Visit Our Official Web لارڈ میکالے برصغیر کے تعلیمی نظام کا معمار یا اس کی اصلی علمی وراثت اور ثقافت کا دشمن؟ Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

لارڈ میکالے برصغیر کے تعلیمی نظام کا معمار یا اس کی اصلی علمی وراثت اور ثقافت کا دشمن؟


لارڈ ٹامس بیبنگٹن میکالے ایک برطانوی سیاست دان، مورخ، اور مصنف تھے جنہوں نے 19ویں صدی کے اوائل میں ہندوستان پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ وہ اپنی تقریروں اور مضامین کے لیے مشہور ہیں، جن میں انہوں نے ہندوستانی ثقافت اور معاشرے پر تبصرے کیے۔ انہوں نے ہندوستان کے لیے ایک نیا تعلیمی نظام بھی تجویز کیا جس نے ملک کی تعلیمی تاریخ پر نمایاں اثر ڈالا۔

لارڈ میکالے کی ذاتی زندگی اور مذہبی خیالات

لارڈ میکالے 25 اکتوبر 1800 کو لندن، انگلینڈ میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک ممتاز وکیل اور سیاست دان زیکری میکالے کے بیٹے تھے۔ انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور 1826 میں وکیل کے طور پر پریکٹس شروع کی۔ 1830 میں، وہ پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور 1834 تک اس عہدے پر فائز رہے۔

لارڈ میکالے ایک لبرل سیاست دان تھے اور انہوں نے مختلف سماجی اصلاحات کی حمایت کی۔ وہ ایک سیکولر بھی تھے اور ان کا خیال تھا کہ مذہب کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے۔ انہوں نے عیسائیت کی تبلیغ میں بھی گہری دلچسپی لی اور ہندوستان میں عیسائیت پھیلانے کے لیے کام کیا۔

ہندوستان کے حالات پر لارڈ میکالے کی تقریر

1835 میں، لارڈ میکالے کو ہندوستان میں تعلیم کے بارے میں ایک کمیٹی کا رکن مقرر کیا گیا۔ اس کمیٹی نے ہندوستان کے لیے ایک نیا تعلیمی نظام تجویز کیا جس کا مقصد ہندوستانیوں کو مغربی طرز فکر اور اقدار سے متعارف کرانا تھا۔

2 فروری 1835 میں 'لارڈ میکالے' نے اس کمیٹی کے اعلیٰ اجلاس میں کچھ اس طرح بات کی! 

 میں نے ہندوستان کے سارے طول و عرض میں سفر کیا ہے۔ اور مجھے کوئی بھی شخص یہاں بھکاری یا چور نظر نہیں آیا۔ اس ملک میں میں نے بہت زیادہ دولت دیکھی ہے، لوگوں کی اخلاقی اقدار بلند ترین ہیں اور سمجھ بوجھ اتنی اچھی ہے کہ میرے خیال میں ہم اس وقت تک اس ملک کو کبھی فتح نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم ان کی دینی اور ثقافتی اقدار کے اس ورثہ کو توڑ نہ دیں جو انکی اس ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ ہم ان کا قدیم تعلیمی نظام اور تہذیبی ورثہ تبدیل کریں۔ کیونکہ اگر ہندوستانی لوگ یہ سمجھیں کہ ہر انگریزی اور غیر ملکی شے ان کی اپنی اشیاء سے بہتر ہے تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھو دیں گے ( اور حقیقتاً ایسا ہی ہوا) اور حقیقتاً ویسی ہی مغلوب قوم بن جائیں گے جیسا کہ ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے ذہنی غلام،

لارڈ میکالے نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کے لیے سب سے اچھی چیز یہ ہوگی کہ وہ اپنی روایتی ثقافت کو ترک کر دے اور مغربی ثقافت کو اپنا لے۔ انہوں نے کہا کہ انگریزی زبان "ہندوستان کی تمام مقامی زبانوں سے زیادہ طاقتور ہے" اور یہ کہ "انگریزی تعلیم ہندوستانیوں کو انگریزوں کے ساتھ ہم آہنگ کرے گی اور انہیں ایک قوم بنا دے گی۔"

(ہاں دوستو یہی "لارڈ میکالے" جس نے ہمارا نظام تعلیم تخلیق کیا تھا! اور جس کو ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ کیوں کہ اس تعلیم نظام سے کلرک۔ افسر سیاست دان، شاعر اور اس طرح کی چیزیں تو بن سکتی ہیں۔ جو انگریزی زبان بولنے لکھنے کو فخر سمجھیں اور اپنی زبان اور ثقافت کو حقیر جانے ۔ لیکن اعلیٰ درجے کے سائنس دانوں اور اور اسلام پسند معاشرے اور اپنی ثقافت اور زبان سے پیار کرنے والے افراد حاصل نہیں کر سکتے جو ایک المیہ ہے )

