اکیسویں صدی کی نظریاتی سیاست بدلتے رجحانات کے تناظر میں چوتھی قسط
نوید انور
چیئرمین پولی کیڈمی پاکستان
اب تک ہم نے اکیسویں صدی کو انیسویں صدی کے تناظر میں سمجھ لیا ہے اور یہ بھی جان لیا ہے کہ انیسویں صدی کی دریافتیں ایجادات ٹیکنالوجی ہی اکیسویں صدی کی ایڈوانس جہتوں کی بنیاد بنی ہیں۔ اکیسویں صدی نے ہی پچھلی صدی کی کمیوں کو پورا کرنے کے راستے سکھائے جس نے انسان کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ یہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس وہ سارے کام کرنے لگی جو کبھی خاص تجربہ کار انسان کا اعجاز ہوا کرتا تھا۔ یا یوں کہیں کہ انسان سوچا کرتا تھا کہ کیا کبھی وہ ان کاموں پہ دسترس حاصل کر لے گا؟ اس سے انسان کے کئی کام ختم تو ہوئے مگر کئی کام نئے بھی پیدا ہوگئے۔
تنظیم کیسے بدلی ؟
اب ذرا تنظیم کو یہاں مثال بنا کر بات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تنظیم انیسویں صدی میں کمانڈ اینڈ کنٹرول، اوپر سے نیچے کے اصول پہ کام کرتی تھی۔ لیکن اب یہ تنظیم مختلف انداز سے کام کرنے لگی ہے۔ اس کی شکل بدل گئی ہے اس کے کام کا فلو چارٹ بدل گیا ہے۔ اب یہ ہمہ جہت پہلووں پہ کام کرتی نظر آتی ہے۔ اس کی فطری کپیسٹی میں کئی گنا اضافہ کر لیا گیا ہے۔ عمومی طور یہ کہا جاتا تھا کہ اگر آپ تنظیم پہ مکمل انحصار کیا جائے تو یہ تنظیم عام طور دو پہ فیصد ہی اثرات ڈالتی ہے۔ یعنی اس کا دائرہ اثر دو فیصد ہی رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ تنظیم کے افراد مکمل ھدف (ابادی) افراد کے تناسب سے 1 فیصد سے کم ہی رہتے ہیں۔ لیکن آج کی تنظیم (جو کہ بہت سارے جدید مشینی ٹیکنالوجی ،آلات اور غیر مشینی ٹیکنالوجی، ایپلیکیشنز سے آراستہ ہے) کے اثرات کئی گنا بڑھا لئے گئے ہیں۔ اب یہ ایک مخصوص ترتیب یعنی ایک دو تین طرز پہ آگے نہیں بڑھتی بلکہ تیز تر انداز سے آگے بڑھتی ہے جیسے ایک، دو، سو، ہزار، لاکھ, کروڑ۔۔
یہ تیز رفتار پھیلاؤ کی وجہ محض تنظیم نہیں بلکہ تنظیم کے حوالے سے دریافت ہونے والی نئی ایجادات و نی سوچ و فکر کے زاوئیے ہیں۔ سیاسی محاذ پہ اگر آپ آج تنظیم کی بنیاد پہ کام کو آگے بڑھا رہے ہیں تو آپ کو فوری اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کے پھیلاؤ کی اسپیڈ کیا ہے اور کن امور پہ اپ کو زیادہ توجہ دینی ہے کن امور کو بالکل نظر انداز کر دینا چاہئے۔ عام افراد سے رابطہ کے لئے پہلے افراد سے براہ راست رابطہ کے علاؤہ کوئی ذریعہ نہیں تھا مگر آج آپ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کر کے رابطہ و افراد کار کی شرکت بڑھا سکتے ہیں۔ انہیں تیار کر سکتے ہیں ان کی تربیت کر سکتے ہیں۔ اور پھر کچھ ایسی ایپلیکیشنز بھی موجود ہیں جن کے ذریعے ان افراد کا تجزیہ بھی کر سکتے ہیں۔ ان کی عادات کا ڈیٹا انالسس کر سکتے ہیں۔ ان کے مجموعی مزاج کو آسانی سے سمجھ کر انہیں ان کی ضرورت کے مشورے دے سکتے ہیں۔ ان کو مستقل بنیادوں پہ اپنے نظریہ کے ساتھ وابستہ کر سکتے ہیں۔ اور براہ راست ان کے رویوں کا احاطہ جائزہ اور ان کو مخصوص ترتیب دے سکتے ہیں۔ ان ساری سہولیات کے حصول نے مکینکل کام آسان کر دئے ہیں یا یوں کہیں کہ اس سارے ڈیٹا کی دستیابی نے معاملات کو تو کافی حد تک نمایاں کردیا ہے مگر ان معاملات پہ گرفت کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہیہ کی یاد کے بعد جب مشین انجن بنا اور پہلی مشینی گاڑی بنائی گئی تو وہ اسٹارٹ و بند ہونے والے سوئچ بٹن پہ مشتمل تھی مگر جوں جوں ترقی ہوتی گئی گاڑی کی شکل پیچیدہ ہوتی چلی گئی گاڑی میں دوسرے فیچر بھی شامل ہوتے چلے گئے کہ ہمارے سامنے ایک سپر ٹربو ہائی اسپیڈ ضرورت (سواری، مال برداری، جنگی، زمین کھدوائی و دیگر امور کے لئے) عین مطابق نئی گاڑی تیار کھڑی ہے. ہر گاڑی چلانے کی علیحدہ ٹرینگ لینی ہوتی ہے اور اس کو چلانے کے علیحدہ تقاضے ہیں۔ آپ انیسویں صدی کی تنظیم کو بھی ایک گاڑی سمجھ سکتے ہیں شروع کے دنوں کی تنظیم چند امور و اھداف کے حصول کے لئے بنائی گئی تھی مگر آج کی تنظیم جو کہ بہت سے اضافی فیچرز سے آراستہ ہے بہت بدل گئی ہے۔ ان نئے فیچرز نے اس کو عام سے خاص کردیا ہے اسے چلانے کی ایک خاص تربیت ہے۔ جس کو سیکھے بغیر اسے بہتر انداز سے چلانا ممکن نہیں۔ دوسری اہمم بات یہ بھی ہے کہ اس جدید تنظیم کو اپنی ضرورت کے مطابق بنوانا بھی آسان نہیں۔ گاڑی کی طرز پہ یہ بھی مختلف امور انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے آپ اس پہ محض سواری کرنا چاہتے ہیں یا مال برداری کرنا چاہتے ہیں یا جنگ کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں یا کسی تعمیری یا تخریبی کام کو انجام دینا چاہتے ہیں۔ آپ کی ضرورت سےہی اس کی شکل بنے گی۔ آپ کی ضرورت کیا ہے یہ کام تو بہرحال آپ کو ہی کرنا ہوگا۔ جب ہم آپ کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ فرد یا افراد جو تنظیم کو چلانے کے براہ راست ذمہ دار ہیں یا جن کا تنظیم پہ استحقاق ہے۔
اب اگر اتنی ورائٹی مارکیٹ میں موجود ہو اور آپ پھر بھی انیسو تریٹھ کی گاڑی کے استعمال پہ ہی بضد رہیں تو یہ آپ کا ہی قصور کہلائے گا نہ کہ محض تنظیم کا ۔
دوسری بات یہ کہ اگر اس جدید ہائی اسپیڈ تنظیم کے باوجود اگر ہم دقیانوسی انداز تنظیم پہ ہی انحصار کرتے ہیں تو کیسے آج کے تیزی سے بدلتے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوسکیں گے۔
نظریاتی سیاست ہدف انسان یا مشین
