Visit Our Official Web یہ آواز خلق ہے اسے دبایا نہیں جا سکتا Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

یہ آواز خلق ہے اسے دبایا نہیں جا سکتا

 

نماز کا ایک انوکھا اور حیران کن پہلو:

‏میں تلاوت کر رہا تھا تو سورہ المعارج کی ایک آیت پر آ کر رک سا گیا،

بات انسان کی تخلیق کے بارے میں تھی کہ انسان اصل پیدا کیسا ہوا ہے۔

ایسی کوئی بھی آیت آئے تو میں رک کر تھوڑا سا سوچنے لگتا ہوں۔

آیت تھی:

اِنَّ  الۡاِنۡسَانَ خُلِقَ ہَلُوۡعًا

حقیقت یہ ہے کہ انسان بہت کم حوصلہ پیدا کیا گیا ہے ‏

میں نے انگریزی ترجمہ دیکھا، تو ”ھلوعا“ کا مطلب اینگوئش لکھا تھا،

اب اینگوئش کا مطلب اردو میں سمجھوں تو یہی لگتا ہے کہ ایسا انسان جس میں بے چینی، تشویش، یا بے صبری سی ہو۔

بہرحال میں نے”کم ہمت“پر ہی اکتفا کر لیا اور اسے بے صبری کے معنوں میں لے لیا۔اگلی آیت کچھ اور بھی معنی خیز تھی:‏

اِذَا مَسَّہُ  الشَّرُّ  جَزُوۡعًا

جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جاتا ہے

”جزوعا“ کا لفظ تو مجھے سمجھ آ گیا، انگریزی میں ترجمہ بھی قریب قریب ہی تھا، امپیشنٹ، مطلب بے چین، یعنی تکلیف پہنچے تو انسان چاہتا ہے بس اب یہ رفع ہو جائے، بس ختم ہو جائے کسی طرح۔

وَّ اِذَا مَسَّہُ  الۡخَیۡرُ  مَنُوۡعًا

اور جب اس کے پاس خوشحالی آتی ہے تو بہت بخیل بن جاتا ہے

”منوعا“ یعنی کنجوس

جب اسے کوئی نعمت ملتی ہے، تو اس کا دل چاہتا ہے بس اس کے پاس ہی رہے وہ نعمت، کسی اور کو نہ مل جائے۔

جو رلا دینے والی آیت تھی، وہ بعد میں آئی:

اِلَّا  الۡمُصَلِّیۡنَ 

مگر وہ نمازی ایسے نہیں ہیں

یعنی نماز پڑھنے والے لوگوں کے علاوہ ‏انسان کی حالت اسی طرح کی ہے۔

انسان کی یہ پیدائشی حالت صرف اس صورت میں بدل سکتی ہے، جب وہ نماز قائم کر لیتا ہے۔

مجھے ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوئی یہ سوچ کرمیں پہلی تین آیات پڑھ کر حیران ہو رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہی بنائے انسان کی کمیاں اور خامیاں گنوا رہا ہے۔ ‏

لیکن  ”الّا المصلّین“ پڑھا تو دل مطمئن سا ہو گیا کہ ان کمیوں اور خامیوں کو پورا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے راستہ رکھا ہوا ہے کہ اگر کوئی نماز پڑھتا ہے تو وہ 

”ھلوعا“

”جزوعا“ 

اور 

”منوعا“ 

کی دلی اور جذباتی حالتوں سے نکل سکتا ہے۔

اور میں سوچنے لگا، یعنی تصور کرنے لگا، کہ انسان سے تشویش، ‏بے چینی، اور کنجوسی نکل جائیں تو کیسی حالت ہوتی ہے انسان کی۔

یعنی نماز کی برکت سے اگر انسان کے دل سے تشویش، بے چینی اور کنجوسی نکل جائیں، اور اس کی پریشانی، گھٹن اور تنگدلی دور ہو جائے، تو انسان میں کیسی وسعت، اور کیسی کشادگی آ جاتی ہے۔ ‏.

انسان کی طبیعت کتنی ہلکی پھلکی ہو جاتی ہے، اور اس کے دل پر بوجھ ڈالنے والی چیزیں کس طرح غائب ہو جاتی ہیں۔

بے شک نماز ایک عظیم نعمت ہے 

کسی بھی کلمہ گو (بھاٸی) سے سیاسی/مسلکی اختلاف کی بُنیاد پر

اُسے بے ایمان نہیں کیہ دینا چاہیٸے❌

*🕋سورہ النساء يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِذَا ضَرَبْتُـمْ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ فَـتَبَيَّنُـوْا  وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓى اِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُوْنَ عَـرَضَ الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا فَعِنْدَ اللّـٰهِ مَغَانِـمُ كَثِيْـرَةٌ ۚ كَذٰلِكَ كُنْتُـمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّـٰهُ عَلَيْكُمْ فَـتَبَيَّنُـوْا ۚ اِنَّ اللّـٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْـرًا (94) 

