Visit Our Official Web اکیسویں صدی کی نظریاتی سیاست بدلتے رجحانات کے تناظر میں Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

اکیسویں صدی کی نظریاتی سیاست بدلتے رجحانات کے تناظر میں

  


دوسری قسط

تحریر نوید انور 

چیئرمین پولی کیڈمی پاکستان 

اکیسویں صدی کے دو منفرد عنوانات   

1) اکیسویں صدی عام آدمی کی صدی 

اکیسویں صدی آرٹیفشل انٹیلیجنس، بگ ڈیٹا مینجمنٹ، تیز ترین و پیچیدہ کمیونیکشن ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی تخیل کو نکھارنے ترتیب دینے اور عملا نافذ کرنے کے عمل کو بام عروج پہ پہنچانے، لمحوں (صوتی و صورتی) کو قید کرنے اور دنیاوی مقاصد کے حصول کو فوری ممکن بنانے کی صدی ہے۔  کسی نے خوب کہا کہ کمیونیکشن و ترسیل پیغام و مصنوعی پیشکاری  کی جو سہولت و آسانی  پچھلی صدی کے عرب پتی کو میسر تھی، وہ سب آج کے عام انسان کو کئی گنا زیادہ بہتر انداز سے میسر ہے ۔۔ گویا اس بنیاد پہ اس صدی کو عام فرد کی صدی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

2) اکیسویں صدی فرد کی عالمگیر رسائی کی صدی  

 یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں ہم ایسے بہت سے افراد سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ ہمہ وقت میسر و قریب ہونے کی وجہ سے رہنمائی بھی لیتے رہتے ہیں۔ جن کو ہم کبھی نہیں ملے اور نہ شائد کبھی ملیں لیکن کمیونیکشن ٹیکنالوجی نے انہیں ہمارا رفیق خاص بنا دیا ہے۔ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی طرح سوچنے اور عمل کرنے کے عادی ہوتے چلے جاتے ہیں گویا کہ ایک نئے گلوبل کلچر و مزاج کے حصار میں ہیں اور یہ حصار فرد کی دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیتوں پہ منحصر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج افراد کے دائرہ اثر کو کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ادارے، افراد سے جنگ ہار رہے ہیں۔ انہیں بقا کا معاملہ درپیش ہے۔ کئی محاذوں پہ افراد نے جمے جمائے نظاموں کی چولیں ہلا دی ہیں۔ یہ ایک بالکل نئی دنیا ہے۔ ایک ایسی دنیا جو پچھلی دنیا کی طرح نہیں ہے اور جہاں اقبال کا کہا بھی، کہ فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں، مس فٹ ہوتا محسوس ہورہا ہے۔  اس معاملے میں ترقی یافتہ ممالک و ترقی پزیر ممالک کی کوئی تفریق نہیں رہ گئی ہے۔ سب ایک ہی طرح نظر آنے لگے  ہیں۔  بلند بالا عمارات، ہیوی مشینری، رعب ڈالتے اسٹرکچر ڈھیر ہورہے ہیں۔ ایک پر اعتماد فرد ان سب کو روندتا گزر جاتا ہے۔ یہ سب کیا ہے اور کہاں جا کے رکے گا کہنا مشکل ہے مگر یہ الگ بات بھی سچ ہے کہ یہ سب اثرات مغربی سوچ و فکر سے ہی پھوٹے ہیں   

اکیسویں صدی کے اثرات 

اس ساری تمہید کا مقصد آپ کو ذہنی طور تیزی سے پھیلتی و تخلیق پاتی عام

 و خاص کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز کے انسانی نفسیات مزاج و رجحانات پہ اثرات کو نمایاں کرنا ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ انسان انسان ہی ہے مگر اس کی ذہنی جسمانی نفسیاتی و اخلاقی حالت اس حد تک تو متاثر ہوئی ہے کہ آج کے انسان کو پچھلی صدی کے انسان سے ایک مختلف انسان کہا جاتا ہے۔ 

اکیسویں صدی کا انسان 

یہ مختلف گلوبل نیا انسان ہی آج ہمارا نظریاتی سیاست کے ضمن میں موضوع ہے۔ گو کہ آج کے انسان کو فوری معلومات کی فراوانی حاصل ہے مگر اس کے باوجود ضرورت کی بہتر چوائس کے حصول کے لئے اسے بہت سے جتن بہرحال کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے لئے مناسب وقت، بہتر دماغی حالت اور وژن کا ہونا از حد ضروری ہے۔ ۔ 

