Visit Our Official Web ‏قرض کیسے چڑھتا اور کیسے اترتا ہے Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

‏قرض کیسے چڑھتا اور کیسے اترتا ہے


پاکستان کا ایک بڑا اخبار پچھلے ایک ہفتے سے معیشت کی بہتری کے لئیے چوٹی کے ماہرین سے ،کر ڈالو، کے نام سے ایک بحث مباحثہ جاری رکھے ہوئے ہے جس کا مقصد پاکستانی معیشت کی بحالی اور بہتری ہے۔

   اس سے چند ایک لطیفے یاد آ رہے ہیں۔

ایک شخص کے بیٹے نے منطق میں ڈگری حاصل کی۔ایک دن ناشتہ کرتے ہوئے بیٹے نے کہا ابا جی میں سامنے پڑے ہوئے ایک  آملیٹ کو دلائل کی مدد سے دو کر سکتا ہوں۔بیٹے کے کئ فضول قسم کے دلائل سن کر باپ نے چپکے سے آملیٹ کھا کر کہا۔۔۔بیٹے دوسرا آملیٹ تم کھا لو۔

    پاکستان کا بجٹ جون میں پیش ہوتا ہے۔جس کی تیاری دو تین ماہ پہلے شروع ہوجاتی ہے۔ بجٹ دستاویزات تیار کرنے پر محکمہ خزانہ کے اہل کاروں کو ایک یا دو ماہ کی اضافی تنخواہ دی جاتی ہے۔جون کے پہلے ہفتے میں قومی اسمبلی میں خوب شور شرابے کے پس منظر میں بجٹ پیش کرنے کا سنہرا کارنامہ سر انجام دے کر اسی دن منظور کر لیا جاتا ہے۔ 

   اب جولائی 2023 سے جون 2024 کے بجٹ کو سمجھ لیں۔۔

فرض کرلیں یکم جولائی 2023 سے 31 جون 2024 تک پاکستان کا کل خرچہ 14460 کھرب میں روپے ہو گا۔ اس کو آسانی کی خاطر روپے سمجھ لیں۔جبکہ کل آمدن 7536 روپے ہو گی۔ 

اب 14460 میں سے 7536 نکال دیں تو باقی 6924 روپے بنتے ہیں۔ یعنی یہ 6924 روپے کے خسارے کا بجٹ ہے۔ (جو ہماری تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے)

یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیجیے کہ 6924 روپے خرچ کہاں کہاں کرنے ہیں یہ فیصلہ تو ہو گیا ہے لیکن یہ 6924 روپے آئیں گے کہاں سے، اس بارے میں ابھی سوچنا ہے۔ اگر کوئی بندوبست نہ ہوا تو پھر قرضہ لے کر پورے کر لیں گے۔

اب آ جائیے کہ ہماری اصل اور ذاتی آمدن جو 7536 روپے ہو گی اس کو کیسے خرچ کرنے کا پلان ہے۔ تو جناب اس میں سے 7303 روپے تو سابقہ قرضوں کی واپسی میں چلے جائیں گے۔ اور باقی بچیں گے 233 روپے۔ اور ایک عدد چھنکنا۔

    اصل میں 14460 روپے کا نہیں بلکہ 233 روپے کا بجٹ ہے۔ اور انہی 233 روپوں سے دفاعی اخراجات، تعلیم، صحت، تنخواہوں، پنشن وغیرہ کا بندوبست کیا جائے گا۔ ترقیاتی کام بھی ہوں گے اور بینظیر انکم سپورٹ، لیپ ٹاپ، سکالرشپس اور دیگر فلاحی منصوبے بھی انہی پیسوں سے پورے کرنے ہیں۔ 