اے ایمان والو ! جب اللہ کی راہ میں نکلو تو تحقیق کرلیا کرو اور جو تم پر سلام کہے تو اس کو یہ مت کہو کہ تُو مومن نہیں ہے ۔ ۔ ۔ الی آخر الآیہ

کسی سے محبت کو ماپا نہیں جاسکتا کُجا نبی آخرالزمان محمد صلى الله عليه واله وسلم سے ھماری محبت

البتہ اظہارِ محبت کے مختلف عملی مظاہر ہوسکتے ہیں 

جسمیں سب سے بڑا مظہر رسول اللہ کے دین کی سربُلندی کیلٸے اپنی جان قربان کرنا ۔

⭐⭐⭐⭐⭐⭐

کچھ دن قبل یونہی کچھ گوگل سرچ کرتے تھے کہ کسی لنک نے عالمی میڈیا کی کسی بڑی ویب سائٹ پر ہاتھ پکڑ کر پہنچا دیا۔

خاص طور پر فلسطین کے موضوع پر کچھ انوکھی اور ولولہ انگیز خبریں دکھائی پڑیں تو کچھ حیرت سی ہوئی۔

اس کے بعد اس موضوع پر عالمی میڈیا کو کھنگالنا شروع کیا تو یقین مانیے  بیک وقت  انتہائی متضاد کیفیات کا سامنا کرنا پڑا۔

انتہائی خوشگوار بھی اور ساتھ ہی انتہائی افسوس ناک حیرت بھی

جس مغرب کو اور جس مادرپدر آزاد، مستی میں ڈوبے ’’مردہ دل‘‘ مغربی جوان کو ہم برا بھلا کہتے نہیں تھکتے ہیں، وہ جوان اِس وقت غیروں کے لیے جی ہاں اہل فلسطین کے لیے بھرپور انداز میں زندگی کا ثبوت دے رہا ہے، اس کا دل زندہ روح زندہ محسوس ہورہی ہے! وہ اپنے تعلیمی کیرئیر کو داؤ پر لگا کر دن رات مظاہروں، احتجاجوں میں نعرہ زن ہے۔

وہ اپنے ادھ ننگے پہناوے میں ہیں مگر ہاتھ میںفلسطین کا جھنڈا لہرا رہے ہیں۔ ان کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بڑے بڑے احتجاج ہورہے ہیں اور ان کے مقابلے میں مسلم جوان تقریبا سو رہا ہے یا کم ازکم اونگھ تو ضرور رہا ہے۔

ہالینڈ، بنکاک اور اسپین میں، یورپ بھر میں بڑے بڑے احتجاج ہورہے ہیں۔ ان پرپولیس دھاوا بولے ہوئے ہے۔ ۱۳ مئی کو اساتذہ بھی طلبہ کے ساتھ مل کر  غزہ میں قتلِ عام بند کروانے، یونیورسٹی کی اسرائیلی اداروں میں سرمایہ کاری اور ہر طرح کا تعلیمی و تحقیقی تعلق ختم کرنے کے مطالبات کی تائید کے لیے آن ملے مگر پولیس نہایت بے رحمی کے ساتھ ان پر بھی ٹوٹ پڑا

ہم چاہے اپنے آباء کے ماضی کے کارناموں میں ہی گم مست خرام رہیں، مگر اللہ رب العزت کی سنت پر غور کرنے سے صاف پتا چلتا ہے کہ کوئی قوم، زبان، خون و نسبت کے حوالوں سے اللہ رب العزت کی سگی نہیں ہے۔ جو اس کے دین کا نہیں، اسے وہ منظر سے ہٹا دیتے ہیں اور دوسری قوموں کو اپنے دین کی مدد کے لیے کھڑا کردیتے ہیں۔ 

جیسے یہود کو یہ زعم رہا اور اب بھی ہے، ایسا ہی زعم ہم مسلمانوں میں بھی اپنی تمام تر بدعملی کے ساتھ پیدا ہوگیا ہے لیکن اب لگتا یہی ہے کہ پچھلے تین چار سو برسوں سے دنیوی ترقی، علم و عزت کے سارے اسباب تو مشرق سے مغرب منتقل ہوہی گئے ہیں، اب اللہ تعالیٰ کے دین کی سرفرازی بھی اہل مغرب سے لی جائے گی۔

آپ کو شاید یہ بات جذباتیت لگے مگر اک ذرا انٹرنیشنل میڈیا میں، یورپ امریکا میں اس حوالے سے خبریں دیکھ لیں اور مسلم اکثریتی ممالک کے میڈیا کی خبریں دیکھ لیں کہ آبادی ہی نہیں بلکہ دینی نسبت کی وجہ سے جو حرارت اور تحرک ہمارے ہاں ہونا چاہیے تھا وہ کتنا ہے اور ان کے ہاں کتنا

