آن لائن بھی ہر بڑہ چھوٹی ویب سائٹ پر انڈین پروڈکٹ کہہ کر فروخت کرتے ہیں) ۔اور کہا ہے کہ وہ صرف اپنی ضروریات کے لیے نمک کی حاصل کر رہا ہے۔ تاہم، اس معاملے پر بھی ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں آیا ہے۔

لیکن انڈیا پاکستان سے کوڑیوں کے بھاؤ نمک خرید کر اسے بین الاقوامی منڈی میں اپنے نام اور اپنی پروڈکٹ کہہ کر فروخت کر رہا ہے بلکہ یہ اس معاہدے کی بھی خلاف ورزی کر رہا ہے ۔ کیوں کہ معاہدے کے تحت پاکستان صرف انڈیا کی ضرورت کے مطابق نمک دینے کا پابند ہے،  

جبکہ انڈیا ضرورت سے زیادہ نمک لے کر اسے بین الاقوامی سطح پر فروخت کر رہا ہے ۔ 

اور اس طرح وہ عالمی برادری سے بھی دھوکہ کر رہا ہے ۔ کیوں کہ گلابی نمک پاکستان کی پروڈکٹ ہے،  انڈیا اسے اپنی پروڈکٹ کہہ کر قانوناً فروخت نہیں کر سکتا ۔ 

لیکن شروع دن سے ہی چانکیا کے فلسفہ پر چلنے والا انڈیا نہ صرف پاکستان بلکہ ارد گرد کی دوسری ریاستوں کے ساتھ. بھی اسی طرح وعدہ خلافیوں کرتا آرہا ہے ۔ 

یہ وجہ ہے کہ آج انڈیا میں رہنے والی بیسوں قومیں آزادی کی مسلح تحریکیں چلانے پر مجبور ہیں ۔ پنجاب سے لے کر برما اور نپال کے باڈر تک ایسی مسلح تحریکیں مسلسل انڈین آرمی سے حالت جنگ میں ہیں ۔

اور مسلح تصادم روز مرہ کا معمول ہے اور انڈین آرمی روزانہ اپنے فوجیوں کی لاشیں اٹھانے پر مجبور ہے۔

اور مودی کے حکمران بننے کے بعد یہ آگ زیادہ بھڑک اٹھی ہے ۔ لیکن بھارتی میڈیا پر سخت سنسر شپ کہ وجہ سے خبریں باہر نہیں آتیں۔ لیکن آزاد زرائع ابلاغ پر یہ خبریں آتی رہتی ہیں ۔ مگر بھارتی عوام سے بھارت کی حکومت چھپانے کی کوشش کرتی ہے ۔لیکن سوشل میڈیا کے اس، دور میں کوئی خبر چھپانا مشکل ہے ۔

ہندو مسلم اور عیسائیوں کی تفریق ۔ جس میں ہندو ازم کا مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملے روز کا معمول بن چکا ہے،، 

اور سکھ الگ سے انڈیا کے خلاف عالمی سطح پر تحریک چلا رہے ہیں ۔ وہ بھی انڈیا سے آزادی چاہتے ہیں ۔

کیوں کہ انڈیا 1947 میں کئیے گئے وعدے کسی بھی ریاست یا قومیت سے پورے نہیں کئے ۔ 

انڈیا کا الزام ہے کہ پاکستان نے بھی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، بشمول:

 غیر قانونی طور پر زیر زمین پانی نکالنا
نمک کے کانوں سے نمک کی زیادہ پیداوار کرنا
سندھ طاس کمیشن کے فیصلوں کی خلاف ورزی کرنا
لیکن انڈیا کے یہ الزامات بے بنیاد ہیں ۔ اور انڈیا کے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اگر چانکیا کے چیلوں کے پاس ثبوت ہوتے تو، وہ اب تک عالمی سطح پر شور مچاتے نظر آتے ۔

لیکن پاکستان کی افسر شاہی اور حکومتوں نے بھی کبھی سنجیدگی سے اس، پر کام نہیں کیا۔ اور صرف نمک کی مد میں اربوں روپے کے سالانہ نقصان پر خاموش ہیں ۔ جبکہ یہ نمک پاکستان خود بین الاقوامی منڈی میں اپنے نام سے، فروخت کر کے اربوں ڈالر سالانہ کما سکتا ہے ۔ جو کہ اس، وقت انڈیا کما رہا ہے ۔

 اس پر پاکستان کی حکومت کو کوئی سنجیدہ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اور جو تاجر اس نمک کو اچھی طرح پیک کر کے پاکستانی برانڈ کے طور پر عالمی منڈی میں فروخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ان کو حکومتی سرپرستی اور مدد ملنی چاہئے ۔

