اتحاد امت کے داعیوں کے لئے پہلے چند باتوں کا زہن نشین کرنا بہت ضروری ہے۔
امت کا اتحاد قائم کیوں نہیں رہا اور اب دوبارہ یہ اتحاد فعال کیوں نہیں ہو پا رہا۔
وہ کونسی وجوہات ہیں یہ جاننے کے بعد ہمیں ان کے خاتمے پر توجہ مرکوز کرنی ہو گی۔
اگر امت کے مابین ان اختلافات کو ختم کرنے میں ہم کامیاب ہو جاتے ہیں تو اتحاد کو فعال کرنے کے راستے خودبخود ہموار ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ان شاءاللہ
💫 قرآن مجید
💫سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
💫مقتدر اور معروف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین
💫اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین
💫 احادیث مبارکہ
👆یہ سب دین کے ستون ہیں ان سب پر کامل ایمان و یقین کے بنا کسی "امتی" کا ایمان قطعاً مکمل نہیں ہو سکتا اور کوئی بھی مسلک، فرقہ، گروہ، گروپ ان ستونوں میں سے کسی ایک کو بھی تسلیم نہ کرنے پر بھی نہ اعتراض کر سکتا ہے نہ انکار۔
اب انسانی فطرت کی بنا پر اپنے پیرو کاروں کو ان ستونوں کی بابت تربیت دینے والے اپنے اپنے انداز میں الفاظ کے ہیر پھیر سے خود کو دوسروں سے معتبر یا دوسروں سے جدا اور اپنی اہمیت کو جتانے کے لیے اپنی ضد، اپگئی۔نا، اپنے منصب، اپنے غرور وغیرہ کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے مسلم امہ کو تقسیم کرنے کے مرتکب ہوئے اور امت مسلمہ فرقوں میں بٹتی چلی گئی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد صحابہ کرام آپس میں ایک دوسرے کو اور پھر تابعین کے سوالات یا رہنمائی کے طالب علموں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کی بابت جو جوابات بیان کرتے یا مسلمانوں کی تربیت اور اصلاح فرماتے ہوئے بیان پیش کرتے تو بیان کرنے والے کو "راوی" کا درجہ حاصل ہوا۔ اس مرحلے میں "راوی" حضرات کی باتوں کو حوالہ بنا کر مسلمان آپس میں جو بات چیت کرتے کہ میں فلاں بن فلاں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بات ان الفاظ میں بیان فرمائی تھی وہ کہی ہوئی بات لکھ لی گئیں تو "احادیث مبارکہ" کے سلسلے کا آغاز ہو گیا جو کہ کچھ نسلوں تک منتقل ہوتا رہا اور لکھے ہوئے ذخیرے جمع ہونا شروع ہو گئے۔
راوی صحابیوں رضی اللہ علیہم اجمعین میں سے وی صحابی جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت مبارک میں زیادہ وقت اور قربت نصیب ہوئی جیسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ کے دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بیانات ہر لحاظ سے معتبر اور ناقابل مسترد بیانات تسلیم کیے گئے اور ان سے منسوب ہر حدیث انتہائی مستند مانی گئی اور کوئی بھی مسلک یا مکتبہ فکر اس اس انکار نہیں کرتا۔
ان مستند اور مقتدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد آنے والے تابعین اور تبہ تابعین میں سے بھی کچھ احباب کو بھی یہی اہمیت حاصل ہوئی۔
لیکن کچھ راوی حضرات کی زندگی گزانے کے معاملات اور ان کے دیگر افعال کی روشنی میں ان کی روایت (بیانات) کو کمزور تصور کیا جاتا ہے۔
جب بعد کی پیدا ہونے والی نسلوں کی تربیت اور دین اسلام کا پیغام نئی نسلوں کو منتقل کرتے ہوئے مشکلات پیدا ہونے لگیں تو اعلیٰ تعلیم یافتہ معتبر امام صاحبان نے اس عمل کا آغاز کیا کہ تمام احادیث مبارکہ کو ایک جگہ جمع کر کے زندگی کے تمام روزمرہ کے معاملات کے اور زندگی میں درپیش اصول و ضوابط کے مطابق عنوان ترتیب دے کر امت مسلمہ کی تعلیم و تربیت کے لیے احادیث مبارکہ کے مجموعے مرتب کرنا شروع کیے جن میں امام بخآری رحمۃ اللہ علیہ کی مرتب اور جمع کردہ مجموعے کو زیادہ سبقت ملی اور دیگر امام صاحبان کی محنت کی بنا پر چھ عدد مجموعوں کو اہمیت ملی اور آج بھی امت مسلمہ ان چھ مجموعوں کے مطابق رہنمائی حاصل کرتی رہیں ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زیارت کا شرف حاصل کرنے والے تابعین میں ایک معتبر نام نعمان بن ثابت بن زوطا رضی اللہ تعالیٰ عنہ المعروف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کا ہے جنہیں متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صحبت کا شرف حاصل ہوا اور براہ راست احادیث مبارکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے سماعت فرمائیں۔