وہاں تو جذبات کا بالعموم یہ حال ہے کہ عزازیلی فوج کی ہزیمت کے چھوٹے چھوٹے واقعات بھی آزادی کے استعارے بن رہے ہیں، تربوز پر یہودی گورنر کا پابندی لگانا اور اس پر پوری دنیا میں اس کا مذاق بننا، بعد ازاں تربوز کی شرٹس اور بیجز بناکر غ۔ازہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا (تصاویر اور خبر پرسوں کی پوسٹ پر ہیں)،

 اسی طرح ہالینڈ میں طلبہ کے ایک احتجاج کے دوران پولیس کے لاٹھی چارج  کرتے ہوئے ایک سرکاری کتے کا اپنے ہی باس پولیس والے کا ہاتھ چبا لینا اور اس کلپ کا وائرل ہوجانا، نیز بلیوں والی وہ تصویر جس میں وہ غ۔ا زہ مزاحمت کاروں کا ساتھ دیتی ان کے دسترخوان پر بیٹھی نظر آرہی ہیں،

اور ایسا بہت کچھ ہے جو راتوں رات وائرل ہورہا ہے

یورپی پارلیمنٹ میں صہیونیت نوازوں پر جملے کسے جارہے ہیں کہ تم قاتل ہو، اسی ہفتے تین یورپی ممالک نے فلسطین کو تسلیم کرلیا ہے جس کی پاداش میں ازرائل نے اپنے سفیر وہاں سے بلا لیے ہیں۔

بہت کچھ ہے جو آنکھیں روشن کررہا ہے اور بہت کچھ ہے جو ہمیں روسیاہ کررہا ہے۔

خدشہ ہے کہ تاریخ کے اس صفحے پر ہمارا تذکرہ بہت برے الفاظ میں ہونے والا ہے!

اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اپنے مقربین کے ساتھ رہنے اور ان کا ساتھ دینے  کی سعادت عطا فرمائے، آمین

⭐⭐⭐⭐⭐

پیارے بھائیو

ہمارے اس مجموعہ کے قیام کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ امت کے بھٹکے اور گمراہ شدہ مسلمانوں کی آخرت کی ہلاکت سے بچانا اور انہیں حقیقی "امتی" بنانا۔ تا کہ کم از کم ہم اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اس حوالے سے سرخرو ہو جائیں کہ ہم گںدے، غلیظ اور بدکار و سیاہ کار گنہگاروں کو سفارش رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طلب گاروں میں شامل کیا جا سکے اللّٰہ تعالیٰ بہت غفور الرحیم ہے اس کا وعدہ قطعاً غلط نہیں ہو سکتا وہ

 اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کہی کوئی بات رد نہیں کرتا اس کی رحمت سے مایوسی تو کفر ہے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت العالمین ہیں ہم گنہگاروں کے لئے ہی تو نبی الرحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں میں روتے تھے وہ ہمیں کیسے مایوس کر سکتے ہیں ۔

🔶🔷🔶🔷🔶

قیامت میں سفارش کا اختیار صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زات اقدس کو ہی حاصل ہو گا حتہ کہ یہ بزرگان دین بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارش کے محتاج ہوں گے۔ 

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارش کا حق صرف امت مسلمہ کے "امتیوں" کو میسر ہو گا۔

میرا آج کا سول اسی پیرائے میں تھا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے "امتی" ہونے کے دعویدار یا طلبگار تو ہیں آیا ہم اس کے "حقدار" بھی ہیں جب سفارش کے حصول کے لئے ہم انفرادی طور پر اپنے نامہ اعمال کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں درخواست گزار ہوں گے تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں اپنا "امتی" تسلیم کریں گے؟؟؟

کیا ہم وہاں یہ کہیں گے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کا سنی امتی ہوں، شیعہ امتی ہوں، وہابی امتی ہوں وغیرہ وغیرہ

جواب میں ہمیں اس فرمان کے تحت رد کر دیا جائے کہ رب العالمین نے جب قرآن مجید میں واضح فرمان جاری کیا کہ اللّٰہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقوں میں نہ پڑنا اور جو فرقہ فرقہ ہوئے وہ ہم میں سے نہیں، تو تم کیسے خود کو میرا "امتی" کہتے ہو؟ میں تم سے بری الزمہ ہوں۔ 

