Visit Our Official Web صراط الجنان فی تفسیر القرآن Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

صراط الجنان فی تفسیر القرآن


 

سورۃ البقرہ آیت 31

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـٴُـوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(31)

 ترجمۂ کنز الایمان

اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ ۔

 تفسیر صراط الجنان

{وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا:اور اللہ  تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھادیے۔}اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر تمام اشیاء پیش فرمائیں اور بطورِ الہام کے آپ کو ان تمام چیزوں کے نام، کام، صفات، خصوصیات، اصولی علوم اور صنعتیں سکھا دیں۔(بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳۱، ۱ / ۲۸۵-۲۸۶)

{اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ: مجھے ان کے نام بتاؤ۔ }تمام چیزیں فرشتوں کے سامنے پیش کرکے ان سے فرمایا گیا کہ اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو کہ تم سے زیادہ علم والی کوئی مخلوق نہیں اور خلافت کے تم ہی مستحق ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ کیونکہ خلیفہ کا کام اختیار استعمال کرنا، کاموں کی تدبیر کرنااور عدل و انصاف کرناہے اور یہ بغیر اس کے ممکن نہیں کہ خلیفہ کو ان تمام چیزوں کا علم ہو جن پر اسے اختیار دیا گیاہے اور جن کا اسے فیصلہ کرنا ہے۔

علم کے فضائل:

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کے فرشتوں پرافضل ہونے کا سبب’’ علم‘‘ ظاہر فرمایا: اس سے معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔حضرت ابو ذررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں: حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا’’اے ابو ذر!رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تمہاراا س حال میں صبح کرنا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک آیت سیکھی ہو،یہ تمہارے لئے 100 رکعتیں نفل پڑھنے سے بہتر ہے اورتمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب سیکھا ہوجس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیاہو،تو یہ تمہارے لئے 1000نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔(ابن ماجہ،کتاب السنّۃ، باب فی فضل من تعلّم القرآن وعلّمہ، ۱ / ۱۴۲، الحدیث: ۲۱۹)

حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا’’علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ ہے اور تمہارے دین کی بھلائی تقویٰ (اختیار کرنے میں ) ہے۔(معجم الاوسط، من اسمہ علی، ۳ / ۹۲، الحدیث:۳۹۶۰)

انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام   فرشتوں سے  افضل ہیں :

واقعہ آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرشتوں سے افضل ہیں ، اور یہ عقیدہ کئی دلائل سے ثابت ہے،ان میں سے 6 دلائل درج ذیل ہیں :

(1)…حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ بنایا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ ہر شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے بادشاہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے بڑے مرتبے والا وہ شخص ہوتا ہے جو ولایت اور تصرف میں بادشاہ کا قائم مقام ہو۔

(2)…حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرشتوں سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں اور جسے زیادہ علم ہو وہ افضل ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ(زمر: ۹)

ترجمۂ کنزالعرفان:تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟

(3)…اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ حکم دیاکہ وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ کریں ،اس سے معلوم ہوا کہ وہ فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ سجدے میں انتہائی تواضع ہوتی ہے اور کسی کے سامنے انتہائی تواضع وہی کرے گا جو اس سے کم مرتبے والا ہو۔

(4)…اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ‘‘(اٰل عمران: ۳۳)

ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک اللہ نے آدم اور نوح اور ابراہیم کی اولاد اور عمران کی اولاد کو سارے جہان والوں پر چن لیا ۔

اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ  تعالیٰ نے ان انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تمام مخلوقات پر چن لیا اور چونکہ مخلوقات میں فرشتے بھی داخل ہیں اس لئے اِن پر بھی اُن انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چنا گیا لہٰذا وہ فرشتوں سے افضل ہوئے۔

(5)…اللہ  تعالیٰ نے اپنے حبیب  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں ارشاد فرمایا:

’’وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘(انبیاء: ۱۰۷)

ترجمۂ کنزالعرفان:اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔

اور چونکہ عالمین میں فرشتے بھی داخل ہیں اس لئے رسول کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اِن کے لئے بھی رحمت ہوئے اور جب آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ فرشتوں کے لئے رحمت ِ مطلق ہیں تو یقینا ان سے افضل بھی ہیں۔