 بہر کیف 

دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف میں مقدمات دائر کر رکھے ہیں۔ تاہم، ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں آیا ہے۔

پانی کی کمی اور خشک سالی

پاکستان اور انڈیا دونوں پانی کی کمی اور خشک سالی کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ مسائل آب و ہوا کی تبدیلی، آبادی میں اضافہ، اور صنعتی ترقی سے بڑھ گئے ہیں۔

سندھ طاس معاہدہ دونوں ممالک کو اپنے پانی کے وسائل کو منظم کرنے اور پانی کی کمی اور خشک سالی کے اثرات کو کم کرنے میں مدد کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ تاہم، معاہدے پر عمل درآمد کے مسائل نے دونوں ممالک میں پانی کی کمی اور خشک سالی کے مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے

1947 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان دریاؤں کے پانی اور پہاڑی نمک پر معاہدے دونوں ممالک کے لیے اہم ہیں۔ ان معاہدوں نے دونوں ممالک کو اپنے قدرتی وسائل تک رسائی فراہم کی ہے اور انہیں پانی کی کمی اور خشک سالی جیسے اہم مسائل کو حل کرنے میں مدد کی ہے۔ تاہم، ان معاہدوں پر عمل درآمد کے مسائل نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا کی ہے۔

لیکن اس میں قصور انڈیا کا ہے وہ خود کو علاقے کا تھانیدار سمجھتا ہے ۔ اور  انڈیا کی یہ سوچ شاید انڈین فیڈریشن کے ٹوٹنے کا سبب بن جائے سوویت یونین کی طرح ۔۔

مستقبل میں، پاکستان اور انڈیا کو ان معاہدوں پر عمل درآمد کو بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے خدشات کو دور کرنے اور پانی اور نمک کے وسائل کے منصفانہ اور پائیدار استعمال کو یقینی بنانے کے لیے بات چیت اور تعاون کے ذریعے حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ 

لیکن انڈیا کی حکومت کبھی بھی اس پر سنجیدہ بات چیت کے لئے تیار نہیں ہوئی ۔

🔴🔴🔴🔴🔴


  • Indus Waters Treaty
  • Hill Salt Agreement
  • Water Sharing
  • Salt Sharing
  • India-Pakistan Conflicts
  • International Indus Basin Commission
  • Illegal Dams
  • Water Scarcity and Drought

  • Ravi, Chenab, Jhelum, Sutlej, and Beas Rivers
  • Western Rivers and Eastern Rivers
  • Khyber Pakhtunkhwa Salt Mines
  • Acre Feet
  • Irrigation, Transportation, and Hydropower Generation
  • Joint Administration
  • Tultuva Dam, Ranaprad Dam, Salal Dam, and Pakal Dul Dam
  • International Court of Justice
  • Pink Salt
  • Chanakya's Philosophy
  • Sikh Freedom Movement
  • Impacts of Water Scarcity and Drought
  • Climate Change, Population Growth, and Industrial Development
  • Equitable and Sustainable Use

  • سندھ طاس معاہدہ
  • پہاڑی نمک کا معاہدہ
  • پانی کی تقسیم
  • نمک کی تقسیم
  • انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازعات
  • بین الاقوامی سندھ طاس کمیشن
  • غیر قانونی ڈیم
  • پانی کی کمی اور خشک سالی

  • راوی، چناب، جہلم، ستلج، اور بیاس دریا
  • مغربی دریا اور مشرقی دریا
  • خیبر پختونخواہ کے نمک کے کان
  • ایکڑ فٹ
  • آبپاشی، ٹرانسپورٹ، اور بجلی کی پیداوار
  • مشترکہ انتظامیہ
  • تولتوا ڈیم، راناپراد ڈیم، سالال ڈیم، اور پاکال ڈول ڈیم
  • بین الاقوامی عدالت انصاف
  • گلابی نمک
  • چانکیا کا فلسفہ
  • سکھوں کی آزادی کی تحریک
  • پانی کی کمی اور خشک سالی کے اثرات
  • آب و ہوا کی تبدیلی، آبادی میں اضافہ، اور صنعتی ترقی
  • منصفانہ اور پائیدار استعمال 
  • سندھ طاس معاہدہ
  • پہاڑی نمک کا معاہدہ 
  • بین الاقوامی سندھ طاس کمیشن 
  • انڈیا اور پاکستان کے درمیان پانی کے تنازعات

🔴🔵🔴🔵🔴

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url