ہندوستان کے لیے تعلیمی نظام کی تشکیل

لارڈ میکالے کی تقریر نے ہندوستان کے لیے نئے تعلیمی نظام کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ اس نظام کا مقصد ہندوستانیوں کو انگریزی زبان، مغربی ادب اور سائنس، اور برطانوی اقدار کی تعلیم دینا تھا۔

اس نظام کے تحت، انگریزی کو ہندوستان کے اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم کی زبان کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ ہندوستانی زبانوں اور ثقافتوں کو تعلیمی نصاب سے بڑی حد تک ہٹا دیا گیا۔ سادہ الفاظ استعمال کروں تو اس طرح برصغیر کی اصل ثقافت کو ختم کر کے برطانوی ثقافت نافذ کر دی گئی تعلم کے نام پر۔ 

تعلیمی نظام کے اثرات

لارڈ میکالے کے تعلیمی نظام نے ہندوستان پر گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کیے۔ اس نے ہندوستانی معاشرے میں ایک نیا طبقہ پیدا کیا جو انگریزی زبان اور ثقافت میں مہارت رکھتا تھا۔ اس طبقے نے برطانوی حکومت میں اہم عہدے سنبھالے اور ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

( اور بعد میں پاکستان پر بھی وہی قابض ہیں اور وہ آج بھی پاکستان کی عام عوام کو کمتر سمجھتے ہیں ۔ )

تاہم، لارڈ میکالے کے تعلیمی نظام کے کچھ منفی اثرات بھی تھے۔ اس نظام نے ہندوستانیوں کو اپنی روایتی ثقافت سے الگ کر دیا اور ان میں برطانوی ثقافت کے لیے ایک احساسِ برتری پیدا کر دیا۔ اس نے ہندوستانی زبانوں اور ثقافتوں کو کم تر سمجھا اور ان کی اہمیت کو کم کر دیا۔

اس نظام نے ہندوستان میں تعلیم کو بھی مہنگا اور اشرافیہ کے لیے قابل رسائی بنا دیا۔ غریب اور دیہی علاقوں کے لوگوں کے لیے انگریزی تعلیم حاصل کرنا مشکل ہو گیا۔

برصغیر کی ثقافت پر اثرات

لارڈ میکالے کے تعلیمی نظام نے برصغیر کی ثقافت پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس نے ہندوستانی معاشرے میں ایک تقسیم پیدا کر دی، جس میں ایک طبقہ انگریزی زبان اور ثقافت سے وابستہ تھا اور دوسرا طبقہ اپنی روایتی ثقافت سے جڑا ہوا تھا۔

اس نظام نے ہندوستانی ادب، موسیقی، اور فنون لطیفہ کو بھی متاثر کیا۔ بہت سے ہندوستانی فنکاروں اور مصنفین نے مغربی اندازوں اور موضوعات کو اپنا لیا۔

تاہم، لارڈ میکالے کے تعلیمی نظام نے ہندوستانی ثقافت پر بہت زیادہ منفی اثرات کیے۔ اس نے ہندوستانیوں کو مغربی علم اور خیالات سے متعارف کرایا اور انہیں جدید دنیا کے ساتھ جوڑنے میں مدد کی۔ ( یہ سوچ برطانیہ کے ذہنی غلاموں کی ہے ورنہ حقیقت کیا اس دور کا ہر وہ باشعور شخص جانتا ہے جو تاریخ کے علم سے کچھ واقفیت رکھتا ہے)  اس نے ہندوستانی معاشرے میں جدیدیت اور ترقی کے لیے ایک تحریک کو بھی جنم دیا۔

لارڈ میکالے کا انتقال اور ورثہ

لارڈ میکالے 20 دسمبر 1859 کو لندن، انگلینڈ میں انتقال کر گئے۔ وہ ایک باصلاحیت اور بااثر سیاست دان، مورخ، اور مصنف تھے۔ انہوں نے ہندوستان کے تعلیمی نظام اور برصغیر کی ثقافت پر گہرا اثر ڈالا۔