(6)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میرے دو وزیر آسمانوں میں ہیں اور دو وزیر زمین میں ہیں۔آسمانوں میں میرے دو وزیر حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل عَلَیْہِمَا السَّلَام ہیں اور زمین میں میرے دو وزیر حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاہیں۔(مستدرک، کتاب التفسیر، من سورۃ البقرۃ، ۲ / ۶۵۳-۶۵۴، الحدیث: ۳۱۰۰-۳۱۰۱)

اس حدیث ِپاک سے معلوم ہو اکہ حضور پر نور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بادشاہ کی طرح ہیں اور حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل عَلَیْہِمَا السَّلَام دونوں ان کے وزیروں کی طرح ہیں اور چونکہ بادشاہ وزیر سے افضل ہوتا ہے اس لئے ثابت ہوا کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  فرشتوں سے افضل ہیں۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۱ /  ۴۴۵

••┈┈•••○○❁☘️❁○○•••┈┈••


البقرہ آیت 32

بسم اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(32)


 ترجمۂ کنز الایمان

بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے ۔

 تفسیر صراط الجنان

{لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا: ہمیں صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھادیا۔} حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علمی فضل و کمال کو دیکھ کر فرشتوں نے بارگاہِ الہٰی میں اپنے عِجز کا اعتراف کیا اور اس بات کا اظہار کیا کہ ان کا سوال اعتراض کرنے کیلئے نہ تھا بلکہ حکمت معلوم کرنے کیلئے تھا اور اب انہیں اِنسان کی فضیلت اور اس کی پیدائش کی حکمت معلوم ہوگئی جس کو وہ پہلے نہ جانتے تھے۔اس آیت سے انسان کی شرافت اور علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف تعلیم کی نسبت کرنا صحیح ہے اگرچہ اس کو معلم نہ کہا جائے گا کیونکہ معلم پیشہ ور تعلیم دینے والے کو کہتے ہیں۔


••┈┈•••○○❁☘️❁○○•••┈┈••

سورۃ البقرہ آیت 34-33

بسم اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنْۢبِئْهُمْ بِاَسْمَآىٕهِمْۚ-فَلَمَّاۤ اَنْۢبَاَهُمْ بِاَسْمَآىٕهِمْۙ-قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۙ-وَ اَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ(33)

 ترجمۂ کنز الایمان

فرمایا اے آدم بتادے انہیں سب اشیاء کے نام جب آدم نے انہیں سب کے نام بتادئیے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو ۔

 تفسیر صراط الجنان

{اَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ:میں تمہاری ظاہری و پوشیدہ باتوں کو جانتا ہوں۔} فرشتوں نے جو بات ظاہر کی تھی وہ یہ تھی کہ انسان فساد انگیزی اور خون ریزی کرے گا اورجو بات چھپائی تھی وہ یہ تھی کہ خلافت کے مستحق وہ خود ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے زیادہ علم و فضل والی کوئی مخلوق پیدا نہ فرمائے گا۔آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فرشتوں کے علوم و کمالات میں زیادتی ہوتی ہے۔(بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳۳، ۱ / ۲۹۰-۲۹۱)

وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(34)

 ترجمۂ کنز الایمان

اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔

 تفسیر صراط الجنان

{اُسْجُدُوْا لِاٰدَمَ: آدم کو سجدہ کرو۔}اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تمام موجودات کا نمونہ اور عالَم روحانی و جسمانی کا مجموعہ بنایا اور فرشتوں کے لیے حصولِ کمالات کا وسیلہ بنایاتو انہیں حکم فرمایا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام کو سجدہ کریں کیونکہ اس میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی فضیلت کا اعتراف اور اپنے مقولہ’’اَتَجْعَلُ فِیْهَا‘‘ کی معذرت بھی ہے۔ بہرحال تمام فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا گیااور ملائکہ مقربین سمیت تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور تکبر کے طور پر یہ سمجھتا رہا کہ وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے افضل ہے اوراس جیسے انتہائی عبادت گزار، فرشتوں کے استاد اور مقربِ بارگاہِ الٰہی کو سجدہ کا حکم دینا حکمت کے خلاف ہے ۔ اپنے اس باطل عقیدے، حکمِ الٰہی سے انکار اور تعظیم نبی سے تکبر کی وجہ سے وہ کافر ہوگیا۔حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کا واقعہ قرآن پاک کی سات سورتوں میں بیان کیا گیا ہے۔

