Visit Our Official Web پاکستان کی نظریاتی سیاست کا اک پہلو تاریخ کے جھروکوں سے Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

پاکستان کی نظریاتی سیاست کا اک پہلو تاریخ کے جھروکوں سے


 یاد رہے پاکستان کی سیاسی تاریخ نظریاتی سیاسی جماعتوں کی سوچ، فکر و عمل سے عبارت ہے ۔۔ جماعت اسلامی پاکستان کی نظریاتی سیاسی پشت بان جماعت ہے جس نے نہ صرف پاکستان میں نظریاتی سیاست کو عملا ایک زندہ وجود بخشا ہے بلکہ اپنے نظریاتی وجود کو ملکی جغرافیائی وجود کے ساتھ لازم و ملزوم بنائے رکھنے کی بھاری قیمت بھی ادا کی ہے  ۔۔ 

جب ہم نظریاتی سیاست کی بات کرتے ہیں تو پھر ہر وہ ظاہری پیمانہ جو کامیابی کو ناپتا ہے، فیل ہوتا یا ان فٹ محسوس ہوتا ہے ۔۔  

ایسا کیا ہے نظریاتی سیاست میں ؟ 

پہلی بات تو یہ کہ نظریاتی سیاست پاپولسٹ سیاست سے مختلف ہوتی ہے۔  پاپولسٹ سیاست وقتی عوامی پسندیدگی و سستی شہرت کو بنیاد بنا کر کی جاتی ہے جبکہ نظریاتی سیاست نظریہ کے فروغ و دیرپا اثرات کو مد نظر رکھ کر کی جاتی ہے  ۔۔ دیرپا اثرات کی سیاست ایک پتے ماری کا کام ہے اس کے لئے مضبوط اعصاب و کردار کی ضرورت ہوتی ہے۔۔  جس کی منصوبہ بندی و مطلوب افراد کار کی دستیابی و تیاری آسان نہیں مختصرا  نظریاتی سیاست جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔۔

 جبکہ پاپولسٹ سیاست آسٹیج پرفامنس کی طرز پہ کام کرتی ہے کہ ایک چبتا جملہ بھڑکتا فقرہ عوامی داد و تالیوں کی گونج کما لیتا ہے اب چاہے اس کا کچھ بھی فائدہ ہو یا نہ ہو۔ پاپولسٹ سیاستدان عام طور پہ یک رخے پن کا شکار ہوتے ہیں ان کی ساری توانائی عوام سے داد وصول کرنے میں صرف ہوتی ہے عوامی مقبولیت کا خمار ان کو مزید کچھ عملا کرنے سے دور ہی رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ پاپولسٹ سیاستدان کبھی بھی کچھ بہتر کرنے سے قاصر ہی رہتے ہیں ۔ 

بھٹو ۔۔ نواز ۔۔ عمران 

اس کی زندگی مثال ہیں ۔۔

جماعت اسلامی، پاکستان کی ایک فعال نظریاتی جماعت ہے جس کو پاپولسٹ سیاست کے مقابل بہت سے چیلنجز ہیں جن میں سے ایک مقبولیت، عوامی مزاج کی سمجھ اور پھر اس مزاج کو نظریاتی اہنگ میں پرونا وغیرہ۔  جماعت نے نظریاتی تشخص کو برقرار رکھنے کے لئے تنظیم اسٹرکچر کو ایک ہتھیار کے طور استعمال کیا اور خوب کیا جس کی تحسین نہ کرنا زیادتی ہوگی ۔ جماعت کا ملک گیر تنظیمی پھیلاؤ و فعالیت اس کے نظریاتی سچ کی دلیل ہے۔  

مگر اس کا کیا کریں کہ نظریاتی سیاست کا تقاضہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے اور نظریاتی سیاست کا میدان ہے کہ بظاہر سکڑتا محسوس ہورہا ہے۔ 