یہی 233 روپے ہمارے ذاتی ہیں، باقی سارے پیسے کسی اور کے ہوں گے۔ کچھ آئی ایم ایف والے انکل باہر سے بھیجیں گے اور کچھ کمرشل بینکوں والے چاچوؤں سے ادھار لے لیں گے۔ چائنہ، یو اے ای اور سعودیہ والے کزنز سے بھی کچھ امیدیں ہے۔ اگر وہ دے دیں گے تو ان کا بھی بھلا اور نہ دیں گے تو ہماری طرف سے شکوہ کوئی نہیں ہو گا۔ کیونکہ سیانے بہت پہلے کہہ گئے ہیں کہ بھکاریوں کا کوئی انتخاب نہیں ہوتا ہے۔

منصوبے دیکھیں تو کیا بات ہے خزانہ دیکھیں تو ٹکا نہیں ہے۔۔۔۔پلے نہی سیر آٹا تے ہنگدی دا سنگ پاٹا۔

  اب مہنگے ملبوسات پہنے ہوئے وزیر سینکڑوں قسم کے منصوبے گنوائیں گے،عوام کی حالت بہتر کرنے کا کہیں گے،غربت ختم کرنے کا اعلان کریں گے لیکن اپنے پاس پھوٹی کوٹی تک نہیں ہے۔کبھی کسی بجٹ میں یہ نہیں کہا گیا کہ ہم مزید قرضے نہیں لیں گے۔ہم سادہ رہیں گے اور سادگی کو اپنائیں گے۔اپنا رہن سہن بہت سادہ کریں گے۔مختلف سہولیات نہیں لیں گے۔ کوئی شان وشوکت نہیں دکھائیں گے۔بس ٹیکس لگانے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں جو صرف غریب ادا کریں گے۔

   حکومت صرف اپنی عیاشیاں اور خرچ پورے کرنے کے لئیے قرض لیتی ہے غریب سے غریب بندہ اپنا سارا خرچ خود کرتا ہے۔ملکی وسائل سے حاصل کردہ دولت کا کوئی حساب کتاب نہیں کہ کدھر جارہی ہے۔ایک ایٹمی ملک ایک ارب ڈالر قرض کے لئیے آئی ایم ایف اور دیگر ممالک میں ذلیل و خوار ہو رہا ہے جب کہ بنگلادیش اور ہندوستان سینکڑوں ارب ڈالرز تجارت سے کما رہے ہیں۔ائی ایم ایف،ورلڈ بینک اور دوسرے مالیاتی ادارے ہمیں کبھی بھی قرضوں سے آزاد نہیں کریں گے۔وہ تھوڑی سی بھیک دے کر ہمیں ذلیل وخوار کرنے کے لئیے زندہ رکھیں گے۔

    ہماری حکمت عملی تشکیل دینے والوں کے دماغ بہت چھوٹے ہیں ڈنگ ٹپاو کام کرتے ہیں۔پچھلے برس کسانوں کے گھروں پر چھاپے مار کر گندم خریدی پھر مہنگی گندم درآمد کی اور اب اپنی گندم خریدنی نہیں ہے بلکہ اس کو مہنگے داموں اسمگل کریں گے۔پہلے سولر لگانے ہر رعایتیں دیں اور اب ٹیکس لگا رہے ہیں۔

    پاکستان سے اسمگلنگ تین راستوں سے ہوتی ہے۔زمینی، ہوائی اور بحری ان تین راستوں کی محافظ عوام نہیں ہے بلکہ ملکی محافظ ادارے ہیں۔پھر اسمگلنگ کیسے ہوتی ہے۔سادے سے دیہاتی بندے سے ملکی معیشت ٹھیک اور بہتر کرنے کا پوچھ لیں تو ٹھیک حل بتائے گا جو سینکڑوں چوٹی کے ماہرین  معیشت کے مشوروں پر بھاری ہوگا

قرض ہے تو

سادگی اختیار کریں اور اخراجات کم سے کم کریں اور قرض اتارنے کے لئیے مزید قرض نہ لیں اور اپنے وسائل سے کام چلائیں

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url