جب ہم نظریاتی سیاست کی بات کرتے ہیں تو ہم دراصل ان انسانوں کو مخاطب کرتے ہیں جو اپنی ذات مفاد انا سے بالاتر ہیں اور آج کی دنیا میں کچھ بہتر کر سکتے ہیں۔ ورنہ تو ایک خاص قسم کی انسانیت پی میدان میں ہے اور وہ انسانیت انیسویں صدی سے اکیسویں صدی کے ارتقاء میں فنا کے گھاٹ اترتی جارہی ہے۔
اب یہاں نظریاتی سیاست کرنے والوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ وہ ایک ایسی دنیا کے مکین ہیں جو بدل چکی ہے۔ انیسویں صدی کا راگ اب نہیں چلے گا انہیں اکیسویں صدی کے تقاضوں کےمطابق خود کو بدلنا اور بنانا پڑے گا۔
آپ ہی جانتے ہیں کہ سیاست کا مطلب عوامی مفاد میں پالیسی سازی ہے۔ عوامی مفاد کیا ہے اور اس کو کیسے حکومتی دائرہ میں سمیٹنا ہے۔ یہ کام انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور یہی دراصل ناپید بھی ہے۔ یاد رہے انسان مشین نہیں اور نہ محض ٹیکنالوجی ہے، انسان انسان ہے یہ جذبات احساسات و نفسیات کا مجموعہ ہے۔ اس کو یکجا و یکسو شریک اور خوش رکھنا آج کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ انسانی معاملات مشینیں حل نہیں کرسکتیں انسان کو انسان ہی تشفی و دلاسا و اطمینان دلا سکتا ہے۔ آج کا انسان مشین ٹیکنالوجی کا اتنا عادی ہوگیا ہے کہ بعض جگہ انسان اور مشین کو الگ کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اس پیچیدہ انسانی سماج کو سیاسی اکائی میں سمونا آسان نہیں۔ انسان بدلے گا تو انسانی سیاسی سماج بھی بدل جائے گا۔ اور ہمارا آج کا انسانی سماج انسانی کم و مشینی زیادہ ہوتا جارہا ہے اور یہ آج کے نظریاتی سیاسی میدان کا بڑا چیلنج ہے۔ عام آدمی کی معلومات اور مشینوں سے آشنائی زیادہ ہے اور وہ زیادہ وقت سوشل میڈیا اور ان جدید آلات و اپیلیکیشنز کے ساتھ گزارتا ہے۔ اس عام آدمی کو نظریاتی سیاست کا مخاطب بنانا آسان نہیں اس کے لئے نظریاتی سیاست دانوں کو دہری جدوجہد کرنی ہوگی۔ پہلے تو یہ کہ وہ آج کے دور کی (انیسویں و کیسویں صدی) کی ارتقائی ترکیب کو سمجھیں دوسرا اس ترکیب پیچیدہ میں اپنے کرنے کے کام متعین کریں۔
انیسویں صدی اور سیاست
انیسویں صدی کی سیاست تضادات، آبادیاتی کالونیوں کے حقوق و فرائض، غلامی و آزادی، جنگ و جدل، عالمی اداروں کے قیام و انصرام کے فلسفہ عمرانی معاہدہ کی بنیاد پہ کی گئی (جس کے پیچھے وائٹ سپریمیسی گورا بہتر اور ارفع ہے کا تصور تھا) اس سیاست نے کچھ اس طرح اقوام عالم کو گھیرا ہوا ہے کہ دہائیاں گزر جانے کے باوجود اسی پرانے دور کی جاہلانہ غلامانہ سیاسی ترجیحات روایات جاری ہیں۔ اقوام متحدہ جیسے ادارے سے لے کر قومی حکومتوں کی یونین کونسلوں تک ایک ایسا پیچیدہ سیاسی نظام مسلط ہے جو الفاظ تو خوشنما بیان کرتا ہے مگر ببباطن چنگیزیت کی طرز پہ ظلم کرتا رہتا ہے۔ پہلی دنیا تو پھر بھی اس ظالمانہ نظام کے شکنجے سے باہر نکل آئی ہے اس کے عوام کو ریلیف بھی مل گیا ہے اور آزادی کا احساس بھی مگر تیسری دنیا کے ممالک ایک کولہو کے بیل کی طرح اسی چکی کے گرد گھومتے رہتے ہیں جو ان کی عادتوں (جس کا تفصیلی ذکر ہم نے انیسویں صدی کی عادتوں میں کیا تھا) میں پنہا ہے۔ تیسری دنیا کا ذہن جامد بھی ہے اور ارتقاء ناآشنا بھی۔ جدید کمیونیکشن زرائع کے باعث جب تیسری دنیا کے افراد ترقی یافتہ ممالک کی سیاست کا نظارہ کرتے ہیں تو ان کے دل میں فرسٹریشن تو جنم لیتی ہی ہے مگر اس کے ساتھ ان میں گورا مرعوبیت بھی عود کر آتی ہے۔ اور یہی چیز انہیں غلامی در غلامی کی زنجیروں میں مزید جکڑ لیتی ہے۔ ان کے پڑھے لکھے لوگ بھی جب کچھ اچھا اپنی قوم کے لئے کرنے کا سوچتے ہیں تو ان کے ذہن انہیں نظریات سے اسیر ہو جاتے ہیں جو گورے نے دنیا پہ غلامی مسلط کرنے کے لئے وضع کئے تھے یہاں لارڈ میکالے کی مثال سے بات سمجھنا آسان ہو گا لارڈ میکالے نے برصغیر کے لیے تعلیمی نظام وضع کیا تھا وقت نے ثابت کیا کہ یہ نظام کلرک بنانے احکامات کو بجا لانے اور آقاؤں کی طرح جینے کے اصول پہ بنایا گیا تھا۔ اب اس نظام کو اگر آج بھی سنہرے اصول کی طرح نافذ کیاجاتا رہے گا تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ کیا بدلاؤ ہوگا اور انیسویں صدی سے اکیسویں کے ارتقا کا کیا اثر ہوا ہے۔ جامد و مرعوب سوچ کے سیاستدان کیا اچھا کر سکتے ہیں؟ ہمیشہ اچھمبا ہی بنا رہے گا۔
اب جب کہ ہم غور کرتے ہیں تو وہیں خود کو کھڑا محسوس کرتے ہیں جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔ یہ تیسری دنیا کا سیاسی المیہ ہے جس کو تبدیل کرنا آج کے نظریاتی سیاسی محاذ کا اہم چیلنج ہے۔
دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے اور ان سیاسی جماعتوں کو عالمی اداروں و عالمی رائے عامہ کا قانونی اخلاقی استحقاق حاصل ہوتا ہے۔ یہی سیاسی جماعتیں ملک کی حکومتیں بنانے اور چلانے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں سیاسی نظام بوسیدہ ہوچکا ہے اور اس کی وجہ یہاں بھی وہی انیسویں صدی کی انسانوں پہ زبردستی مسلط کی گئی عادتیں ہیں یہ کہیں غلامی کی یادگاریں ہیں تو کہیں طوطا کی طرح رٹی سیاسی عبارتوں کی تکرار۔ پہلی دنیا کو چھوڑ کر باقی ساری دنیا کو برابر انسان تو سمجھا ہی نہیں گیا لہذہ ان ملکوں کا سیاسی نظام عجب دقیانوسی و بھول بھلیوں کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی کبھی اس طرف دھیان نہیں دیا اور نہ سیاسی جماعتیں ہی اس انداز سے ملکی معاملات کو چلا سکیں۔ نتیجا یہ ہوا کہ تیسری دنیا کی سیاست آبادیاتی دور سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اگر آزادی ملی بھی تو جزوی مکمل آزادی نہیں ملی۔ یہی وجہ ہے کہ تیسری دنیا آج بھی آزادی کے دلفریب نعروں کی گونج میں نئے سیاسی قائدین کو سنتی چلی جارہی ہے۔ آج بھی ان کی سیاست الزام تراشی تنقید،دھونس دھمکی اور کرپشن کے گرد گھومتی ہے۔ الیکشن کی حد تک تو عوام کی ایک معقول حد تک تعداد ووٹ ڈال دیتی ہے مگر اس کے بعد حکومت کیسے بنتی و چلتی ہے کوئی نہیں جانتا۔ پچھلی نصف صدی تو انہی وارداتوں کی صدی رہی
البتہ اج سوشل میڈیا نے کسی حد تک سب معاملات کو کھولنا اور اس پہ رائے عامہ کے ردعمل کو پھیلانا ضرور شروع کیا ہے جس نے جھوٹ و دھوکہ دہی کے ایوانوں میں کھلبلی مچا دی ہے مگر ابھی بہت کام باقی ہے۔۔ یہاں سے ہم اکیسویں صدی کی سیاست کو ڈسکس کریں گے
سیاست کا ارتقائی عمل
جیسا کہ ہم یہ بات جان گئے ہیں کہ اکیسویں صدی دراصل انیسویں صدی کا ارتقائی ورژن ہے اور یہ ارتقا مسلسل جاری ہے یہ دھیرے دھیرے اپنی جگہ بنا رہا ہے اور ایک واضع حد فاضل بھی لگاتا چلا جا رہا ہے۔
یہاں بھی ہم نظریاتی سیاست سے دلچسپی رکھنے والے افراد نوجوانوں خواتین و حضرات سے اپیل کریں گے کہ وہ اس کار عظیم )عمل) میں ہمارے شریک سفر بنیں اور اپنی رائے سے اس کام میں حصہ ڈالیں۔
اکیسویں صدی کی سیاست ؟
یاد رہے انیسویں صدی کی سیاست گورا برتر ہے کے گرد گھومتی تھی جبکہ برابر سیاسی حقوق اور چناؤ سے حکومتوں کے بننے کا چلن بھی جاری رہا۔ جس پہ کافی بات کی جا چکی ہے۔
اکیسویں صدی کی سیاست انسان کو بنیاد بنا کر ترتیب دی جانی چاہئے۔ یہاں انسان شتر بے مہار نہیں بلکہ انسان خلیفۃالارض(دنیا میں اللہ کا نائب) ہے کیونکہ یہی ایک سچی انسانی برابری کی حقیقی تعبیر ہوسکتی ہے۔ یا خالصتا اکیسویں صدی کی اصطلاح میں بات کی جائے تو یہ انسان بالاتر ہے ہر ایجاد، دریافت، اپلیکیشن مشین، سسٹم اور آئیڈیا سے۔ اب جبکہ اکیسویں صدی اس بات کو مانتی ہے مگر اکیسویں صدی کے قانونی رکھوالے اس بات کو نہیں مانتے اور ان کا دماغ اب بھی قبضہ مافیہ کی طرز پہ لیگل کاپی رائٹ کو ہی اہمیت دیتا ہے۔ کیونکہ یہ لیگل کاپی رائٹ ان کی امتیازی پوزیشن کا حوالہ ہے۔ طرفہ تماشہ دیکھیں خاص طور تیسری دنیا کے
لوگ پہلے زمینیں مویشی محلات اور پیسہ پہ گھمنڈ کرتے تھے اور اس کو اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کا ذریعہ سمجھتے تھے اور آج کاپی رائٹ کی آڑ میں اییڈیاز کو کنٹرول کرکے وہی (پرانی شراب نئی پیکنگ) گھٹیاپن کرتے ہیں۔
المختصر ہم یہاں کچھ نکات پیش کررہے ہیں جو اکیسویں صدی کی نظریاتی سیاست جو جلا بخشی سکتے ہیں۔
1) اکیسویں صدی انسان کی صدی ہے لہذہ اہمیت انسان کی ہے کسی تنظیم نظام ادارہ کی حیثیت ثانوی ہے
