اکیسویں صدی نظریاتی سیاست بدلتے رجحانات کے تناظر میں (دوسری قسط)
نوید انور
چیئرمین پولی کیڈمی پاکستان
یاد رہے ٹیکنالوجی جتنی بھی ایڈوانس ہو جائے اس کا کردار مددگار و سہولت کار کا ہی رہے گا۔ اس سے مرعوب ہونے کی بجائے اس کا درست استعمال انسان کو سیکھنا چاہیے۔ یہاں چونکہ ہم نظریاتی سیاست کے تناظر میں بدلتے رجحانات کا احاطہ کررہے ہیں لہذہ یہاں ہماری ساری گفتگو جدید ایجادات کے حوالے سے نظریاتی سیاست کے دائرے میں رہے گی۔
اکیسویں صدی کا ماخذ
اکیسویں صدی پوسٹ ماڈرن دور، فورتھ انڈسٹریل دور، ڈیجیٹلائشیشن دور اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس دور کی علامت سمجھی جاتی ہے ۔۔ اس دور کی خاص دو باتیں ہیں
1) فرد کی اہمیت اور
2) فرد کی گلوبل دسترس
باقی باتیں ثانوی یا کم اہمیت کی حامل ہیں۔
اکیسویں صدی میں نظریاتی سیاست
اس صدی نے نظریاتی سیاست کو فنا end of ideologues کا عنوان دے دیا تھا۔ اس کی بڑی وجہ انیسویں صدی کی نظریاتی کشمکش سے جان چھڑانا اور کچھ نیا پیش کرنا تھا کیونکہ کمیونزم فاشزم اپنی اہمیت کھو گئے تھے اور فنا کے گھاٹ اتر گئے تھے۔ اس دور کو ختم کر کے نئے دور کا آغاز ہی دراصل اکیسویں صدی کا مزاج قرار پایا۔ دو قطبی دنیا کا خاتمہ یک قطبی دنیا کی تشکیل کا باعث بنا تو پرانے دور کی اہم علامتیں یعنی طلبہ مزار یونین ختم کی گئیں ان کی جگہ نیا کلچر و نظام متعارف کرایا گیا۔ نیا نظام نئی سوچ کا غماز تھا اس میں سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دیا گیا اور اس کہ جگہ سماجیت عفریت کو گھر گھر پہنچایا گیا۔ اس کلچر نے جتنا نقصان پہنچایا اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ یہی کہیں کہ ایک نسل تباہ ہوگئی غلاماں ابن غلاماں کی ایک کھیپ دنیا میں تیار ہوگئی جو نہ سوچ رکھتے نہ کار جہانبانی سے کوئی شغف ہی رکھتے۔ ان افراد کے خود کو تو زلیل کیا ہی اپنی نسلوں کو بھی رسوائی کا عنوان بنا دیا تیسری دنیا کے مسلم ممالک اس میں صف اول کے شریک جرم رہے۔ سیاسی عزم سیاسی فیصلوں کو بیرونی عالمی آقاؤں کے زیر اثر بھلا دیا گیا۔ سماجیت کی آڑ میں تعلیم خدمت خلق انسانی حقوق کو خوشنما بناکر پیش کیا گیا اور اچھے خاصے پڑھے لکھے نوجوان مینیجروں کی ایک ایسی فوج ظفر موج میدان میں اتاری گئی جو کمال ڈھٹائی سے دشمن کی ہاں میں ہاں ملاتی چلی گئی۔ ان آقاؤں کے اک اشارے پہ جان و تن پیش کرنے کو تیار کر فی گئی۔ جنہوں کار جہانبانی کرنی تھی وہ بھیک کا کشکول پکڑے در در بھٹکنے پہ مجبور کر دئیے گئے۔
پہلا انڈسٹریل انقلاب