سجدہ سے متعلق چند شرعی احکام:

          اس آیت میں سجدے کا ذکر ہے اس مناسبت سے یہاں سجدے سے متعلق چند احکام بیان کئے جاتے ہیں :

 (1)… سجدے کی دو قسمیں ہیں : (۱)عبادت کا سجدہ(۲) تعظیم کا سجدہ۔ ’’عبادت کا سجدہ‘‘ کسی کو معبود سمجھ کر کیا جاتا ہے اور’’ تعظیم کا سجدہ‘‘ وہ ہوتا ہے جس سے مسجود(یعنی جسے سجدہ کیا جائے اس) کی تعظیم مقصود ہوتی ہے ۔

(2)…یہ قطعی عقیدہ ہے کہ’’ سجدۂ عبادت‘‘ اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے کسی اور کے لیے نہیں ہوسکتا اورنہ کسی شریعت میں کبھی جائز ہوا۔

(3)… فرشتوں نے حضرت آدم  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تعظیمی سجدہ کیا تھا اور وہ باقاعدہ پیشانی زمین پر رکھنے کی صورت میں تھا ،صرف سر جھکانا نہ تھا۔

(4)… تعظیمی سجدہ پہلی شریعتوں میں جائز تھا ہماری شریعت میں منسوخ کردیاگیا اب کسی کے لیے جائز نہیں ہے۔ لہٰذا کسی پیر یا ولی یا مزار کو تعظیمی سجدہ کرنا حرام ہے لیکن یہ یاد رہے کہ تعظیمی سجدہ کرنے والوں پر یہ بہتان باندھنا کہ یہ معبود سمجھ کر سجدہ کرتے ہیں یہ اس تعظیمی سجدہ سے بڑا جرم ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کو مشرک و کافر کہنا ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ نے غیرُاللہ  کو تعظیمی سجدہ کرنے کے حرام ہونے پر ایک عظیم کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے: ’’اَلزُّبْدَۃُ الزَّکِیَّہْ فِیْ تَحْرِیْمِ سُجُوْدِ التَّحِیَّہْ(غیرُ اللہ کیلئے سجدۂ تعظیمی کے حرام ہونے کا بیان)‘‘یہ کتاب فتاویٰ رضویہ کی 22ویں جلد میں موجود ہے اور اس کا مطالعہ کرنا انتہائی مفید ہے۔

تکبر کی مذمت:

           اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ تکبرایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض اوقات بندے کوکفر تک پہنچا دیتا ہے،اس لئے ہر مسلمان کو چاہے کہ و ہ تکبر کرنے سے بچے ۔حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔‘‘(مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص۶۱، الحدیث: ۱۴۷(۹۱))

            حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے  روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تکبر سے بچتے رہو کیونکہ اسی تکبر نے شیطان کو اس بات پر ابھارا تھا کہ وہ حضرت آد م عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ نہ کرے۔(ابن عساکر، حرف القاف، ذکر من اسمہ قابیل، ۴۹ / ۴۰)

            حضرت سلمہ بن اکوع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’آدمی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اپنی ذات کو بلند سمجھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے تکبر کرنے والوں میں لکھ دیاجاتا ہے،پھر اسے وہی عذاب پہنچے گا جو تکبر کرنے والوں کو پہنچا۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی الکبر، ۳ / ۴۰۳، الحدیث: ۲۰۰۷)

نوٹ :

آج 2 آیتیں شامل کی گئی ہیں 

جب بھی ایک آیت کا ترجمہ و تفسیر

کی تحریر چھوٹی ہوگی اس کے ساتھ ایک اور آیت شامل کر دی جائے گی ان شاءاللہ

••┈┈•••○○❁☘️❁○○•••┈┈••


سورۃ البقرہ آیت 36-35

بسم اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا۪-وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(35)فَاَزَلَّهُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِیْهِ۪-وَ قُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۚ-وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ(36)


 ترجمۂ کنز الایمان

اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بی بی اس جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے ۔تو شیطان نے جنت سے انہیں لغزش دی اور جہاں رہتے تھے وہاں سے انہیں الگ کردیا اور ہم نے فرمایا نیچے اترو آپس میں ایک تمہارا دوسرے کا دشمن اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے ۔

