صراط الجنان فی تفسیر القرآن ( آیت 42 تا 47 )
سورہ البقرہ آیت 42
وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(42)
ترجمۂ کنز الایمان
اور حق سے باطل کو نہ ملاؤ اور دیدہ و دانستہ حق نہ چھپاؤ۔
تفسیر صراط الجنان
{وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ: اور حق کو باطل سے نہ ملاؤ۔} یہودی علماء نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و نبوت سے متعلق تورات کی آیتیں چھپاتے بھی تھے اور کبھی کچھ بیان کرتے تو ان کے ساتھ اپنی طرف سے کچھ باطل باتیں بھی ملادیا کرتے تھے مثلا اپنے پیروکاروں سے کہتے کہ محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نبی تو ہیں لیکن ہمارے لئے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے ہیں۔یہودی علماء نے اس طرح کی کئی باتیں گھڑی ہوئی تھیں جن کے ذریعے وہ جان بوجھ کر حق چھپانے اور حق و باطل کو ملا کر دھوکہ دینے کے طریقے اختیار کئے ہوئے تھے ۔علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کو چاہئے کہ وہ حق کو باطل سے نہ ملائے اور نہ ہی حق کو چھپائے کیونکہ اس میں فساد اور نقصان ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حق بات جاننے والے پر اسے ظاہر کرنا واجب ہے اور حق بات کو چھپانا ا س پر حرام ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۱ / ۴۹)
••┈┈•••○○❁☘️❁○○•••┈┈••
سورۃ البقرہ آیت 43
بسم اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(43)
ترجمۂ کنز الایمان
اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو ۔
تفسیر صراط الجنان
{وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ: اور نماز قائم رکھو۔}اس سے پہلی آیات میں یہودیوں کو ایمان لانے کا حکم دیا گیا،پھر انہیں حق کو باطل کے ساتھ ملانے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت کے دلائل چھپانے سے منع کیا گیا ،اب ان کے سامنے وہ شرعی احکام بیان کئے جا رہے ہیں جو ایمان قبول کرنے کے بعد ان پر لازم ہیں ، چنانچہ فرمایا گیا کہ اے یہودیو! تم ایمان قبول کرکے مسلمانوں کی طرح پانچ نمازیں ان کے حقوق اورشرائط کے ساتھ ادا کرو اور جس طرح مسلمان اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اسی طرح تم بھی اپنے مالوں کی زکوٰۃ دواور میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہم کے ساتھ با جماعت نماز ادا کرو۔(تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۳، ۱ / ۴۸۵، روح البیان، البقرۃ،تحت الآیۃ: ۴۳،۱ / ۱۲۱، خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۱ / ۴۹، ملتقطاً)
باجماعت نماز ادا کرنے کی اہمیت اور فضائل:
اس آیت میں جماعت کے ساتھ نماز اداکرنے کی ترغیب بھی ہے اور احادیث میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے کثیر فضائل بیان کئے گئے ہیں ،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔(بخاری،کتاب الاذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ،۱ / ۲۳۲، الحدیث: ۶۴۵)
حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے غلام حضرت حمران رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض نماز کے لیے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔‘‘(شعب الایمان، باب العشرون من شعب الایمان وہو باب فی الطہارۃ، ۳ / ۹، الحدیث: ۲۷۲۷)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو اچھی طرح وضو کرکے مسجد کو جائے اورلوگوں کو اس حالت میں پائے کہ وہ نماز پڑھ چکے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے بھی جماعت سے نمازپڑھنے والوں کی مثل ثواب دے گا اور اُن کے ثواب سے کچھ کم نہ ہوگا۔(ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب فیمن خرج یرید الصلاۃ فسبق بھا، ۱ / ۲۳۴، الحدیث: ۵۶۴)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ منافقین پر سب سے زیادہ بھاری عشا اور فجر کی نماز ہے اور وہ جانتے کہ اس میں کیا ہے؟ تو گھسٹتے ہوئے آتے اور بیشک میں نے ارادہ کیا کہ نماز قائم کرنے کا حکم دوں پھر کسی کو حکم فرماؤں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں اپنے ہمراہ کچھ لوگوں کو جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں ان کے پاس لے کر جاؤں ، جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھر اُن پر آگ سے جلا دوں۔(مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ۔۔۔ الخ، ص۳۲۷، الحدیث: ۲۵۲(۶۵۱))