2) اکیسویں صدی کی ایجادات نے انسان کی علمی رسائی آسان کی ہے لہذہ ہر انسان اپنی سوچ و صلاحیت دکھانے اورمنوانے میں کسی انیسویں صدی کے فارمولے نظام کا پابند نہیں۔
3) اس سب کو بھلا دیا جائے جو نیاویں صدی کی سسٹمیٹک ترتیب کے انسان نے سیکھا ہے کیونکہ ہر لحظہ ہوتی تنوع و تبدیلی نئے سیکھنے کی متقاضی ہے
4) تنظیم ایک مؤثر ٹول ہے بات پہنچانے کا مگر اس کی نوعیت بدل گئی ہے اس کو فارمولا ٹرینگ سے نہیں چلایا جاسکے گا اس کے لئے بہت فوکس پلان و بہترین انتخاب کرنا ہوگا۔ اس کام کے لئے ایک مرتبہ پھر سوچ بچار کرنی ہوگی کہ ہمارا مع نظر کیا ہے اور ہم تنظیم سے کیا کام لینا چاہتے ہیں۔
5) سوشل میڈیا نے بات پہنچانا تو سان کردیا ہے مگر بات کی ہے اور اس بات کو کیسے قابل قبول کرنا ہے اس کے لئے بہرحال قابلیت کی ضرورت ہے۔جو بہتریں مواد تیار کر سکیں۔
6) سوشل میڈیا کی بھرمار نے انسان کے سننے دیکھنے اور فوکس کرنے کا دورانیہ کم سے کم تر کردیا ہے۔ اب مختصر وقت میں مکمل بات کرنا ہی فایدہ مند ہوگا۔ کسی دانا نے کہا تھا کہ اگر آپ مجھ سے لمبی بات کرانا چاہتے ہیں ایک دن تیاری کا موقع دیں اگر آدھا گھنٹہ بات پرانی ہے تو دو دن دیں اگر پانچ منٹ بات پرانی ہے تو سات دن کی تیاری کا موقع دیں۔ گویا مختصر وقت کی بات کے لئے زیادہ تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب جبکہ بات تیس سیکنڈ کی ہوگئی ہو تو کیسی تیاری درکار ہے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں
7) یہاں چلتے چلتے ایک اور بات کا ذکر کر لیتے ہیں صرف سیاست پہ بات کرنا مشکل ہی نہیں دوسرے شعبوں کو بھی یہی چیلنجز درپیش۔ ایک گھنٹہ کے مزاحیہ شوز کی تیاری پہ جو رقم خرچ ہوتی ہے اس کا اندازہ مزاحیہ اداکاروں کو دی جانے والی سیلری سے لگایا جاسکتا ہے۔ کئی کئی گھنٹوں کی ریہرسل کے بعد وہ ایک گھنٹہ کی پرفامنس دیتے ہیں۔ اور پچھلی پرمامنس کو نئی سے بدل دیتے ہیں۔ کیا سیاسی دان اتنی پتہ ماری کرتے ہیں ؟ اگر نہیں تو انہیں کرنی ہوگی۔
8) تیسری دنیا کی سیاست کے میچور نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیاستدانوں کی پرمانس پرکھنے کا کوئی باضابطہ چینل نہیں الیکشن ایک پیمانہ ضرور ہے مگر یہ تو وہی پرانے وقتوں کی فوج کے جرنلوں کی طرز پہ اس وقت اثر دکھاتا ہے جب فوج مکمل ہار جاتی ہے تو آخر میں جرنل خود کو بھی مار دیا کرتا تھا۔الیکشن سے الیکشن تک کے وقت میں اتنی خرابی پھیل چکی ہوتی ہے اس وہ سنبھالنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔ ہمیں ایک خودکار کارکردگی کا نظام وضع کرنا ہو گا جو ہمیں ایک صحت مند سیاسی مستقبل دے سکے۔
اکیسویں صدی کو جان لینے کے بعد نظریاتی سیاست کی ازسر نو ترتیب پہ غور کریں۔ یہاں پھر تھوڑا سا انیسویں صدی کو دماغ میں تازہ کیجئے۔