انیسویں صدی کا سیاسی انتظام 

ہم بہت پیچھے تو نہیں جائیں گے کہ انسانوں نے صدیوں پہلے کس قسم و شکل کے سیاسی انتظام کئے تھے، سیاسی معاملات کو چلانے کے لئے مگر ہم انیسویں صدی کو ضرور دیکھیں گے تاکہ ہمیں یہ بات سمجھ آ سکے کہ آج کی اکیسویں صدی کے نظریاتی سیاست کے بدلتے رجحانات و تقاضے کیا ہیں ؟

انیسویں صدی کی ٹیکنالوجی تنظیم 

انیسویں صدی معلومات کی صدی کہلاتی ہے۔ اس صدی میں پہلا انڈسٹریل ریولوشن (انقلاب)  آیا تھا۔ اسٹیم انجن، پریس، ٹی وی کیمرہ کی ایجاد نے انسانی زندگی کو بدل دیا تھا۔ یہی دور تھا جب انسان دیہاتوں سے شہروں کا رخ کرنے لگا اور زندگی گزارنے کے انداز میں بدلاو لایا۔ تنظیم، مینجمنٹ ٹیکنالوجی نے جنم لیا اور دھیرے دھیرے یہ انسانوں کو متاثر کرتی چلی گئی ۔ ٹیلر Tailer اور اس جیسے زیرک دماغوں نے اس کی نوک پلک درست کی اور اسے باقاعدہ ڈسپلن آف لرنگ بنا دیا۔ لوگ تنظیم، مینجمنٹ کے ابتدائی نتائج سے متاثر تو ہوئے مگر اس کے کارکردگی بڑھانے اور فوری نتائج کے حصول کی صلاحیت کے، کچھ اس طرح گرویدہ ہوئے کہ تنظیم مینجمنٹ ان کے دل و دماغ پہ چھاتی چلی گئی۔ تنظیم خالص ایجادات کے محاذ پہ بھی کام آئی اور نظریات کی ترویج واشاعت و انسانوں کو کنٹرول کرنے کے محاذ پہ بھی خاصی کامیاب رہی۔ کہ ایک طرف جہاں نئی ایجادات و دریافتیں انسانوں کو متاثر کر رہی تھیں وہیں دوسری طرف نظریاتی محاذ پہ نظریاتی برتری کا احساس نظریاتی کشمکش کو سر اٹھانے پہ مجبور کر رہا تھا۔

انیسویں صدی کی نظریاتی کشمکش 

 دنیا کا نقشہ بدلنے لگا تھا سلطنت عثمانیہ جو 56 ممالک پہ محیط تھی بغاوتوں و سازشوں کا شکار ہوکر اپنے ہی ایک چھوٹے دائرے میں سمٹ چکی تھی۔ اسی اثنا صیہونیت وجود میں آئی۔ فری میسن نے جنم لیا۔ آبادیاتی استعماریت وجود میں آئی جس نے دنیا کو وائٹ سپریمیسی (گورا بہتر ہے) کا شکار کیا۔ جنگ و جدل نظریاتی کشمکش کی اس فضا میں انسانی ترقی و ایجادات نے نمایاں کردار ادا کیا اور جن اقوام عالم نے وقت کی ٹیکنالوجی کو سمجھ کو نظریاتی سیاسی محاذ کو منظم کیا ان کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہا اور وہ بڑی سبک رفتاری سے اپنے دائرہ اثر کو بڑھاتی و پھیلاتی چلی گئیں کہ کوئی ان کے مقابلے میں سر نہ اٹھا سکا۔ دوسری طرف کی بے بسی و سبکی و غلامی جدید ٹیکنالوجی سے لاعلمی و دوری کی وجہ سے تھی۔ 

انیسویں صدی کی تباہ کاریاں 

المختصر انیسویں صدی نے نہ صرف نئی ٹیکنالوجی متعارف کرائی بلکہ اس نے انسان کو جدید انسان بنا کر اس کا ایک مزاج و شعور بھی تخلیق کردیا۔ کہنے والے تو اس کو پچھلی صدیوں کے انسان سے مختلف انسان قرار دیتے ہیں۔ یہی نئی ٹیکنالوجی کا خمار جنون بن کر انیسویں صدی کے انسان کا غرور بن گیا۔ اسی جنون نے تباہی کے وہ وہ اسباب بموں، میزائلوں اور ٹینکوں کی صورت دریافت کروائے ۔ طاقت کے نشے میں چور نئی ٹیکنالوجی کے اسیران نے وہ وہ تماشے دکھائے کہ الامان و الحفیظ۔ دو عالمی جنگیں ہوئی جبکہ دو جاپانی شہروں ہیروشیما و ناگا ساکی پہ انسانیت سوز ظلم ایٹم بم گرانے سے بھی گریز نہ کیا گیا۔ جس نے ان شہروں کو اس طرح تہس نہس کر دیا کہ آج بھی یہاں تابکاری اثرات کے باعث بچے معزور پیدا ہوتےہیں۔ اس فسادی و تضاداتی دور میں نئی ٹیکنالوجی کے فروغ نے انسانی بقا کی جنگ کو  مشکل سے مشکل تر بنا دیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس نئی ٹیکنالوجی سے انسانوں کو آرام ملتا ان کے رویہ میں ٹہراؤ آتا۔ برداشت و ہمدردی پیدا ہوتی  مگر ہوا اس سے بالکل برعکس ۔ 