آپ کی پیدائش 80ھ میں ہوئی اور آپ کے بعد 93ھ میں امام مالک رحمہ اللہ علیہ کی پیدائش ہوئی۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کی وفات 150ھ میں ہوئی اور یہی سال امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کی پیدائش کا تھا۔ اور 164ھ میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ پیدا ہوئے۔
ان چاروں اماموں کی حیات مبارکہ کے ادوار بالترتیب درج زیل ہیں:
💫امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ 80ھ -150ھ
💫امام مالک رحمہ اللہ علیہ 93ھ-179ھ
💫امام شافعی رحمہ اللہ علیہ 150ھ-204
💫 امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ 164ھ-241ھ
امام مالک رحمہ اللہ علیہ کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ
امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کو امام مالک رحمہ اللہ علیہ
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کی صحبت میسر آئی۔
امت مسلمہ میں یہ چاروں امام صاحبان رحمۃ اللہ علیہ اجمعین خاص مقام و مرتبہ کے حامل ہیں ان کی دین سے رغبت، محبت، لگاؤ اور تعلیم کے حصول کے لئے کوششیں، محنتیں اور تربیت اور آگاہی کی بابت آج بھی مسلم امہ فیضیاب ہو رہی ہے ان کے شاگردوں نے ان سے حاصل ہونے والے علم کی روشنی میں کرہ ارض پر اسلام کا نام روشن و تابناک بنانے میں اپنا نہایت موثر کردار ادا کیا۔
نبی آخر الزمان محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
حجتہ الوداع کے موقع پر اسلام کے مکمل ہونے کا اعلان مبارک فرمایا۔ کم و بیش ایک ہزار سالوں تک دین اسلام پوری دنیا میں پھیل چکا تھا اور مسلمانوں کی عظیم ترین سلطنت دنیا کے طول و عرض میں اسلام کی تعلیمات سے امن و انصاف، خوشحالی اور محبت کے جوہر منوا چکی تھی۔
یہ بات دشمنان اسلام یہود و نصارٰی کے لئے ناقابل برداشت ہو رہی تھی اس دوران بے شمار محازوں پر کفر و اسلام کے متعدد ٹکراؤ بھی ہوئے جس میں کفار کو اکثر شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔
انتقام کی آگ میں جلتے سلگتے کفار نے منظم سازش کی بنیاد رکھی اور تقریبا اٹھارویں صدی عیسوی میں کفار نے مسلم سلطنتوں کے خاتمے کے لئے مسلم ممالک پر قابض ہونے کی باقاعدہ جدوجہد شروع کر دی۔
ابتداء میں برصغیر میں انگریزوں نے دھوکے سے اپنے داخلے کی راہ ہموار کی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے زریعے مسلمانوں کی طاقتور سلطنت چند غداروں کی مدد سے ہتھیا لی۔ اسی تسلسل میں مسلمانوں کی قوت کو کمزور کرنے کے لئے تفریق اور انتشار کے زرائع استعمال کرنے کا آغاز کیا اور دس صدیوں سے قائم امت مسلمہ کے اتحاد میں دراڑیں پیدا کرنے کے لیے اسلام سے مکمل یا مستند آگاہی نہ رکھنے والے کمزور العقیدہ مسلمانوں کو بہکانے اور تفرقہ پیدا کرنے کے لیے آپس کے اختلافات کو بھڑکایا اور فقہ کے نام سے مسلمانوں ہی کے معتبر ائمہ کرام کی تعلیمات کو ہتھیار بناتے ہوئے آپس میں تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ یہی وہ دور تھا جہاں سے فرقہ پرستی کا آغاز ہوا ورنہ اس سے قبل ایک ہزار سال تک پوری امت مسلمہ کا عقیدہ صرف دین محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقلید پر محیط تھا نہ کوئی تفریق نہ کوئی مخالفت نہ لئے کسی قسم کی نفرت، بغض یا کینہ تھا۔ اگر کوئی اختلافی مسائل ہوتے بھی تھے تو وقت کے ائمہ کرام احسن طریقے سے اجتہاد سے انہیں حل فرما لیتے تھے۔ محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم تھی۔ جسے یہود و نصارٰی اور مسلمانوں کی صفوں میں موجود غداروں اور منافقین نے فرقوں کی دلدل میں دھکیل دیا۔
اب یہ فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے کہ کیا جن امام صاحبان رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے نام پر یا ان کی تقلید کے سہارے مسلمانوں میں تقسیم و تفریق پیدا کی گئی وہ پہلے ایک ہزار سالوں میں کیوں نہ ممکن ہوئی ان کی تعلیمات تو شروع سے ہی موجود تھیں لیکن ان سے مسلم امہ میں کوئی اختلاف نہیں تھا تو ایک ہزار سال بعد چند سالوں میں اچانک سب کے الگ الگ امام کیسے بن گئے؟؟؟
