Visit Our Official Web اکیسویں صدی کی نظریاتی سیاست بدلتے رجحانات کے تناظر میں (تیسری قسط) Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

اکیسویں صدی کی نظریاتی سیاست بدلتے رجحانات کے تناظر میں (تیسری قسط)


 (تیسری قسط)

نوید انور 

چیئرمین پولی کیڈمی پاکستان 

اکیسویں صدی کے تقاضے جاننے کے لئے انیسویں صدی کو تفصیل سے سمجھنا ضروری ہے لیکن یہ عمل اتنا سادہ نہیں جتنا بظاہر لگتا ہے۔ اس قسط میں ہم کوشش کریں گے کہ نظریاتی سیاست کے تقاضے سامنے آسکیں اور نظریاتی سیاست کرنے والے باریک بینی سے اپنا ایجنڈا اور کرنے کے کام سمجھ سکیں۔ یہاں یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ جب ہم ٹیکنالوجی کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں مشینی تصور ٹیکنالوجی ہی ابھرتا ہے جبکہ اکیسویں صدی میں ہم غیر مشینی ٹیکنالوجی سے بھی آشنا ہوئے یہ غیر مشینی ٹیکنالوجی آئیڈیاز کی شکل میں سامنے آئی۔ گویا سوچ و ائیڈیاز نے بھی ایک سائنٹفک شکل اختیار کی اور یہیں سے آگے اکیسویں صدی سمجھ آنے لگتی ہے اور بقول اقبالؒ 

   ہے بازیچئہ اطفال دنیا میرے آگے 

لیکن ذرا ٹھہرئیے اس سے پہلے ہم عملی نکات پہ آئیں کچھ بنیادی امور کو مزید جان لیں۔  

انیسویں سے اکیسویں صدی کا ارتقائی سفر 

انیسویں صدی اس لحاظ سے بڑی جاندار صدی تھی کہ اس دور میں انسان نے بہت سی جہتوں میں ترقی کی گو مصری تہذیب 6000 سال پہلے بہت سی ترقی حاصل کر چکی تھی۔ مگر اسٹیم انجن کی ایجاد نے مغرب (موجودہ) تہذیب کو مصری تہذیب سے آگے بڑھا دیا اور اس کے بعد معلومات علم و کمیونیکشن کی جدید دریافتوں نے تو انسان کو ترقی کا وہ بام عروج عطا کیا کہ کیا کہنے؟ انسان نے ٹیکنالوجی (مشینی اور غیر مشینی) کو دریافت کیا پھر اس کے ساتھ نئے انداز سے جینا سیکھا۔ ٹیکنالوجی کو ترقی دی اور پھر اسی ٹیکنالوجی کو اپنے اوپر یوں حاوی کیا کہ انسان خود بھی حیرت کے گہرے سمندر میں غوطہ زن دیکھ رہا ہے۔ اور محو حیرت ہے کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی ؟ 

بات کو آسان کرنے کے لئے ایک مثال سے کام لیتے ہیں فرض کریں کہ ایک فرد ہے جو روز دس کلومیٹر کا سفر پیدل طے کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ آتا جاتا ہے۔ یہ کام اس کی روزانہ کے لازمی کاموں میں سے ایک ہے۔ اور یہ کام اس کی عادت  بن گیا ہے۔ اس پیدل سفر میں اس کے دو گھنٹے روز صرف ہوتے ہیں۔  اب اگر کوئی دوسرا فرد اسے گاڑی لے دے اور اس کا یہ سفر دو گھنٹے کی بجائے دس منٹ میں طے ہونے لگے تو اس آدمی کو کیا کہیں گے کہ وہ اس وقت کا جو بچ گیا ہے۔ کیا کرے عام طور لوگ اس وقت کی قدر سے ناآشنا رہنے کی وجہ سے اس بچے وقت کو ضائع کرنا شروع کر دیتے ہیں کوئی اور مثبت مصرفیت نکالنا آسان بھی نہیں۔ یہ انسان کا المیہ ہے جس میں مکمل کنٹرول تو ممکن نہیں ہاں اس کو کچھ کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔  یاد رہے، دو گھنٹے روزانہ مصروف رہنے کی عادت نئی سہولت کے باوجود اس کو تنگ کرتی رہے گی اور وہ ایک وقت تک اس کی کمی محسوس کرتا رہے گا کچھ تو اپنی اس کم محنت کو بھی یاد کر کے احساس ندامت کا اظہار کرتا رہیں گے۔ یہ معاملہ بہت پیچیدہ ہوجاتا ہے جب بھی کوئی نئی ٹیکنالوجی سامنے آتی ہے تو انسان اس کو ابتدائی طور شک اور اپنی اہمیت کے کم ہونے کے انجانے خوف کی نظر سے دیکھتا ہے۔ پھر چاہے کچھ دنوں بعد یہی انسان اس کا عادی ہوجائے لیکن یہ ابتدائی خوف کا شکار ضرور ہوتا ہے۔ یہ معاملہ فرد سے اقوام تک پھیلتا چلا جاتا ہے۔ 

آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا 

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں   

فرد اس نئی سہولت سے بہرہ مند ہونے کے وقت بچنے کے باوجود وہ وقت ضائع کرے گا بہت سے لوگ تو اس کو قبول ہی نہیں کریں گے کہ یہ اب ان کی عادت بن گئی ہے کہ دو گھنٹے ہی لگنے چاہیں۔ وہ اڑے رہیں گے۔ 

انسان عادتوں کو مجموعہ ہے 

اس مثال سے یہ ایک بات واضع ہو گئی کہ انسان عادتوں کو مجموعہ ہے اور انہی عادتوں سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ یہی عادتیں اس کی قسم وضع کرتی ہیں۔ جس قسم کا انسان ہو گا ویسی ہی اس کی عادات ہوں گی۔  

انیسویں صدی کی عادتیں

انیسویں صدی کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس نے ٹیکنالوجی تنظیم (اسکول کالج یونیورسٹی ٹریننگ ادارے وغیرہ) کو کچھ اس طرح سے استعمال کیا کہ ماڈرن عادات نہ صرف یہ کہ سکھائی گئیں بلکہ انہیں یوں پریکٹس کرایا گیا کہ وہ یاداشت سے پرے ہوئے شعور و لاشعور تک میں سرائیت کر گئیں۔ یہی وجہ کہ انیسویں صدی میں جن کاموں کی عادت مجموعی طور پہ انسانوں کو ہوئیں وہ فیشن بن کے زندگی کا حصہ بن گئیں۔ ماڈرن انسان بہت سی  عادات کا مرقع بن گیا۔ وہ تعلیم اداروں سے سیکھ کر پڑھی باتوں کا اسیر ہے۔ انہیں چھوڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ کھانے پینے کے آداب کی آڑ میں اپنی کلاس کا پابند ہے۔ بزنس کی ترکیب جان کر اپنے اصولوں کا غلام ہے۔ دوستی و دشمنی کے وضع کردہ معیارات کا گرویدہ ہے۔ غرض اس کی ہر بات و عادت کی ایک لوجک ہے جو اس نے مغربی فکر و نظریہ سے اخذ کی ہے۔ مغربی فکر و نظریہ وہ جاندار عامل ہے جو اسے اپنی عادات کا غلام بنا دیتا ہے۔ وہ غلط بات بھی اس اعتماد و گھمنڈ میں کرتا ہے کہ اس کی اصلاح ممکن نہیں۔ 

اس پہلو سے اگر کہا جائے کہ ماڈرن انسان کو سمجھانا سب سے مشکل کام ہے تو غلط نہ ہوگا۔  ماڈرن پڑھا لکھا انسان انپڑھ سے زیادہ اجڈ و گھمنڈی ہے۔ انیسویں صدی کی تباہ کاریوں کا احاطہ کیا جائے تو یہ بات سمجھنا آسان ہو جاتا ہے

اکیسویں صدی کا انیسویں صدی پہ حملہ  

سب سے پہلا حملہ جو اکیسویں صدی نے انیسویں صدی کی تنظیم ٹیکنالوجی سے مرعوب ماڈرن انسان کی ماڈرن فکر پہ غیر متزلزل اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے لئے کیا، وہ یہ تھا کہ ہر بات جو انیسویں صدی کی ماڈرن فلاسفی سے پھوٹی ہے وہ مکمل سچ نہیں بلکہ بعض جگہوں پہ وہ آدھا سچ بھی نہیں۔ اس بات پہ ماڈرن انسان کا رویہ بھی اوپر دی گئی مثال والے فرد سے قطعی مختلف نہیں تھا۔ اولا ماڈرن انسان نے پوسٹ ماڈرن فکر کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ نتیجتا پوسٹ ماڈرن دور کو سمجھنے میں کافی وقت لگ گیا دریں اثناء میدان میں نئی جدید ٹیکنالوجی (مشینی و غیر مشینی) آنے لگی ۔ دھیرے دھیرے ماڈرن انسان کو سمجھ آنے لگ گیا کہ اب بات سمجھے بغیر گزارا ممکن نہیں۔ جس عبارت نے اس کو نمایاں کیا وہ یہ تھی کہ پچھلے سیکھے کو بھلادیا جائے unlearn what you have learned yet تاکہ نیا سیکھنا ممکن ہو۔ یہ چھوٹا سا جملہ اکیسویں صدی کی فکر کا نچوڑ ہے۔ اور اس نے تو ماڈرن انسان کے کبر و تکبر کی چولیں ہلا دیں ورنہ ماڈرن انسان تو کسی طور ماننے والا نہ تھا۔ ماڈرن فکر کا دماغ  پوسٹ ماڈرن فکر ہی ٹھیک کر سکتی تھی ورنہ کسی اور فکر کو تو اس نے گھاس نہیں ڈالنی تھی۔ جب آپ کہتے ہیں کہ بھلا دو جو سیکھا ہے تو آپ پوری بلند بالا فکر و نظر کی عمارت کو ڈھا رہے ہوتے ہیں۔  یہ گرتی عمارت بہت سی انیسویں صدی کی عادات کو بھی کٹہرے میں لے آئی۔ سوال اٹھے تو جواب بھی موجود تھے۔  

جاری ہے

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url