انیسویں صدی دو قطبی دنیا 

انسان ہیجانی کیفیات کا شکار ہوگیا۔ نظریاتی کشمکش عروج پکڑ گئی۔ دنیا ایک عالمی قوت سے دو عالمی قوتوں (روس و امریکہ) کے کیمپوں میں بٹ گئی۔ ایشیا سرخ و سبز کے جھگڑوں میں پھنس گیا اور ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو، کی مصداق بقا کے لئے بقا کی جنگ ہی زندگی کی علامت قرار پائی۔ 

انیسویں صدی کے عالمی قوانین 

یہ تھی وہ صورت حال جس  نے انیسویں صدی کو ایک منفرد انداز و مقام عطا کیا۔  اسی سے نئے عالمی قوانین جنگ و صلح مرتب ہوئے۔ نئے عالمی اداروں کی نئی ترتیب تشکیل ہوئی۔ لیگ آف نیشن کی جگہ یونائٹڈ نیشن قائم ہوئی قومی ریاستوں کو قانونی وجود بخشا گیا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے فارمولے کو نام نہاد اصولوں کی آڑ میں رواج دیا گیا۔ نئے  سیاسی و سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں نیا معاہدہ عمرانی طے کیا گیا ۔ انسانی حقوق کا پرچار کیا گیا۔ قومی حکومتوں کے لئے قوانین اصول و ضوابط وضع کئے گئے۔ عالمی تنازعات کے حل کی راہیں سجھائی گئیں۔ وغیرہ وغیرہ 

انیسویں صدی کے سیاسی اثرات 

انیسویں صدی کو اس گہرائی سے سمجھ لینے کے بعد اب ہم زرا جائزہ لیتے ہیں کہ نظریاتی سیاسی محاذ پہ کیا کچھ ہوا اور کیسے ہوا ؟  

انڈسٹریل انقلاب نے شہری زندگی کو رواج دیا۔ لوگ دیہاتوں سے شہروں کی طرف شفٹ ہوئے۔ شہری ابادی کو مینج کرنے اور عوام کو سیاسی معاملات میں شریک کرنے کے لئے بادشاہت کی بجائے عوام کی حکومت،عوام کے زریعے عوام کے لئے کے اصول پہ جمہوری حکومتیں بنائی گئیں۔ یہ جمہوری نظام یورپ نے یونان و روم کے ادوار سے مستعار لیا تھا۔ کیونکہ یورپین اسی نظام سے متاثر تھے اور دنیا پہ انہی کا سکہ چلتا تھا۔ یہی اصول جہانبانی قرار پایا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد تو قومی ریاستوں کی تشکیل سے اس سیاسی نظام کو عالمی حیثیت حاصل ہوگئی۔ جدیدیت کا دوسرا نام جمہوری حکومت قرار پایا۔ ان نئی جمہوری حکومتوں کے لئے سیاسی جماعتوں کو مینڈیٹ دینا ضروری تھا لہذہ الیکشن کے ذریعے جمہوری حکومت بنانے کے لئے سیاسی جماعتوں کو عالمی مینڈیٹ دیا گیا۔ ان سیاسی جماعتوں نے دو قطبہ دنیا کے جلو میں آنکھ کھولی۔ یہی وجہ ہے کہ ان جماعتوں کے مزاج الزام تراشی و بے جا تنقیدی بنتے چلے گئے۔ حکومت کے حصول کے لئے زبانی جمع خرچ و بے جا تنقیدی مزاج نے حکومت سازی کے عمل کو تو استوار کیا مگر تعمیری اقدام سے صرف نظر ہوجانے کے باعث ترقی پزیر ملکوں میں بالخصوص نو آبادیاتی استعماریت کی باقیات یعنی فوج۔ مقننہ و انتظامیہ اسٹیبلشمنٹ حاوی و مضبوط ہوتی چلی گئی۔ اس اسٹبلشمنٹ نے چونکہ نو آبادیاتی استعماریت کے دور میں عالمی طاقتوں کے جلو میں پرورش پائی تھی اور سیاسی و انتظامی معاملات پہ ان کیگرپ مضبوط تھی لہذہ انہوں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو غیر ضروری کاموں میں الجھا کر حکومتوں پہ قبضہ کر لیا۔ (یاد رہے کہ ترقی پزیر ممالک میں بھی خاص طور پاکستان اس رجحان کا شدید شکار ہوا)۔