جب پہلا انڈسٹریل انقلاب آیا تو اس وقت دنیا کی بڑی ابادی غیر تعلیم یافتہ تھی اس کو نئے جدید آلات ٹیکنالوجی اور تدریس سے آشنا کرنے کے لئے تنظیم یعنی مینجمنٹ کی ضرورت تھی تاکہ افراد کی تیاری کا عمل تیز ہو اور ایک ایسی عالمی ورکنگ کلاس میسر ہو سکے جو اس نئے دور کے تقاضوں اور جدید الات چلانے کے قابل ہو۔ اس وقت تنظیم سے اچھا کوئی ذریعہ نہ تھا لہذہ تنظیم کو خوب استعمال کیا گیا۔ اسکول سے لے کر بزنس و سیاست سے جنگ و باہمی تعاون ہر جگہ تنظیم نے لوگوں کو خوب ایجوکیٹ کیا کہ تنظیم نئی عالمی دانش کے ساتھ لازم و ملزوم ہوگئی۔ اور یہ رشتہ کچھ یوں جڑا کہ دنیا ایک حد تک تنظیمی رومانس کا شکار ہوگئی۔ مینجمنٹ کورسز کی دنیا میں بھرمار اتنی تیز و اچانک تھی کہ اس نے بدلتے رجحانات کو سمجھنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ آنکھ یہاں بھی دیر سے کھلی اور جب دیکھا تو دنیا نئی ایجادات و کمیونیکشن ٹیکنالوجیز سے زیر بار ہوچکی تھی۔ انسانی نفسیات مزاج تبدیل ہونا شروع ہوگیا تھا۔ تعلیمی ادارے تربیت گاہیں ڈیجیٹل ہونا شروع ہو گئیں تھیں۔ ورچوئل دنیا حقیقی دنیا کا گیپ ختم ہورہا تھا جس سے ورچوئل دنیا حقیقی دنیا کا روپ دھارن کر تی جارہی تھی۔
دنیا ٹیلی فون سے موبائل اور موبائل سے سمارٹ فونز میں تبدیل ہوتے ہوئے آرٹیفشل انٹیلیجنس کے حیرت کدہ میں داخل ہو گئی تھی۔ دنیا گلوبل ویلج سے موبائل میں تبدیل ہوکر جیب میں سمٹ آئی تھی۔
اکیسویں صدی کا لٹریچر
یہاں بھی ایک بات قابل ذکر ہے کہ اس نئے دور کے انسان کو اس نئے بدلتے رجحانات کو سمجھنے میں کافی دیر لگی کیونکہ سارا لٹریچر انیسویں صدی کی تناظر میں لکھا گیا تھا اور وہ پرانا ہوتا جارہا تھا۔ نیا لٹریچر ایجادات کی بھرمار اور کمیونیکشن کی ان چاہی مصروفیات میں خال خال ہی سامنے میسر تھا اور جو کچھ بھی میسر تھا وہ بھی ٹیکسٹ کتابوں میں تو بالکل ہی نہ تھا۔ یہی وجہ ٹیکسٹ کتابیں کچھ اور بتاتی رہیں جبکہ حقیقت کچھ اور تھی۔ اس دوری کو پاٹ کرنے کے لئے گلوبل ڈیجیٹل دانش گاہیں (سرچ انجنز) وکی پیڈیا، گوگل،وغیرہ کے نام سے سامنے آئیں تو تعلیم و تربیت کا میدان یکسر ہی بدل گیا۔ اب بروقت معلومات کے لئے کسی باقاعدہ درس گاہ و استاد یا کتاب کی ضرورت نہیں رہی بس گوگل پہ عنوان لکھیں اورضرورت سے کہیں زیادہ تفصیلی معلومات کو فوری حاصل کر لیں۔