اس صورتحال کو سمجھنے اور چیلنجز کے درست ادراک و حل کے لئے بہت کچھ کرنا درکار ہے ۔ یہ کرنا آسان تو نہیں یہی وجہ کہ فعالیت کے دباؤ میں سوچ و فکر کے میدان کو وقت دینا دشوار ہوتا جارہا ہے۔  کچھ نیا ہونا چاہئے ؟ کیا نیا ہونا چاہئے ؟ کچھ بھی 

اب یہ کچھ بھی ایک عجیب مخمصہ ہے۔ یہ کچھ بھی کا چکر کبھی غیر اہم کو بھی اہم بنا دیتا ہے اور کبھی اہم کو بھی محو کر دیتا ہے۔ فعال ٹیم فعالیت کے گرداب میں پھنسی رہتی ہے اور سوچ و فکر الگ سے محو تماشائے لب بام رہتی ہے ۔ عملا فعالیت وقت زیادہ لیتی ہے اور پھر فعالیت کا زور بھی تو ہوتا ہے مگر سالوں بعد پتا چلتا ہے کہ سفر تو وہیں رکا ہوا ہے ہم تو کہیں گئے ہی نہیں ۔منزل ہنوز دور است۔  

تھوڑا سا وقت اور تھوڑی سی سوچ بہت سے مسائل حل کر سکتی ہے۔ بشرطیکہ فعالیت سوچ بچار والی ہو جائے یا سوچ بچار فعال ہو جائے۔ دونوں صورتوں میں بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔ 

بہرحال حسب روایت 

پاکستان کی نظریاتی سیاست، جماعت کے نئے امیر کے انتخاب سے ایک بار پھر زیر بحث ہے ۔۔ 

(یہ پہلو قابل ذکر ہے کہ پچھلے پندرہ سال میں جماعت کا یہ تیسرا امیر ہے جو جمہوری انداز سے قیادت کے منصب پہ فائز ہوا اور کوئی ہڑبونگ نہیں مچی نہ شور شرابا ہوا۔ اتنے باصلاحیت قوت گویائی سے مزین افراد اپنے بارے ایک لفظ بھی کہنے سے کتراتے نظر آئے کیا عجیب و غریب کلچر ہے ۔ مکمل جمہوری تو ہے ہی مگر مکمل باقار بھی ہے ! کیا بات ہے)

 ان مباحث میں کچھ نئے اور بہت سے پرانے مباحث ابھار کر سامنے لائے جارہے ہیں ۔ جن میں کام کی بات سمجھنا اور اس کو توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

اسی دوران پرانی چیزیں دیکھتے ہوئے مجھے کچھ پرانے میسجز کا ریکارڈ مل گیا جو اس وقت کے نو منتخب امیر جماعت سراج الحق صاحب  اور کچھ دوستوں کے ساتھ شئیر ہوئے تھے 

سوچا ان کو ایک جگہ لکھ دوں ۔۔ 

قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش خدمت ہیں

سراج الحق صاحب کے امیر بننے پہ کچھ میسجز لکھے اور بھیجے گئے ! 

یاد رہے کہ سراج الحق صاحب کے امیر بننے پہ مجموعی جوش و خروش دیدنی تھا لوگوں کو بہت سی توقعات تھیں میں نے ایک میسج میں لکھا 

Aoa.....Everyone is fascinated by the words "BEGINNING OF NEW ERA" "PHENOMENAL CHANG" is it correct approach? Yes or no depends upon PERSPECTIVE the one has. In my view, from the last GENERAL ELECTION (may 2013) the MINDSET (to work, execute n evaluat) of IDEOLOGUES has been changed silently, the points defining CHANGE were inspirational affect of change phenomenon, desire to be in front line being popular n demand for result oriented steps. The MINDSET needs sophisticated comprehension, delicacy in deliberation, execution n evaluation, cognitive n rhetoric alignment. Do you think IDEOLOGUES can take the steps NEEDED !can move forward AS PLANNED ! can bear difference of opinion PATIENTLY ! can align ideology n practising culture INTELLIGENTLY ! if yes HOW? If no WHY NOT? Regards Naveedanwar 