لارڈ میکالے کی وراثت آج بھی بحث و مباحثہ کا موضوع ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ہندوستان کے لیے ایک ہیرو تھے جنہوں نے ملک کو جدید بنانے میں مدد کی۔ دوسروں کا خیال ہے کہ وہ ایک امپیریلسٹ تھے جنہوں نے ہندوستانی ثقافت کو نقصان پہنچایا اور تباہ کیا۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ لارڈ مکالے کے تعلیمی نظام کے زیر اثر لوگ ذہنی طور پر انگریز اور انگریزی کے غلام بن گئے اور مقامی اپنی ثقافت کو حقیر سمجھنے لگے اور آج تک یہی حال ہے۔

لارڈ میکالے ایک پیچیدہ اور متنازعہ شخصیت تھے جنہوں نے ہندوستان اور برصغیر کی تاریخ پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کے تعلیمی نظام کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں، اور ان کی وراثت آنے نسلوں کے لیے بحث و مباحثہ کا موضوع بنی رہے گی۔


آج ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے اور کرنا کیا چاہئے؟ 

اور آج اہل دانش اور محب وطن پاکستانی اس بات کے لئے کوشاں ہیں کہ اس لارڈز مکالے کے تعلیمی نظام سے آزادی حاصل کی جائے ۔ کیوں کہ ایک تو یہ تعلیمی نظام آج بھی انگریزی اور انگریز کے ذہنی غلام پیدا کر رہا ہے تو دوسری طرف نوجوان نسل کی تخلیقی صلاحیتوں کو ختم کر رہا ہے۔
یہ نظام ڈگریوں کے علاوہ نوجوانوں کو اور کچھ نہیں دے رہا، 
اور اسی تعلیمی نظام کی بدولت پاکستان میں آج ہر طرف پرائیویٹ سکولوں کی بھرمار ہے اور تعلیم ایک بہت بڑی تجارت بن چکی ہے۔ اور تعلیم کے نام پر ہمیں وہ نسل تیار کر کے دی جارہی ہے جو اپنی دینی اور مقامی ثقافت کو اپنانے میں اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔
انگریزی جو ایک رابطہ کی زبان تو ہو سکتی ہے ۔ جو کسی انگریز سے بات کرنے یا کسی تحقیقاتی کام کے لئے استعمال کیا جاسکے۔ لیکن انگریزی کو مکمل تعلیمی زبان بنا کر ہم اپنی نسل اور آنے والی نسلوں پر خود ظلم کر رہے ہیں،

ہمیں چاہئے کہ ہم مل کر ایک تحریک پیدا کریں 

ہمیں اور اہل دانش کو مل کر ایک تو اُردو کو سرکاری زبان کر درجہ دینے کی سنجیدہ تحریک کی ضرورت ہے ۔اور دوسرا اس لارڈ مکالے کے نظام تعلم کو ختم کر کے اپنا نظام تعلیم اُردو زبان میں بنانے کی ضرورت ہے ۔ اگر آپ ترقی یافتہ قوموں کو دیکھیں تو ان میں سے کوئی بھی انگریزی زبان میں تعلیم نہیں دیتی کیوں کہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی زبان میں بہتر طریقے سے سمجھتا اور سیکھتا ہے ۔

آپ جین ۔جرمنی، جاپان، کوریا، فرانس ملائشیا اور ساری دنیا میں ترقی یافتہ اقوام پر نظر ڈالیں تو کسی بھی ملک میں نصاب تعلیم انگریزی یا کسی دوسری زبان میں نہیں ہے۔ بلکہ ان کی ترقی کا راز ان کی اپنی زبان میں تعلم وتربیت ہے۔

اور لارڈ مکالے یہی چاہتا تھا اور وہ یہ شعور رکھتا تھا کہ جب تک برصغیر کی عوام کے تعلیمی نظام کو انگریزی میں نہ کیا، جائے تب تک ان کو ذہنی طور پر غلامی پر تیار نہیں کیا جا سکتا۔ اور نہ ہی ان کی علمی ترقی کو روکا جا سکتا ہے،  

🔶🔷🔶🔷🔶🔷🔶

  • لارڈ میکالے
  •  ہندوستان کے حالات پر لارڈ میکالے کی تقریر
  •  ہندوستان کے لیے تعلیمی نظام
  • تعلیمی نظام کے اثرات
  • برصغیر کی ثقافت پر اثرات
  • لارڈ میکالے کی ذاتی زندگی
  •  لارڈ میکالے کے مذہبی خیالات

  • Lord Macaulay
  • Macaulay's Minute on Education
  • Education system in India
  • Effects of the education system
  • Effects on South Asian culture
  • Lord Macaulay's personal life
  • Lord Macaulay's religious beliefs

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url