تو سوچیے کہ کیا اس وقت ہماری ہلاکت کے سوا ہمارے پلے کچھ بچے گا؟؟؟؟

🔴🔵🔴🔵🔴🔵🔴

سرکاری سکولوں اور اداروں کی پرائیویٹ سیکٹر میں کرنے کی بجائے آپ اپنی بیوروکریسی کو درست کرلیں اور پروٹوکول کلچر ختم کر دیں پھر آپ کو پرائیویٹ سیکٹر میں کرنے اور آئ ایم ایف سے قرضے لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔۔                      نیک لوگ موجود ہیں لیکن کرپٹ مافیا انہیں کام نہیں کرنے دیتی اپ صرف تین دیانتدار سیشن جج صاحب ڈپٹی کمشنر صاحب اور ڈی پی او صاحب ضلع میں لگا دیں  ساری کرپشن کو ختم کر دیں گے سرکاروں سکولوں کی  اداروں کی پرائیویٹ سیکٹر میں کرنے  سے کام نہیں چلے گا اور نہ ہی پاکستان کو اس کا فائدہ ہوگا یہ صرف اور صرف فائدہ پروٹوکول کلچر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے ھو گا  خدارا کچھ احساس کر لیں کچھ پاکستان کی خیر خواہی کر لیں اس پاک وطن کو اس پاک وطن کے اثاثوں کو  نہ بیچیں یہ اپ کی جائیداد نہیں ہے یہ نسلوں کی امانت ہے امانت میں خیانت کرنے والے منافق ہوتے ہیں منافق نہ بنیں اپ قیام پاکستان کا مقصد پورا کر دیں نفاذ اسلام کر دیں نہ ادارے بیچنے پڑیں گے نہ سکول بیچنے پڑیں گے  پاکستان میں نفاذ اسلام کریں اسلامی سزاؤں پر عمل درآمد ھوگا اور پاکستان کے سارے مسائل حل ھو جائیں گے۔                                 اللھم صل  علی سیدنا و مولانا محمد وعلی ال سیدنا و مولانا محمد وبارک وسلم                                       پروفیسر رفیق احمد لغاری ایڈووکیٹ  اقامت دین فورم علی لا کالج تھلی چوک رحیم یار خان

⭐⭐⭐⭐⭐

یہاں یہ امر نہایت غور طلب اور بہت ہی دلچسپ ہے کہ ہمیں اولیاء کرام کے حوالے سے یہ سمجھایا جاتا ہے کہ ان سے فیض پانے والے کی آخرت کی منزلیں آسان ہوتی ہیں اور روز محشر ان کی پیروی کرنے والوں کو اپنے اپنے "مرشد" کی سفارش اور حمایت ملے گی۔ 

اس پورے سلسلہ کا تعلق حضرت غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ کی زات تک پہنچتا ہے اور انہیں ہی پیران پیر شیخ یا سردار اولیاء کرام تصور کیا جاتا ہے۔

تاریخ پہ نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ پیران پیر شیخ غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ کی پیدائش 470ھ میں ہوئی۔ اس کے بعد اولیاء کرام میں سے ابتدائی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اور لعل شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ 536/539ھ میں پیدا ہوئے اسی تواتر میں دیگر اولیاء کرام اور بزرگان دین کی پیدائش ہوئی اور متعدد بزرگان دین ایک ہی دور میں حیات تھے اور ان کی آپس کی رفاقتیں ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے ایک دوسرے سے سیکھتے اور تربیت حاصل کرتے رہے۔ 

ان میں سے ہر ایک کی انفرادی محنت، لگن، عبادات و ریاضت ان کے درجات کا تعین کرنے یا رب العالمین کی بارگاہ میں مقبول ہوئی۔ 

جس طرح ہر انسان اپنے اعمال کے حوالے سے رب کے حضور پیش ہو گا بلکل اسی طرح بزرگانِ دین کو بھی ان کی محنت، لگن اور دین کی خدمات کی نسبت سے ان کی آخرت کا فیصلہ کیا جائے گا۔ ہم ان کی عبادات و ریاضت کے حصہ دار کیونکر بن سکتے ہیں جب ہماری جھولیاں ہماری انفرادی عبادات اور عمل سے خالی ہوں گی؟

  • 🔶🔷🔶🔷🔶
  • نماز کے اثرات
  • بے چینی، تشویش، اور کنجوسی
  • نماز سے ان صفات سے نجات
  • مذہبی اختلافات
  • محبت کا اظہار
  • فلسطین کی آزادی کی تحریک
  • مسلم امت کی ذمہ داریاں
  • نبی ﷺ کی سفارش
  • اولیاء کرام کی سفارش
  • اعمال کا وزن
  • Benefits of prayer
  • Anxiety, worry, and miserliness
  • Escape from these traits through prayer
  • Religious differences
  • Expressing love
  • The Palestinian liberation movement
  • Responsibilities of the Muslim ummah
  • The intercession of the Prophet ﷺ
  • The intercession of the saints
  • The weight of deeds


⭐⭐⭐⭐⭐


Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url