پاکستان کا قیام اور نظریہ 

یوں تو پاکستان کا قیام نو آبادیاتی استعماریت کے دور کے اختتام پہ ہی ہوا مگر اللہ کے کرم سے پاکستان کو ایک خاص اعزاز بھی عطا ہوا اور وہ اعزاز پاکستان کا قومی ریاستوں کے جھرمٹ میں پہلی نظریاتی اسلامی ریاست بننا ہے۔ نظریہ سوچ وفکر و مخصوص طرز عمل کی علامت ہے۔ نظریہ زندگی بھی ہے اور زندگی کا حوالہ بھی۔ نظریہ کی خوبی یہ ہے کہ یہ تعلیم و تربیت سے فروغ پاتا ہے۔ جہالت و لاپرواہی سے مرجھا جاتا ہے گویا نظریہ مستقل توجہ کا متقاضی رہتا ہے۔ اس کے لئے ہمہ وقت چوکس و چوبند و تیار رہنا پڑتا ہے۔ نظریاتی ریاستوں کو زندہ رہنے کے لئے دوہری جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔  پاکستان کا نظریاتی وجود بھی اسی اصول پہ قائم ہے۔ 

پاکستان کا قیام جس سیاسی جماعت کے ہاتھوں ممکن ہوا۔ اس سیاسی جماعت نے قیام کی جدوجہد تو کی مگر نظریاتی ریاست کے قیام کو دوام دینے کے لئے جس نظریاتی تربیت و افراد کار کہ ضرورت تھی اس پہلو کو نظر انداز کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان اپنے ابتدائی دور سے ہی مسائل و بے جوڑ وسائل کی تقسیم کا شکار ہو گیا۔ سیاسی قیادت سیاسی تو شائد تھی مگر نظریاتی نہ ہونے کے باعث اسی لئے ملک بنانے کی مہم میں ملک چلانے سے متعلق اہم فیصلوں سے صرف نظر کر گئی اور چند سالوں میں ہی ملک دولخت ہو گیا۔ 

نظریاتی سیاست اور سید مودودیؒ کا کردار 

پاکستان کے نظریاتی افق پہ سید مودودی رح کا نمودار ہونا اور ایک خالص نظریاتی اسلامی سیاسی جماعت کا قیام ایک نعمت سے کم نہیں۔ مولانا مودودی جنہیں جدید دور کا اسلامی سیاسی فلاسفر بھی کہا جاتا ہے، انہوں نے دور جدید اور انیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے تنظیم، انیسویں صدی کی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی جماعت بنائی اور نظریہ کو فروغ دینے کے لئے۔

 کال (بلاؤ) یونائٹ (منظم کرو)اور ٹرین (تربیت دو) کی بنیاد پہ ایک نئے سیاسی کلچر کی بنیاد رکھی گئی جو انیسویں صدی کی جدید ذہنیت کا بہترین عکاس اور وقت کا ہم آہنگ کلچر ثابت ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سیاسی جماعت نے اپنے شروع کے دور میں ہی ایک دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ تربیت یافتہ سیاسی کارکن خدمت و محبت کے جذبے سے سرشار عوام خدمت و سیاست کے مختلف دائروں (مزدور طلبہ) میں چھاتے چلے گئے۔ 