اب یہ گوگل ہی کیا کم، حیرت ناک انقلابی ایجاد تھی کہ فیس بک، یو ٹیوب، ٹیوٹر وغیرہ سوشل میڈیائی فورس بن کے سامنے آ دھمکے۔ اب تو سارا کچھ بدل گیا۔ چیٹ جی پی ٹی نے تو انسان کو انیسویں صدی کی تجزیاتی محنت کرنے سے بھی فارغ کردیا اسکول کالج و یونیورسٹی کو جس معیار کے ریسرچ آرٹیکل و تحقیق درکار تھی وہ تو چیٹ جی پی ٹی نے چٹکی بجاتے مکمل کرنا شروع کردی۔ وہ آرٹیکل جو پہلے مکمل ہونے میں دس سے پندرہ دن کی جانفشانی ہوتی تھی اور ریسرچر بچارہ تھک کر چور ہو جاتا تھا اب اتنا آسان ہوگیا کہ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔
کام آسان ہوا تو ؟
انسان کا کام کم ہوتے ہوتے ختم ہوگیا جب انسان فارغ ہوگیا تو اس نے وقت ضائع کرنا شروع کردیا اب اگر اس بات کا اندازہ لگایا جائے کہ کتنا وقت ہم اسکرین پہ گزارتے ہیں اور کتنا وقت ضائع ہورہا ہے تو ہم حیران رہ جائیں گے کہ کیا کچھ مزید کیا جاسکتا تھا یا کیا جانا چاہئے تھا ؟ اور نہیں کیا جارہا ہے ؟ نظریاتی افراد کے لئے یہ میدان کھلا ہے کہ وہ اس میدان کو سر کے جائیں۔
آج کے انسان کا المیہ
اس دریافت کا یہ اثر ہونا چاہئے تھا کہ اب انسانی دماغ اگلے مرحلوں کے احاطے پہ متوجہ ہو جائے تاکہ علم و عمل کا ایک بہتر امتزاج سامنے آسکے۔ یہاں ایک بار پھر نظریاتی فرد کو میدان میں آنا ہوگا تاکہ نئے کام و اہداف سامنے آسکیں اور انسانی معاشرہ نمو پاسکیں۔ تعلیم کے لیے گھنٹوں سفر کر کے جانے کی ضرورت نہیں وقت بچ گیا مگر گھنٹوں وقت برباد ہونا ساتھ ساتھ شروع ہوگیا۔ گویا انسان اب بھی بہت کچھ کرنے کا وقت پاتا ہے گرچہ اسے پتہ ہو کہ کیا کرنا ہے؟ ۔ تو گویا آج کے دور کا المیہ یہ بھی ہے کہ آج کے انسان کو یہ نہیں پتا کہ وہ کیا کرے ؟ خاص طور اپنے ذاتی و مادی مفاد کے دائرے کے باہر۔
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کہ شب تاریک سحر کر نہ سکا
اکیسویں صدی کی خصوصیت
اکیسویں صدی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے انیسویں صدی کی ہر ایجاد کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔آرٹیفیشل انٹیلیجنس، بگ ڈیٹا، بلوک چین، وغیرہ اس کی علامتیں ہیں۔ ان ایجادات نے بہت سے پرانے کام جن کی انیسویں صدی میں عادت ہوگئی تھی اور ان کو ایک خاص مقام حاصل تھا، کو ختم کروا دئے ہیں۔ مگر اب بھی ہم انہیں پرانی عادتوں کے اسیر بنے ہوئے ہیں اور انہیں چھوڑنے کو تیار نہیں۔
جیسے تحریر لکھنے کے لئے پہلے قلم سے لکھا جاتا تھا اور کسی کمپوزر کی خدمات لی جاتی تھیں کہ وہ انہیں ٹائپ کردے۔ وہ اپنے کام مکمل کر کے ٹائپنگ کرتا تھا آپ اسے دیکھتے اور پروف کر کے واپس بھجواتے تھے اور یوں تین چار دفعہ اس عمل سے گزرنے کے بعد تحریر کمپوز ہوتی تھی مگر اب ساتھ ساتھ پروف ہوتا رہتا ہے اور ساتھ ساتھ ڈیزائنگ بھی چلتی رہتی ہے۔یہ ہے اکیسویں صدی کی تیزرفتار ترکیب۔