میں نے پوچھا تھا کہ ہر فرد پُرامید ہے اور کچھ کر گزرنے کے جذبہ سے سرشار بھی مگر کیا یہ واقعی ایک بڑا بدلاؤ ہے اس فیصلہ نظریاتی قیادت کے فیصلوں سے ہوگا کہ وہ 2013 کے بدلاؤ کو کیسے لیتے ہیں ؟ اس کے پیچھے جو تبدیلی کی خواہش، مقبولیت کی لپک اور نتیجہ خیزی کار فرما ہے وہ کیسے نظریاتی اہنگ میں ڈھلے گی ۔ کیسے مختلف المزاج افراد و محرکات کو یکجا کیا جاسکے گا کہ عوامی مقبولیت کا سہرا بھی سجے اور نظریاتی رنگ بھی پھیکا نہ ہو ۔

 اب یہ سوال اگر دوبارہ بھی سامنے ہے تو اس کا جواب محض ایک امیر سے نہیں پوری نظریاتی ٹیم سے ہے کہ وہ کسیے اس چیلنج کو سر کرے گی ؟  ۔۔

عمران خان صاحب اس وقت اتنے مقبول نہیں تھے میں نے امیر جماعت کو مشورہ دیا 

A suggestion to Ameer e Jammat on gap appeared by the political DEMISE of Imran Khan's IMAGE as heroic n visionary leader, chanting for CHANGE. Azadi March has exposed him desiring POWER through hidden hands n left him unheard. If Imran dies in weeks or years, who would be on his position, a question that may get serious attention of power corridors in coming days. It's unique for organization driven ideologues that a political party (PTI) has charged younger lot enough to step into mainstream politics without establishing any formal youth organization. They worked hard for the cause n remained unsatisfied. I think jammat should plan for engaging DESPERATE lot with, by diverting attention from NEW to SELF RELIANT PAKISTAN. The name of Shabab e Mili be revised by any attractive one. Policy be devised by Shoora but working style be left on team's ability to adapt the best. Isn't it? Regards Naveedanwar

کہ عمران خان کی سیاسی موت کے بعد اس ہیرو امیج کا گیپ کون پر کرے گا ۔ نوجوان مایوس ہوں تو کہاں جائی۔ 

 شباب ملی کا نام تبدیل کرکے کوئی اور نام رکھنا مناسب رہے گا۔ نوجوانوں کے پالیسی شوری ضرور بنائے مگر اسٹرکچر نوجوانوں پہ چھوڑ دے کہ وہ جو بہتر سمجھیں بروئے کار لے آئیں۔ نیا پاکستان کی بجائے خودمختار آزاد پاکستان کی ضرورت ہے

سراج صاحب نے مجھے فون کیا 

A conversation with Sirajulhaq sb who phoned me last night n asked my opinion about the situation being developed by multiple segments including influential elites. I said; "Jammat's active presence on mainstream politics, after long has made all patriots happy from left to right. But how to sustain it n keep workers attached with? Are few critical questions that may catch your attention in near future. I think, you can't counter challenges at hand without passing through proper treatment. Organization as weak body needs multivitamins for energizing paralysed organs. Movement phase may come later. Swallowing vitamins, body gets pace for exercise (activities) slowly. After aligning all phases, focus be placed on Results/efficiency by keeping an eye on it. Media (especially GEO) n youth (educated) shouldn't be neglected while planning for involving society with ". Isn't it? Regards Naveedanwar

سراج صاحب کے آنے کے بعد چونکہ میڈیا میں کافی گہما گہمی تھی تو میں نے کہا یہ تو اچھا ہے مگر اس کو کیسے قائم رکھا جائے گا ۔ جو چیلنجز ہیں وہ بہت اہم ہیں ان سے نبردآزما ہونا آسان نہیں ہوگا تنظیم کمزور ہوگئی ہے اس کو ملٹی وٹامنز کی ضرورت ہے تاکہ فالج زدہ حصہ بحال ہوسکے میڈیا اور نوجوانوں کو نظر انداز نہ کی جائے اگر واقعی کچھ دیرپا کرنا ہے تو۔ 

ایک صاحب نے پوچھا کہ کیا شوری کسی تبدیلی کو اپنا لے گی 

(A reply to friend who asked Wil Jama'at go for a change in its stance on current scenario after shoora?) Aoa....To say something certainly is difficult. Jammat's decision making mechanism works differently, here things getting shapes slowly rather gradually. Deliberation is always appreciable, if initiated through proper channel n by designated members. Current political situation is complex though it has given unpaid mileage to Jammat. In coming days Jammat would go to support a side of the two, instead of moving in between like a pendulum. Jammat's threshold level is touching its peak. Choosing one of two, has strategical implications in the future. Shoora instead of taking a side, try to remain in between too, leaving tough decision upon Ameer's discretion, providing with principle rhetoric. I think media's agenda shouldn't be override while tilting a side towards. Isn't it? Regards Naveedanwar

میں نے کہا جماعت کا فیصلہ سازی کا نظام ذرا ہٹ کے چلتا ہے اس بارے کچھ کہنا مشکل ہے یہ سست رفتاری سے چلتا ہے مگر بتدریج ہوتا ہے جماعت کے لئے مین اسٹریم سیاست میں آنے کے لئے کسی ایک طرف ہونا ہوگا جس سے آگے چل کر جماعت کو فائدہ ہوسکے

میڈیا کا دباؤ بھی اپنا کام کرے گا ۔

آخر میں کچھ باتیں سراج الحق صاحب کے ساتھ ہوئیں ۔

Few suggestions to SIRAJULHAQ sb, you are LUCKY to lead a DIFFERENT Jammat. A year ago, I drafted a text describing post election 13's jammat, DIFFERENT from the last. The episode, we've been through since new Ameer took oath, bears TESTIMONY to this fact. Having accepted NARRATIVE of different Jammat, a concrete POLICY be devised for sustaining MAINSTREAM political position along IDEOLOGY. Which takes a lot to prove US eligible, accommodating, responsive n sincere. The first n foremost challenge would be, to CHANGE perception about MEDIA as it's a catalyst of TRANSFORMATION. YOUTH, women n CHILDREN be given top priority. Understanding society, we live in, be enhanced by full time involvement in issues rather ceremonial. I think everything around, is conducive except IRON coated STYLE. You are expected to BREAK n EXTEND the boundary upto DEPRIVED circle neglected for long. Isn't it? Regards Naveedanwar

آپ ایک خوش قسمت امیر ہیں جو ایک بدلی جماعت کا حلف اٹھا چکے ہیں 2013 الیکشن کے بعد جماعت بدل گئی ہے اگر یہ بات مان لی جائے تو پھر ایک ٹھوس سٹرٹجی کی ضرورت ہے مین اسٹریم سیاسی پوزیشن کے لئے ۔۔سب سے اہم میڈیا کے بارے سوچ بدلنے ہوگی کیونکہ یہ تبدیلی کا باعث بنتا ہے نوجوانوں میں خواتین اور بچوں میں ۔۔ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں اسکی درست آگاہی ضروری ہے محض دکھاوا اور سطحی آگاہی کافی نہ ہوگی ۔ سب آسان ہے مگر یہ جو لوہا  تنظیمی جمود نظام ہے اس کو کچھ دیکھنا ہوگا۔ آپ محروم طبقوں تک رسائی کا ایک ذریعہ ہوسکتے ہیں اس پہ کام کریں۔

☆☆☆☆☆ 

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url