یاد رہے کہ یہ وہی دور ہے جہاں عالمی قوتیں ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں اور قومی ریاستوں کے وسائل کو کنٹرول کرنے کے نئے نو آبادیاتی دور میں داخل ہوگئی ہیں۔ یہاں ریاستوں کو غلام بنانے کی عالمی سازشیں، اسٹبلشمنٹ کی من مانیاں اور نظریاتی عدم توجہی عروج پہ ہے۔ پاکستان کی واحد نظریاتی محافظ ہونے کی دعوی دار جماعت اسلامی اپنی سیاسی قیادت و ٹیم تیار کرنے اور عوام میں قابل قبول بنانے کی جدوجہد میں جت گئی۔ یاد رہے ایک ملک جس کی ستر فیصد ابادی گاؤں میں رہتی تھی اور جہاں کا لٹریسی ریٹ انتہائی کم تھا وہاں سید مودودی کی نظریاتی سیاسی افراد کی تیاری اور ان کا تسلسل شرکت آسان نہیں تھا۔ اس اہم اور مشکل کام میں کافی وقت لگنا ایک فطری امر تھا۔ اس میں شک نہیں کہ افراد کی تیاری کے میدان میں نمایاں پیش رفت تو ہوئی مگر ان افراد کو عوام کا پسندیدہ بنانے میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہوسکی۔جس کے باعث جماعت میں عوامی دلچسپی انحطاط کا شکار ہو گئی اور جماعت عوامی پزیرائی سے محروم رہ گئی۔ یہ عمل اتنا طویل و صبر آزما ہو گیا کہ جماعت نے اپنے تنظیمی اسٹرکچر میں پناہ لینے کو ہی غنیمت جانتے ہوئے تنظیم کو ہدف بن لیا۔ تنظیم ذریعہ سے مقصد کب بنی ؟ پتا ہی نہیں چلا۔ آنکھ جب کھلی تو فضا بدل چکی تھی۔ 

انیسویں صدی کی دریافتیں دھیرے دھیرے دم توڑ چکی تھیں اور ان کی جگہ نئے ہتھیار میدان میں تھے۔ نئی کمیونیکشن ٹیکنالوجی جس کا ذکر آغاز میں کیا گیا تھا وہ برسر میدان تھی۔ بھاری اسٹرکچر کی جگہ فرد نے لے لی تھی۔ تنظیم اپنی انیسویں صدی کی افادیت کھو کر اکیسویں صدی کے نئے رجحانات سے ہم آہنگ ہو چلی تھی۔ جماعت کی تنظیم وہیں رک گئی تھی جہاں سے چلی تھی ۔ اس کا کام افراد تلاشنا، تراشنا اور چھوڑ دینا، بن کر رہ گیا تھا 

سوشل میڈیا کا کردار 

سوشل میڈیائی شور میں کارکن سیاسی ناکامی پہ دباؤ کا شکار تھا۔ اور تنظیم چلانے والوں کا، مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، کے مصداق برا حال تھا۔ ہمارا کام دعوت دینا ہے ۔ ہم مکلف نہیں ہیں۔ سیاست ایک شعبہ ہے۔ اصل بات تو تحریک کی ہے۔ تعلیم پھیلے گی تو سب بہتر ہو جائے گا۔ شعور کو عام کرنا چاہئے وغیرہ جیسے عنوانات مباحث کی جان بنتے چلے گئے۔ اور غیر محسوس انداز سے یہ طے پاگیا کہ ہمیں اپنا کام کرنا چاہئے نتیجہ ہمارا کام نہیں۔۔۔ لیکن کب تک ؟ 

الیکشن 2013 کے اثرات 

کب تک انسان نتایج کو نظر انداز کر کے چل سکتے ہیں ۔ ایسا تو کسی انسانی معاشرے میں نہیں ہوا اور نہ ہوسکتا ہے انسانوں کو اہداف کے حصول سے جو خوشی ملتی ہے یہی اس کی انسانیت کا دوام بنتی ہے۔ یہی خوشی اسے بال و پر پرواز دیتی ہے۔  یہی انسان کو معراج سے سفر سے آشنا کرتی ہے۔ بہرحال 2013 کے الیکشن کے نتائج بعد ایک موقع پہ میں نے کہا تھا کہ اس الیکشن نے جماعت کو بدل کے رکھ دیا ہے۔ مجھے کہا گیا کہ ایسی بات نہیں ہے جماعت جماعت ہی ہے۔ لیکن یہ بات ثابت ہوئی کہ وہی ہوا کہ جماعت اسلامی نے اس الیکشن کے نتائج سے متاثر ہوکر اپنے امیر کو بدل دیا اور نئے امیر کو کامیابی کی توقع پہ مینڈیٹ دے دیا۔ سیاسی طور پہ ایک متحرک  اور نوجوانوں میں پاپولر امیر نے نئے انداز سے کام کو چلانے کا عزم کیا مگر یہ کیا سیاسی تجربہ کار امیر بھی سیاسی میدان میں مطلوبہ کامیابی نہ دلا سکے۔ اور جماعت نے الیکشن 24 کے نتیجہ میں انہیں بھی بدل دیا۔ نیا امیر نئی امیدوں کے ساتھ حلف اٹھا چکا ہے 

اللہ کرے اس سے وابستہ امیدیں وا ہوں

آمین ۔

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url