اکیسویں صدی کا تنظیمی ٹیکنالوجی پہ اثر
اکیسویں صدی نے تنظیم ٹیکنالوجی کو ہمہ جہتی پھیلاؤ و دوام دیا ہے۔ پہلے انڈسٹریل ریوولیشن کی دریافت تنظیم چند پہلووں کا ہی احاطہ کرتی تھی جبکہ اکیسویں صدی کی تنظیم بہت فعال مستعد و جدید ساز و سامان سے لیس تنظیم ہے یہ نہ صرف ریکارڈ رکھتی ہے بلکہ میسر ڈیٹا کا تجزیہ کر کے ان مختلف پہلووں کو بھی وا کرتی ہے جن کا ایک اوسط درجے کے دماغ میں آنا، ناممکن ہو۔ اسی طرح یہ مستقبل کی پیشین گوئی کو بھی کسی حد سائنٹفک بنانے کا باعث بنتی ہے ۔ پرانی تنظیم زیادہ تر کام انسان سے کراتی تھی جبکہ یہ نئی جدید تنظیم انسان کو بغیر بھی بہت سے کام کر کے دیتی ہے۔ کاکردگی کو جانچنے اور بہتر سے بہتر کرنے کے بے شمار آپشن بھی پیش کرتی ہے۔ گویا انسان شرکت کم کر کے یہ کام آسان کر دیتی ہے۔ اب جبکہ تنظیم آسان ہوگئی ہے تو اس نئی جدید تنظیم کو چلانے والے انسانی دماغوں کو کچھ اور پہلوؤں کو ہدف کر لینا چاہئے تاکہ یہ تنظیم اگلے محاز پہ گامزن ہوسکے۔ اگلا محاذ نظریاتی افراد کے لئے خاص طور دلچسپی کا باعث ہو سکتا ہے۔
کمیونیکشن کی آسانی
یہ بات درست ہے کہ آج بات پہنچانا بہت آسان و سہل ہوگیا ہے مگر بات کو بہتر اور سامعین کے لئے خوش گوار و قابل قبول بنانا تو افراد کا ہی کام ہے۔ پیغام جتنا مختصر واضع مجموعی مزاج سے مطابقت رکھنے والا ہوگا اتنا ہی اس کا اثر دیرپا و مفید ہوگا۔ اس کے لئے خاص محنت و صلاحیت کی ضرورت ہے۔یہ صلاحیت حاصل کی جاسکتی ہے شرط یہ کہ اس کے لیے درست انداز سے تیاری کی جائے۔
اکیسویں صدی انیسویں صدی کا تسلسل
اکیسویں صدی دراصل انیسویں صدی کا ہی ایک ایسا تسلسل ہے کہ جس پہ بہت سا سیاسی نظریاتی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ میدان تقریبا خالی پڑا ہے ۔ آج نظریہ ہنوز سراپا سوال ہے کہ نظریہ ختم نہیں ہوا بلکہ نظریاتی کشمکش موجود ہے۔ کشمکش نے حلیہ و انداز تو ضرور بدلا ہے پر میدان نہیں چھوڑا ہے۔ آج کی انسانیت کو نظریاتی دماغوں کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ نظریاتی دماغ ذات و مفاد سے بالاتر ہونے کا مزاج رکھتے ہیں۔ یہی افراد انسان کو تیز رفتار ترقی کے جنونی قاتل سے بچا سکتے ہیں۔ بس ایک بات کا دھیان رہے کہ بہت سے کام آج کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں چھوڑ دینے کی ہمت پیدا کریں اور جو لازم کام ہیں ان پہ فوکس کریں۔
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
☆☆☆☆☆