 تفسیر صراط الجنان

{یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ:اے آدم!تم اورتمہاری بیوی جنت میں رہو۔} یہاں سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام اور ابلیس کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  اور ابلیس کے واقعے کا خلاصہ:

حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان مردود ہوا تھا لہٰذا وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اورحضرت حوا  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاسے فرمایا کہ جنت میں رہو اور جہاں دل کرے بے روک ٹوک کھاؤالبتہ اِس درخت کے قریب نہ جانا۔ شیطان نے انہیں وسوسہ ڈالا اورکہنے لگا کہ تمہیں تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے اس درخت سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ بن جاؤاوراس کے ساتھ شیطان نے قسم کھاکر کہا کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ اس پر انہیں خیال ہوا کہ اللہ پاک کی جھوٹی قسم کون کھا سکتا ہے ، اس خیال سے حضرت حوا  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہانے اس میں سے کچھ کھایا پھر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیا توانہوں نے بھی کھالیا اور یہ خیال کیا کہ اللہ  تعالیٰ کی ممانعت تحریمی نہ تھی بلکہ تنزیہی تھی یعنی حرام قرار دینے کیلئے نہ تھی بلکہ ایک ناپسندیدگی کا اظہار تھا ۔یہاں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اجتہاد میں خطا ہوئی اور خطائے اجتہادی گناہ نہیں ہوتی۔ چنانچہ شیطان کے دھوکے کی وجہ سے انہوں نے اس ممنوعہ درخت کا پھل کھالیا اور پھل کھاتے ہی ان کے پردے کے مقام بے پردہ ہوگئے اور وہ اسے چھپانے کیلئے ان پر پتے ڈالنے لگے۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟اور میں نے تم سے یہ نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟ اس کے بعد حکمِ الٰہی ہوا کہ تم زمین پر اترجاؤ۔ اب تمہاری اولادآپس میں ایک دوسرے کی دشمن ہوگی اور تم ایک خاص وقت تک زمین میں رہوگے۔زمین پر تشریف آوری کے بعد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام ایک عرصے تک اپنی لغزش کی معافی مانگتے رہے حتیّٰ کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کواللہ تعالیٰ کی طرف سے چند کلمات سکھائے گئے،پھر جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کلمات کے ساتھ توبہ و معافی کی درخواست کی تو وہ قبول ہوئی۔

ایک اہم مسئلہ:

یہاں ایک اہم مسئلہ یاد رکھنا ضروری ہے کیونکہ آج کل بیباکی کا دور ہے اور جس کا جو جی چاہتا ہے بول دیتا ہے یہاں تک کہ مذہبی معاملات میں اور اہم عقائد میں بھی زبان کی بے احتیاطیاں شمار سے باہر ہیں ، اس میں سب سے زیادہ بے باکی جس مسئلے میں دیکھنے میں آتی ہے وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا جنتی ممنوعہ درخت سے پھل کھانا ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :غیرِتِلاوت میں اپنی طرف سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف نافرمانی وگناہ کی نسبت حرام ہے۔ ائمۂ دین  نے اس کی تصریح فرمائی بلکہ ایک جماعت علماءے کرام نے اسے کفر بتایا (ہے)۔ (فتاوی رضویہ، ۱ / ۸۲۳)لہٰذااپنے ایمان اور قبرو آخرت پر ترس کھاتے ہوئے اِن معاملات میں خاص طور پر اپنی زبان پر قابو رکھیں۔

{وَ لَا تَقْرَبَا: اور قریب نہ جانا۔} آیت میں اصل ممانعت درخت کا پھل کھانے کی ہے لیکن اس کیلئے فرمایا کہ قریب نہ جانا۔ اس طرزِ خطاب سے علماء نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اصل فعل کے ارتکاب سے بچانے کیلئے اس کے قریب جانے سے بھی روکنا چاہیے جیسے بچے کے سیڑھیوں سے گرنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو اسے صرف سیڑھیوں پر کھڑا ہونے سے منع نہیں کرتے بلکہ سیڑھیوں کے قریب بھی نہیں جانے دیتے۔ اسی طرح بیسیوں کاموں میں علماء کرام اسی اندیشے سے منع فرماتے ہیں کہ کوئی فعل بذاتِ خود منع نہیں ہوتا لیکن اگر لوگ اس کے قریب جائیں گے تو ممنوع کا ارتکاب کربیٹھیں گے جیسے عورتوں کو قبرستان جانے سے منع کرنے میں یہی حکمت ہے۔ اسی سے پیر اور مشائخ کے فعل کا استدلال ہوسکتا ہے کہ وہ مریدوں کی تربیت کیلئے بعض اوقات کسی جائز کام سے بھی روک دیتے ہیں کیونکہ وہ جائز کام کسی برائی تک پہنچنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ 

{فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ:ورنہ تم زیادتی کرنے والوں سے ہوجاؤ گے۔}’’ظلم ‘‘کا معنیٰ ہے’’ کسی شے کواس کی اپنی جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ رکھنا‘‘ اور یہاں آیت میں ظلم خلافِ اَولیٰ کے معنی میں ہے۔

انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام کو ظالم کہنے والے کا حکم :

یاد رہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ظالم کہنا گستاخی اورتوہین ہے اورجو انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ظالم کہے وہ کافر ہے ۔ اللہ تعالیٰ مالک اور مولیٰ ہے، وہ اپنے مقبول بندوں کے بارے میں جو چاہے فرمائے ،کسی دوسرے کی کیا مجال کہ وہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے متعلق کوئی خلافِ ادب کلمہ زبان پر لائے اور اللہ تعالیٰ کے اس طرح کے خطابات کو اپنی جرأت و بیباکی کی دلیل بنائے۔اس بات کویوں سمجھیں کہ بادشاہ کے ماں باپ بادشاہ کو ڈانٹیں اور یہ دیکھ کر شاہی محل کا جمعدار بھی بادشاہ کو انہی الفاظ میں ڈانٹنے لگے تو اس احمق کا کیا انجام ہوگا؟ ہمیں تو انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور محبوبانِ خدا کی تعظیم و توقیر اور ادب و اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور ہم پر یہی لازم ہے۔

 انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام کی عصمت کا بیان:

یہ بھی یاد رہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم ہوتے ہیں اوران سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا،ان کے معصوم ہونے پربیسیوں دلائل ہیں۔ یہاں پر صرف 3 دلائل درج کئے جاتے ہیں۔

(1)…انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے اور مخلص بندے ہیں ،جیساکہ اللہ  تعالیٰ نے حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں واضح طور پر ارشاد فرمایا:

اِنَّاۤ اَخْلَصْنٰهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ(ص: ۴۶)

ترجمۂ کنزالعرفان:

بیشک ہم نے انہیں ایک کھری بات سے چن لیا وہ اس(آخرت کے) گھر کی یاد ہے۔


اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں ارشاد فرمایا:


’’اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ‘‘(یوسف: ۲۴)


ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے ہے ۔

اور جو اللہ  تعالیٰ کے مخلص بندے ہیں شیطان انہیں گمراہ نہیں کر سکتا، جیسا کہ اس کا یہ اعتراف خود قرآن مجید میں موجود ہے:

’’ قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ(۸۲) اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ‘‘(ص: ۸۲-۸۳)

ترجمۂ کنزالعرفان:اس نے کہا: تیری عزت کی قسم ضرور میں ان سب کو گمراہ کردوں گا۔مگر جو ان میں تیرے چنے ہوئے بندے ہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر شیطان کا داؤ نہیں چلتا کہ وہ ان سے گناہ یا کفر کرا دے۔

(2)…گناہ کرنے والا مذمت کئے جانے کے لائق ہے ،جبکہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مطلقاً ارشاد فرما دیاکہ

’’وَ اِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیَارِ‘‘(ص: ۴۷)

ترجمۂ کنزالعرفان:اور بیشک وہ ہمارے نزدیک بہترین چُنے ہوئے بندوں میں سے ہیں۔

(3)…انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرشتوں سے افضل ہیں اور جب فرشتوں سے گناہ صادر نہیں ہوتا تو ضروری ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بھی گناہ صادر نہ ہوکیونکہ اگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بھی گناہ صادر ہو تو وہ فرشتوں سے افضل نہیں رہیں گے۔

••┈┈•••○○❁☘️❁○○•••┈┈••

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url