تاریخ سے نا بلد میڈیا مینیجرز اور صحافت
تحریر : محمد بلال افتخار خان
میں نے الیکٹرونک میڈیا یکم مارچ دوہزار سات میں جوائن کیا۔۔ بڑے چینلز میں کام کیا اور چار چینلز جن میں چینل ۵ ، چینل 24، نیو ٹی وی، سنو ٹی وی وغیرہ شامل ہیں کی لانچنگ ٹیم میں بھی شامل تھا۔۔ اس کے علاوہ انڈس نیوز ، ایکسپریس اور ایکسپریس 247 کے لانچ کے فوراً بعد ان چینلز میں کام کرنے کا موقع ملا۔۔ اپنی سولہ سالہ میڈیا کی نوکری میں ایک چیز بار بار یاد دلائی گئی۔۔۔
بلال صاحب زیادہ تاریخ میں نا جایا کریں ، تجزیہ موجودہ حالات پر ہونا چاہئے نا کہ تاریخی ارتقاء پر۔۔۔
دوستو ہمارے میڈیا مینجرز تاریخ سے کیوں بھاگتے ہیں؟
میرا خیال ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خبر اور کرنٹ افیئیرز کا مقصد معلومات کی ترسیل سے زیادہ انہیں بیچنا ہے۔۔۔ خبر اور کرنٹ افیئر پروگرامنگ ایک کموڈٹی ہے جس سے ایک تو جسے سپورٹ کیا جا رہا ہے اُس سے فائیدے لینے کی کوشش ہے اور دوسرا مخصوص سامعین کو انگیج کر کے ریٹنگ کمانی ہے جس سے اینکر اور چینل فائیدہ اُٹھا سکیں ، چینل کو اشتہارات ملیں اور اینکر کو بہتر نوکری اور معاشی ، سیاسی ،سماجی طاقتوروں سے فوائد حاصل ہوں (سب اینکر ایسا نہیں کرتے لیکن اکثریت یہی سوچ رکھتی ہے)
المیہ یہ ہے کہ جس تاریخ سے ہم بھاگتے ہیں ۔۔۔۔وہی تاریخ ،جہاں ماضی کے تجربات بتاتی ہے وہان موجودہ حالات کے ارتقا اور ارتقا کے پیچھے چھپی طاقتوں، نظریات اور حالات کا بھی پتہ دیتی ہیں جو بالآخر سیاسی اور سماجی کلچرل ڈویلپمنٹ اور اُن کے پیچھے چھپی وجوہات اور معروضی کلچر کو سمجھنے میں آسانی پیدا کرتے ہیں۔۔۔
تاریخ سے دوری اور سیل ایبل یا بکنے والی کموڈٹی کی دوڑ نے جتنا پاکستانی صحافت کو نقصان پہنچایا ہے اُتنا کسی مارشل لاء اور جمہوری یا فوجی ڈیکٹیٹر شپ نے بھی نہیں پہنچایا۔۔۔
اس سب کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کسی نے معاشرے کی اساسی بنیاد مضبوط نہیں ہونے دی اور وہ وجوہات جن کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا اُسے سمجھنے کی کوشش نہیں کی ، مذید یہ کہ جس نے چاہا اور جیسے چاہا بغیر تاریخ اور پاکستان کی نظریاتی اساس سمجھے پاکستان کے قومی مفاد اور اس کی سمت کی تشریح کی ۔۔۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ آج ہم تقریباً آٹھ دہائیاں گزارنے کے بعد بھی بے سمت اور کنفیوز ہیں۔۔۔
اس تمام کا فائیدہ اشرافیہ نے اُٹھایا اور پھر اُن صحافیوں نے جو یا تو حب الوطنی میں وہ نظریات بیچتے نظر آئے جن کا اس زمین اور نا ہی بنیادِ پاکستان سے مطابقت تھی ۔۔یا وہ جنہوں نے لالچ یا پھر محبت میں روح پاکستان سے زیادہ سیاسی اور اپنے نظریاتی اعتبار صحافت کی۔۔۔
انگریزی کی کہاوت ہے
History repeats itself but with variations.
کیونکہ ہم تاریخ سے بھاگے اس لئے آج بھی ہم اپنی کم علمی کی وجہ سے دائرے میں بھاگ رہے ہیں۔۔۔ اور بے سمت ہونے کی وجہ سے ہم ایسے ہی بھاگتے رہیں گے۔۔۔۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے