صراط الجنان فی تفسیر القرآن ( آیت 48 تا 56 )
البقرہ آیت 48
بسم اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْــٴًـا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ(48)
ترجمۂ کنز الایمان
اور ڈرو اس دن سے جس دن کوئی جان دوسرے کا بدلہ نہ ہوسکے گی اور نہ کافر کے لئے کوئی سفارش مانی جائے اور نہ کچھ لے کر اس کی جان چھوڑی جائے اور نہ ان کی مدد ہو ۔
تفسیر صراط الجنان
{لَا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْــٴًـا:کوئی جان کسی دوسرے کی طرف سے بدلہ نہ دے گی۔}یعنی اے بنی اسرائیل ! قیامت کے اس دن سے ڈرو جس دن کوئی بھی شخص کسی کافر کی طرف سے بدلہ نہ دے گا اور نہ کافر کے بارے میں کسی کی کوئی سفارش مانی جائے گی اور نہ اس کافرسے جہنم کے عذاب سے نجات کے بدلے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ ان کفارسے اللہ تعالیٰ کا عذاب دور کر کے ان کی مددکی جائے گی۔ (روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۸، ۱ / ۱۲۶-۱۲۷)
شفاعت کی امید پر گناہ کرنے والا کیسا ہے؟
اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن کافر کو نہ کوئی کافر نفع پہنچا سکے گا اور نہ کوئی مسلمان،اس دن شفاعت صرف مسلمان کیلئے ہوگی جیسا کہ دیگر آیات میں بیان ہوا البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ شفاعت کی امید پر گناہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اچھے ڈاکٹر کے مل جانے کی امید پر کوئی زہر کھالے یا ہڈیوں کے ماہر ڈاکٹر کے ملنے کی امید پرگا ڑی کے نیچے آکر سارے بدن کی ہڈیاں تڑوالے۔
البقرہ آیت 49
وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْؕ-وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ(49)
ترجمۂ کنز الایمان
اور یاد کروجب ہم نے تم کو فرعون والوں سے نجات بخشی کہ تم پر بُرا عذاب کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی بلا تھی یا بڑا انعام۔
تفسیر صراط الجنان
{وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ: اورجب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی۔} اس سے پہلی آیات میں بنی اسرائیل پر کی گئی نعمتوں کا اجمالی طور پر ذکر ہوا اور اب یہاں سے ان نعمتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو کہ جب ہم نے تمہیں فرعون کی پیروی کرنے والوں سے نجات دی جو تمہیں بہت برا عذاب دیتے تھے۔ فرعون نے بنی اسرائیل پر نہایت بے دردی سے محنت و مشقت کے دشوار کام لازم کر رکھے تھے، پتھروں کی چٹانیں کاٹ کر ڈھوتے ڈھوتے ان کی کمریں اورگردنیں زخمی ہوگئی تھیں ، غریبوں پر ٹیکس مقرر کئے ہوئے تھے جو غروب آفتاب سے قبل جبراًوصول کئے جاتے تھے اورجوٹیکس نہ دے پاتا اسے سخت سزائیں ملتی تھیں۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۵۰۴-۵۰۵)
اس فرعونیت کا کچھ نمونہ ان مسلمان ممالک میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں کفار نے پنجے گاڑ کر مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں اور مسلمانوں کیلئے عقو بت خانے اورخصوصی جیلیں بنارکھی ہیں۔
فرعون کا مختصر تعارف:
جس طرح فارس کے بادشاہ کا لقب کسریٰ،روم کے بادشاہ کا قیصر اور حبشہ کے بادشاہ کا لقب نجاشی تھا اسی طرح قِبطِی اور عَمالِقہ قوم سے تعلق رکھنے والے، مصر کے بادشاہوں کا لقب فرعون ہوتا تھا۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ کے فرعون کا نام ولید بن مُصْعَبْ بن رَیان تھا اور اس آیت میں اُسی کا ذکر ہے۔اس کی عمر چار سو سال سے زیادہ ہوئی ،نیز اس آیت میں آلِ فرعون سے اس کے پیروکار مراد ہیں۔
{یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ:وہ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے۔} فرعون نے خواب دیکھا کہ بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ آئی اوراس نے مصر کو گھیر کر تمام قبطیوں کو جلا ڈالا جبکہ بنی اسرائیل کوکوئی نقصان نہیں ہوا۔ اس خواب سے اسے بڑی وحشت ہوئی، کاہنوں نے تعبیر دی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو تیری ہلاکت اور تیری سلطنت کی تباہی کا سبب بنے گا۔ یہ سن کر فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہو،اُسے قتل کردیا جائے۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۹، ۱ / ۱۲۹)
یوں ہزاروں کی تعداد میں بچے قتل کئے گئے۔ قدرتِ الہٰی سے اس قوم کے بوڑھے جلد مرنے لگے تو قبطی سرداروں نے گھبرا کر فرعون سے شکایت کی کہ ایک طرف بنی اسرائیل میں موت کی کثرت ہوگئی ہے اور دوسری طرف ان کے بچے بھی قتل کئے جا رہے ہیں ،اگر یہی صورت حال رہی تو ہمیں خدمتگار کہاں سے ملیں گے؟اس پر فرعون نے حکم دیا کہ ایک سال بچے قتل کئے جائیں اور ایک سال چھوڑدئیے جائیں تو جو سال چھوڑنے کا تھا اس میں حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا ہوئے اور قتل کے سال حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت ہوئی۔یہ واقعہ سورۂ قصص کے پہلے رکوع میں کافی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
{وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ:اور اس میں آزمائش تھی۔} ’’بلا ‘‘امتحان و آزمائش کو کہتے ہیں اور آزمائش نعمت سے بھی ہوتی ہے اور شدت و محنت سے بھی۔ نعمت سے بندے کی شکر گزاری اور محنت ومشقت سے اس کے صبر کا حال ظاہر ہوتا ہے۔ اس آیت میں اگر ’’ذٰلِكُمْ‘‘ کا اشارہ فرعون کے مظالم کی طرف ہو تو ’’بلا ‘‘سے محنت و مصیبت مراد ہوگی اور اگر ان مظالم سے نجات دینے کی طرف اشارہ ہو تو ’’بلا‘‘سے نعمت مراد ہوگی۔
••┈┈•••○○❁☘️❁○○•••┈┈••
البقرہ آیت 50
اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا پھاڑ دیا تو تمہیں بچالیا اور فرعون والوں کو تمہاری آنکھوں کے سامنے ڈبو دیا۔
تفسیر صراط الجنان
{وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ:اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا پھاڑ دیا۔ }یہ دوسری نعمت کا بیان ہے جو بنی اسرائیل پر فرمائی کہ انہیں فرعونیوں کے ظلم و ستم سے نجات دی اور فرعون کو اس کی قوم سمیت ان کے سامنے غرق کردیاجس کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حکمِ الٰہی پررات کے وقت بنی اسرائیل کو لے کرمصر سے روانہ ہوئے۔ صبح کو فرعون ان کی جستجو میں ایک بھاری لشکر لے کر نکلا اور انہیں دریا کے کنارے پرپالیا، بنی اسرائیل نے فرعون کے لشکر کو دیکھ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فریاد کی، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریاپر اپنا عصا مارا۔اس کی برکت سے عین دریا میں بارہ خشک راستے پیدا ہوگئے اور پانی دیواروں کی طرح کھڑا ہوگیااور ان آبی دیواروں میں جالی کی مثل روشندان بن گئے۔ بنی اسرائیل کی ہر جماعت ان راستوں میں ایک دوسری کو دیکھتی اور باہم باتیں کرتی گزر گئی ۔ فرعون بھی اپنے لشکر سمیت ان دریائی راستوں میں داخل ہوگیالیکن جب اس کا تمام لشکر دریا کے اندر آگیا تو دریا اپنی اصلی حالت پر آیا اور تمام فرعونی اس میں غرق ہوگئے اوربنی اسرائیل دریاکے کنارے فرعونیوں کے غرق کا منظر دیکھ رہے تھے۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۱ / ۳۱۸-۳۱۹، بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۱ / ۳۲۲، ملتقطاً)
انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ہونے والے انعام کی یادگار قائم کرنا سنت ہے:
فرعونیوں کا غرق ہونا محرم کی دسویں تاریخ کو ہوا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس دن شکر کا روزہ رکھا۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے،حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمافرماتے ہیں :جب حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:یہ کیا ہے؟یہودیوں نے عرض کی :یہ نیک دن ہے،یہ وہ دن ہےجس میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس دن روزہ رکھا تھا۔ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تمہاری نسبت موسیٰ سے میرا تعلق زیادہ ہے،چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس دن روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کاحکم ارشاد فرمایا۔(بخاری، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء،۱ / ۶۵۶، الحدیث: ۲۰۰۴، مسلم، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء، ص۵۷۲، الحدیث: ۱۲۸(۱۱۳۰))
البتہ صرف دس محرم کا روزہ نہ رکھا جائے بلکہ اس کے ساتھ آگے یا پیچھے ایک روزہ ملایا جائے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماسے مروی ہے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: عاشوراء کے دن کا روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کرو، عاشوراء کے دن سے پہلے یا بعد میں ایک دن کا روزہ رکھو۔ (مسند امام احمد، ۱ / ۵۱۸، الحدیث: ۲۱۵۴)
اس سے معلوم ہواکہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پرجوانعامِ الٰہی ہو اس کی یادگار قائم کرنا اور شکر بجا لاناسنت ہے اگرچہ کفار بھی اس یادگار کو قائم کرتے ہوں۔
••┈┈•••○○❁☘️❁○○•••┈┈••
وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ(51)ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(52)
ترجمۂ کنز الایمان
اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ فرمایا پھر اس کے پیچھے تم نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی اور تم ظالم تھے۔پھر اس کے بعد ہم نے تمہیں معافی دی کہ کہیں تم احسان مانو۔
تفسیر صراط الجنان
{وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً:اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا۔}اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں بنی اسرائیل پر کی گئی جو نعمت بیان ہوئی ،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون اور فرعونیوں کی ہلاکت کے بعد جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بنی اسرائیل کو لے کر مصر کی طرف لوٹے تو ان کی درخواست پر اللہ تعالیٰ نے تورات عطا فرمانے کا وعدہ فرمایا اور اس کیلئے تیس دن اور پھر دس دن کا اضافہ کرکے چالیس دن کی مدت مقرر ہوئی جیسا کہ سورۂ اعراف آیت 142میں ہے۔ان چالیس دنوں میں ذوالقعدہ کا پورا مہینہ اور دس دن ذوالحجہ کے شامل تھے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی قوم پر حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنانائب بنا کر تورات حاصل کرنے کوہ طور پر تشریف لے گئے، چالیس دن رات وہاں ٹھہرے اور اس عرصہ میں کسی سے بات چیت نہ کی۔ اللہ تعالیٰ نے تختیوں پر تحریری صورت میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تورات عطافرمائی ۔
دوسری طرف سامری نے جواہرات سے مزین سونے کا ایک بچھڑا بنا کر قوم سے کہا کہ یہ تمہارا معبود ہے۔ وہ لوگ ایک مہینے تک حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا انتظار کرنے کے بعدسامری کے بہکانے سے بچھڑے کی پوجا کرنے لگے،ان پوجا کرنے والوں میں تمام بنی اسرائیل شامل تھے، صرف حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور آپ کے بارہ ہزارساتھی اِس شرک سے دور و نفور رہے ۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام واپس تشریف لائے تو قوم کی حالت دیکھ کر انہیں تنبیہ کی اور انہیں ان کے گناہ کا کفارہ بتایا،چنانچہ جب انہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا ۔ ان مُرتَد ہونے والوں کی توبہ کا بیان آیت نمبر53کے بعد آرہا ہے۔
••┈┈•••○○❁☘️❁○○•••┈┈••
البقرہ آیت 53,54
بسم اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(53)
ترجمۂ کنز الایمان
اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں تمیز کردینا کہ کہیں تم راہ پر آؤ۔
تفسیر صراط الجنان
{اَلْفُرْقَانَ: فرق کرنا۔} فرقان کے کئی معانی کئے گئے ہیں : (1) فرقان سے مراد بھی تورات ہی ہے۔ (2)کفر وایمان میں فرق کرنے والے معجزات جیسے عصا اور ید ِبیضاء وغیرہ۔(3)حلال و حرام میں فرق کرنے والی شریعت مراد ہے۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۵۲)
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْۤا اِلٰى بَارِ ىٕكُمْ فَاقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِىٕكُمْؕ- فَتَابَ عَلَیْكُمْؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(54)
ترجمۂ کنز الایمان
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم تم نے بچھڑا بناکر اپنی جانوں پر ظلم کیا تو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع لاؤ تو آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو یہ تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک تمہارے لئے بہتر ہے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔
تفسیر صراط الجنان
{فَاقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ:کہ تم اپنے لوگوں کو قتل کرو۔}بنی اسرائیل کو بچھڑا پوجنے کے گناہ سے یوں معافی ملی کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم سے فرمایا: تمہاری توبہ کی صورت یہ ہے کہ جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہیں کی ہے وہ پوجا کرنے والوں کو قتل کریں اور مجرم راضی خوشی سکون کے ساتھ قتل ہوجائیں۔وہ لوگ اس پر راضی ہوگئے اورصبح سے شام تک ستر ہزار قتل ہوگئے، تب حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے گڑگڑاتے ہوئے بارگاہِ حق میں ان کی معافی کی التجاء کی۔ اس پر وحی آئی کہ جو قتل ہوچکے وہ شہید ہوئے اور باقی بخش دئیے گئے، قاتل و مقتول سب جنتی ہیں۔(تفسیر عزیزی(مترجم)، البقرۃ، تحت الآیۃ:۵۴،۱ / ۴۳۹-۴۴۲، ملخصاً)
مرتد کی سزا قتل کیوں ہے؟
اس آیت سے معلوم ہوا کہ شرک کرنے سے مسلمان مرتد ہوجاتا ہے اور مرتد کی سزا قتل ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت کر رہا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کا باغی ہو اسے قتل کر دینا ہی حکمت اور مصلحت کے عین مطابق ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں یہ قانون نافذ ہے کہ جو ا س ملک کے بادشاہ سے بغاوت کرے اسے قتل کر دیا جائے ۔ اس قانون کو انسانیت کے تمام علمبردار تسلیم کرتے ہیں اور اس کے خلاف کسی طرح کی کوئی آواز بلند نہیں کرتے ،جب دنیوی بادشاہ کے باغی کو قتل کر دینا انسانیت پر ظلم نہیں تو جو سب بادشاہوں کے بادشاہ اللہ تعالیٰ کا باغی ہو جائے اسے قتل کر دیاجانا کس طرح ظلم ہو سکتا ہے۔
بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کا فضل:
بچھڑا بنا کر پوجنے میں بنی اسرائیل کے کئی جرم تھے:
(1) …مجسمہ سازی جو حرام ہے۔
(2)…حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نافرمانی۔
(3)…بچھڑے کی پوجا کرکے مشرک ہوجانا ۔
یہ ظلم آلِ فرعون کے مظالم سے بھی زیادہ شدید ہیں کیونکہ یہ افعال ان سے بعد ِ ایمان سرزد ہوئے، اس وجہ سے وہ مستحق تو اس کے تھے کہ عذابِ الہٰی انہیں مہلت نہ دے اور فی الفور ہلاک کرکے کفر پر ان کا خاتمہ کردے لیکن حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے طفیل انہیں توبہ کا موقع دیا گیا، یہ اللہ تعالیٰ کابڑا فضل ہے اور یہ قتل ان کے لیے کفارہ تھا۔
••┈┈•••○○❁☘️❁○○•••┈┈••
البقرہ آیت 55,56
بسم اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ(55)ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(56)
ترجمۂ کنز الایمان
اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم ہرگز تمہارا یقین نہ لائیں گے جب تک عَلانیہ خدا کو نہ دیکھ لیں تو تمہیں کڑک نے آلیا اور تم دیکھ رہے تھے۔پھر مرے پیچھے ہم نے تمہیں زندہ کیا کہ کہیں تم احسان مانو۔
تفسیر صراط الجنان
{لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ:ہم ہرگز تمہارا یقین نہ کریں گے۔ }جب بنی اسرائیل نے توبہ کی اور کفارے میں اپنی جانیں بھی دیدیں تو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انہیں اِس گناہ کی معذرت پیش کرنے کیلئے حاضر کریں چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان میں سے ستر آدمی منتخب کرکے طور پر لے گئے، وہاں جاکر وہ کہنے لگے: اے موسیٰ! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، ہم آپ کا یقین نہ کریں گے جب تک خدا کو علانیہ نہ دیکھ لیں ، اس پر آسمان سے ایک ہولناک آواز آئی جس کی ہیبت سے وہ سب مر گئے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے گڑگڑا کر بارگاہِ الہٰی میں عرض کی کہ میں بنی اسرائیل کو کیا جواب دوں گا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان ستر افراد کوزندہ فرمادیا۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۱ / ۸۰، تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۱ / ۵۱۹، ملتقطاً)
انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عظمت:
اس واقعہ سے شانِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی ظاہر ہوئی کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ’’ہم آپ کا یقین نہیں کریں گے ‘‘ کہنے کی شامت میں بنی اسرائیل ہلاک کئے گئے اور اسی سے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے زمانے والوں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جناب میں ترکِ ادب غضب الٰہی کا باعث ہوتا ہے لہٰذا اس سے ڈرتے رہیں۔اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقبولانِ بارگاہ کی دعا سے مردے بھی زندہ فرمادیتا ہے۔
••┈┈•••○○❁☘️❁○○•••┈┈••