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقوں میں نہ پڑنا۔
قرآن مجید کا یہ فرمان ہماری رہنمائی کے لئے کافی نہیں اسے جھٹلا کر ہم لاکھ تاویلیں پیش کریں اور کسی ایک فرقے کے درست ہونے کے دعویدار بنیں کیا روز محشر ہماری نجات ممکن ہو گی؟؟؟
خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ مبارک میں جو ارشاد فرمایا تھا کہ آج میں نے دین مکمل کر دیا ہے۔
دین مکمل تو مسلمانوں کے لئے ہوا ہے لیکن یہاں مسلمان ہیں کہاں ہیں؟
ہم تو سنی ہیں، شیعہ ہیں، وہابی ہیں، دیوبندی ہیں، بریلوی ہیں، اہلحدیث ہیں، اور نہ جانے کتنے ناموں سے ہم نے اپنی اپنی شناخت بنا رکھی ہے۔ نہیں ہیں ہم تو مسلمان نہیں ہیں ہاں کافر ہمیں مسلمان ہی کہتے ہیں (مزے کی بات یہ ہے کہ ان سب نام نہاد مسالک کے بانی بھی یہود و نصارٰی ہی ہیں) اور ہم صرف اپنے سوا ہر دوسرے مسلمان یا مخالف مسلک کو کافر کہنے میں اپنی شہرت رکھتے ہیں۔
ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں کیونکہ ہم مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہم نے اسلام کو اپنے کئے دین منتخب نہیں کیا صرف اپنے آباؤ اجداد کے نقش قدم پر چلتے آ رہے ہیں ہمیں ایک مرتب صدق دل سے توبہ کر کے اللہ تعالیٰ سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے اور دل سے اپنے ایمان کی تجدید کرنی ہو گی۔
یقین کریں اس عمل سے آپ خود کو ایک نو مسلم کی طرح گناہوں سے پاک ہلکا پھلکا محسوس کریں گے جیسے ابھی مادر بطن سے پیدا ہوئے ہوں آپ کی عبادات سے رغبت بھی قائم ہو جائے گی اور آپ کی نماز آپ کو برائیوں سے روکنے والی نماز میں تبدیل ہو جائے گی قرآن مجید کی تلاوت میں روحانیت شامل ہو جائے گی آپ لطف و سرور کی دنیا میں کھو جائیں گے۔
آپ بے راہ روی سے دور اصل اسلامی اقدار اور سراط مستقیم پر چل نکلیں گے۔ أپ کے دل و دماغ اور سوچوں کا رخ بدل جائے گا۔
غسل کیجیے اور مسجد میں بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے دل سے دہرائیں
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اشھد الا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمد عبدہ ورسول ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ جل جلالہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں اور آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری نبی اور رسول ہونے پر ایمان رکھتا ہوں ۔
میں بحیثیت مسلمان اور پاکستانی اللہ جل جلالہ اور حضور نبی کریم خاتم النبین محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک کو حاضر و ناظر جان کر یہ حلف اٹھاتا ہوں کہ قرآن مجید اور شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے اور نظریہ پاکستان یعنی پاکستان کا مطلب کیا لا آ لہ الااللہ کی پاسداری کرتے ہوئے اس ملک پاکستان میں اعلائے کلمتہ الحق اور شریعت محمدی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نفاذ کے لیے ملک پاکستان میں نظام مصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نفاذ اور پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور حقیقی معنوں میں پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے ہر قسم کی قربانی دوں گا۔
سود اللّٰہ تعالیٰ اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ کھلی جنگ ہے اور میں اس جنگ کا حصہ نہیں بن سکتا میں اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں باطل اور سود کے نظام سے بریت کا اعلان کرتا ہوں۔ سودی دخان کے سامنے اپنی بے بسی، لاچارگی، کی بنا پر سود سے لاتعلقی اور بیزاری کا اقرار کرتا ہوں۔ اور اس کے لئے اللّٰہ تعالیٰ سے معافی کا خواستگار ہوں۔
اور کبھی بھی غیر شرعی، ریاست مخالف اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کا حصہ نہیں بنوں گا ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
لا الہ الااللہ محمد الرسول اللہ
یا اللہ! مجھے اسلام کے نفاذ, تحفظ ختم نبوت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پاکستان کی سالمیت و بقاء کی حفاظت کی توفیق عطا فرما ۔ آمین