Visit Our Official Web اس قسم کے پرنٹ اور ڈیزائینگ سے پرہیز کریں ۔ Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

اس قسم کے پرنٹ اور ڈیزائینگ سے پرہیز کریں ۔

 


میری ڈیزائینرز سے خصوصا  اور خواتین سے عموما یہ گزارش ہے کہ 

اس قسم کے پرنٹ اور ڈیزائینگ سے پرہیز کریں ۔

اس کی دو وجوہات ہیں👇 

نمبر ایک قران کریم اور احادیث مبارکہ سے بالکل مکمل طور پر مشابہت رکھتی خطاطی خواہ اس میں کچھ بھی لکھا ہو  ہمیں احتراما پہننے سے گریز کرنا چاہئیے۔۔کیوں کہ یہ اور ایسے رسم الخط ایجاد ہی قران کی خطاطی کے طفیل ہوئے ہیں۔۔عربی زبان میں لکھی گئی دیگر عبارات یا تحریرکا خط بالکل  واضح طور پر مختلف ہوتا ہے ۔ خطاطی کا یہ انداز جان بوجھ کر فیشن ڈیزائینرز  نے اپنایا ہے۔

 اردن میں مقیم فیشن ڈیزائنر ھنا صادق کے گاہکوں میں اردن کی ملکہ رانیہ سے لے کر سعودی شاہی خاندان کے افراد تک شامل ہیں۔ وہ لباس کو عربی خطاطی اور نظموں سے سجانے کی بھی ماہر ہیں۔

لیکن عرب بھی اس کام کو اگر کر رہے ہیں تو وہاں کے کچھ لوگ ہی اس کو پسند کرتے ہیں زیادہ تر نہیں کرتے اور کئی جگہ ان پر پابندی بھی لگائی گئی ہے۔۔ یقینا ایسا خاص طور پر کیا جاتا ہے۔۔۔البتہ خریدار معصومیت میں لے لیتے ہیں۔

اب تو ہمیں سمجھ لینا چاہئیے کہ خاص طور پر ایسا کیوں کیا جاتا ہے۔اس کے پیچھے کیا مذموم مقاصد ہیں ۔۔ظاہر ہے خطاطی کا فروغ تو ہے نہیں !!!

البتہ ٹوپیوں اور  دستاروں پر لکھوانا کافی مروجہ تھا ۔۔بلکہ ایران و دیگر کئی ممالک میں جنگوں پر جانے والوں کے کرتوں پر قرآن کی آیات لکھنا یا بنائی یا کڑھائی کے ذریعے تیار کرنا جنگ میں کامیابی کی ضمانت کے طور پر کیا جاتا تھا ۔۔جو کہ قطعی درست نہیں۔ قرآن عمل کی کتاب ہے ۔۔اس کے ساتھ یہ مذاق کے مترادف ہے۔

۔۔خواہ عرب کو ہوں یا عجم کے اس کا ایک تقدس ہے۔۔جب آپ اس کے عادی ہوجائیں گے تو پھر وہ جوچاہئیں لکھ دیں۔۔۔جوتوں کے تلوں میں انڈر گارمنٹس پر موزوں پر  اور  حتی کہ بچوں کے پیمپرز تک پر  اس قسم کی واضح تحریر مل چکی ہیں ۔۔قران کو جلانے کے واقعات کھلم کھلا پیش آئے ہیں۔۔۔اور غز ۔۔ہ۔۔۔کی حالیہ جن۔ گ میں ان کے عزائم بالکل واضح ہو چکے ہیں ۔۔۔اس لیے برائے مہربانی اس قسم کے فیبرک ، لباس، حجاب اسکارف کرتے وغیرہ سب سے گریز کریں۔۔

دوسری بات یہ ہے کہ👇

 بہت بڑا المیہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ عربی زبان میں لکھی تحریر کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔

۔اس لیے جو واقعہ آج اچھرہ بازار میں پیش آیا جس میں ایک خاتون ایسا ہی ڈریس پہن کر بازارمیں جارہی تھیں انہیں دیکھ کر لوگ سمجھے اس پر کوئی آیت یا حدیث لکھی ہے ۔۔تو ان کے گرد ہجوم ہو گیا بڑی مشکل سےان کی جان بچائی۔۔۔(یہ ہمارے لوگوں کی بھی کس قدرجہالت ہی ہے کہ کسی بھی بات کو سوچے سمجھے بنا ہی مشتعل ہوجاتے ہیں) پولیس نے ان کی جان بچائی۔ اس پر سخت قانون سازی کی ضرورت ہے ایسے ہی کسی کی جان لے لینا کھیل بنالیا ہے۔۔۔بہت ہی قابل مذمت رویہ ہے ۔ 

ویسے بھی اس پر" حلوہ" لکھا ہے ۔ 

عرب ہر میٹھی چیز کو حلو یاحلوہ کہتے ہیں۔۔

جس سے مراد پیاری ، میٹھی میٹھی sweet  

ہے۔۔۔ویسے بھی یہ کوئی اچھا لفظ نہیں کہ ہم اسے لکھوا کر پہنیں اور بازاروں میں لوگوں کی نظروں کا مرکز بنیں ۔

 آخری بات یہ کہ

میں خود اور ہم میں سے بہت سے  سوشل میڈیا پر لکھنے والے یہ کہہ چکے ہیں کہ

 آپ خود اپنی طرف دیکھیں ۔۔۔آپ کے ٹھیلوں دکانوں  دیواروں بینروں جھنڈوں اخبارات ورسائل اور اشتہارات پر جو آیات یا احادیث آپ خود لگاتے ہیں۔ 

 کلمے لکھتے ہیں درود لکھتے ہیں۔ پھر جب وہ پرانے ہو جاتے ہیں تو

 کیسے چیتھڑے اڑتے ہیں ان کے۔۔رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں خوف سے۔۔۔

کیا اہل مغرب سے زیادہ خود اپنے دینی شعار کا مذاق نہیں اڑاتے؟؟ ۔۔کیا آپ اس کی تقدس کو پامال نہیں کرتے؟؟

کبھی اس پر بھی غور کریں اور اس کا بھی تدارک کریں۔


طالب دعا: ڈاکٹر جہاں آرا لطفی

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url