بزرگانِ دین کے نزدیک باجماعت نماز اداء کرنے کی اہمیت کس قدر تھی اس کا اندازہ ان دو حکایات سے لگایا جا سکتا ہے:
(1)…حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ’’حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے ایک باغ کی طرف تشریف لے گئے، جب واپس ہوئے تو لوگ نمازِ عصر ادا کر چکے تھے ،یہ دیکھ کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ پڑھا اور ارشاد فرمایا :’’میری عصر کی جماعت فوت ہو گئی ہے، لہٰذا میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میرا باغ مساکین پر صدقہ ہے تاکہ یہ اس کام کا کفارہ ہو جائے۔(الزواجرعن اقتراف الکبائر، باب صلاۃ الجماعۃ، الکبیرۃ الخامسۃوالثمانون،۱ / ۳۱۱)
(2)…حضرت حاتم اَصم رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’ایک مرتبہ میری با جماعت نماز فوت ہو گئی تو حضرت ابو اسحاق بخاری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے علاوہ کسی نے میری تعزیت نہ کی اور اگر میرا بچہ فوت ہو جاتا تودس ہزار ( 10,000) سے زیادہ افراد مجھ سے تعزیت کرتے کیونکہ لوگوں کے نزدیک دینی نقصان دنیوی نقصان سے کم تر ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب اسرارالصلاۃ ومہماتھا، الباب الاول فی فضائل الصلاۃ والسجود۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۰۳)
••┈┈•••○○❁☘️❁○○•••┈┈••
سورۃ البقرہ آیت 44
بسم اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(44)
ترجمۂ کنز الایمان
کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں ۔
تفسیر صراط الجنان
{اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ:کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو؟}یہ آیت مبارکہ ان یہودی علماء کے بارے میں ہے جن سے ان کے مسلمان رشتہ داروں نے دینِ اسلام کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا: تم اس دین پر قائم رہو، محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا دین حق اور کلام سچا ہے ۔ یاان یہودیوں کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے مشرکینِ عرب کو حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مبعوث ہونے کی خبر دی تھی اور حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کرنے کی ہدایت کی تھی ،پھر جب حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مبعوث ہوئے تو یہ ہدایت کرنے والے حسد سے خود کافر ہوگئے تو انہیں فرمایا گیا کہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھلاتے ہو۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۱ / ۵۰)یاد رہے کہ اس آیت کا شانِ نزول خاص ہونے کے باوجود حکم عام ہے اور ہر نیکی کا حکم دینے والے کیلئے اس میں تازیانہ عبرت ہے ۔
قول و فعل کے تضاد کا نقصان:
یہاں ایک بات ذہن نشین رکھیں کہ معمولی فساد اس وقت بہت بڑے فتنے اور تباہی کی شکل اختیار کرلیتا ہے جب اس کا ارتکاب کرنے والے خود وہ لوگ ہوں جو دوسروں کوتو بھلائی کا حکم دیتے ہوں لیکن جب ان کے عمل سے پردہ اُٹھے تو معلوم ہو کہ گناہوں کے سب سے بڑے مریض یہی ہیں ،انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ قول و فعل کا تضاد اور خلوت و جلوت کا فرق دنیا و آخرت دونوں لئے بہت نقصان دہ ہے ،دنیا میں تو یہ اس قدر نقصان دہ ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی کے متعلق یہ تضاد ثابت ہوجائے تو لوگ زندگی بھر اسے منہ لگانا پسند نہیں کرتے بلکہ ایسوں کے عمل کو دیکھ کر نجانے کتنے لوگ ہمیشہ کیلئے دین ہی سے متنفر ہوجاتے ہیں ،اور آخرت میں ا س کا نقصان کتنا زیادہ ہے اس کا اندازہ اس روایت اور حکایت سے خود ہی لگا لیجئے ،چنانچہ
حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا ’’قیامت کے دن کچھ لوگوں کو جنت کی طرف لے جانے کا حکم ہو گا، یہاں تک کہ جب وہ جنت کے قریب پہنچ کر اس کی خوشبو سونگھیں گے ، اس کے محلات اور ا س میں اہل جنت کے لئے اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ نعمتیں دیکھ لیں گے، تو ندا دی جائے گی :انہیں جنت سے لوٹا دو کیونکہ ان کا جنت میں کوئی حصہ نہیں۔ (یہ ندا سن کر) وہ ایسی حسرت کے ساتھ لوٹیں گے کہ اس جیسی حسرت کے ساتھ ان سے پہلے لوگ نہ لوٹیں ہوں گے، پھر وہ عرض کریں گے :’’یارب عَزَّوَجَلَّ! اگر تو اپنا ثواب اور اپنے اولیاء کے لئے تیار کردہ نعمتیں دکھانے سے پہلے ہی ہمیں جہنم میں داخل کر دیتا تو یہ ہم پر زیادہ آسان ہوتا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ’’ میں نے ارادۃً تمہارے ساتھ ایسا کیا ہے(اور ا س کی وجہ یہ ہے کہ ) جب تم تنہائی میں ہوتے تو بڑے بڑے گناہ کر کے میرے ساتھ اعلانِ جنگ کرتے اور جب لوگوں سے ملتے تو عاجزی و انکساری کے ساتھ ملتے تھے، تم لوگوں کو اپنی وہ حالت دکھاتے تھے جو تمہارے دلوں میں میرے لئے نہیں ہوتی تھی، تم لوگوں سے ڈرتے اور مجھ سے نہیں ڈرتے تھے، تم لوگوں کی عزت کرتے اور میری عزت نہ کرتے تھے،تم لوگوں کی وجہ سے برا کام کرنا چھوڑ دیتے لیکن میری وجہ سے برائی نہ چھوڑتے تھے، آج میں تمہیں اپنے ثواب سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عذاب کا مزہ بھی چکھاؤں گا۔(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۱۳۵-۱۳۶، الحدیث: ۵۴۷۸)
اورحضرت ابراہیم تیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میں موت اور( مرنے کے بعد ہڈیوں کی ) بوسیدگی کو یادکرنے کے لئے کثرت سے قبرستان میں آتا جاتاتھا، ایک رات میں قبرستان میں تھا کہ مجھ پر نیند غالب آگئی اور میں سو گیا تو میں نے خواب میں ایک کھلی ہوئی قبر دیکھی اور ایک کہنے والے کو یہ کہتے ہوئے سنا ’’یہ زنجیر پکڑو اور اس کے منہ میں داخل کر کے اس کی شرمگاہ سے نکالو۔ تو وہ مردہ کہنے لگا: ’’یا رب عَزَّوَجَلَّ! کیا میں نے قرآن نہیں پڑھا ؟ کیا میں نے تیرے حرمت والے گھر کاحج نہیں کیا؟ پھر وہ اسی طرح ایک کے بعد دوسری نیکی گنوانے لگا تو میں نے سنا ’’تو لوگوں کے سامنے یہ اعمال کیاکرتا تھا لیکن جب توتنہائی میں ہوتا تو نافرمانیوں کے ذریعے مجھ سے مقابلہ کرتا اور تم نے میرا کچھ خیال نہ کیا۔(الزواجر عن اقتراف الکبائر، خاتمۃ فی التحذیر من جملۃ المعاصی۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۱ )
بے عمل بھی نیکی کی دعوت دے:
یاد رہے کہ اس آیت کی مراد وعظ و نصیحت کرنے والوں کو تقویٰ و پرہیزگاری پر ابھارنا ہے ، بے عمل کو وعظ سے منع کرنا مقصود نہیں ، یعنی یہ فرمایا ہے کہ جب دوسروں کو وعظ و نصیحت کرتے ہو تو خود بھی عمل کرو، یہ نہیں فرمایا کہ جب عمل نہیں کرتے تو وعظ و نصیحت کیوں کرتے ہو؟ کیونکہ عمل کرنا ایک واجب ہے اور دوسروں کو برائی سے روکنا دوسرا واجب ہے ۔ اگر ایک واجب پر عمل نہیں تو دوسرے سے کیوں رُکا جائے۔ (بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۱ / ۳۱۶)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،ہم نے عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم اس وقت تک (دوسروں کو) نیک اعمال کرنے کی دعوت نہ دیں جب تک ہم خود تمام نیک اعمال نہ کرنے لگ جائیں اور ہم اس وقت تک(لوگوں کو)برے کاموں سے منع نہ کریں جب تک ہم خود تمام برے کاموں سے رک نہ جائیں ؟ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’(ایسا نہ کرو) بلکہ تم نیک اعمال کرنے کاحکم دو اگرچہ تم خود تمام نیک اعمال نہیں کرتے اور برے اعمال کرنے سے منع کرو اگرچہ تم تمام برے اعمال سے باز نہیں آئے۔(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد،۵ / ۷۷، الحدیث: ۶۶۲۸)
••┈┈•••○○❁☘️❁○○•••بتادیا۔
البقرہ آیت 45_46
بسم اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔۔۔۔
وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَ(45)الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ اَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ(46)
ترجمۂ کنز الایمان
اور صبر اور نماز سے مدد چاہو اور بیشک نماز ضرور بھاری ہے مگر ان پر جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں ۔جنہیں یقین ہے کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف پھرنا ۔
تفسیر صراط الجنان
{وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ:اور صبر اور نماز سے مددحاصل کرو۔}اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اس سے پہلی آیات میں بنی اسرائیل کوسید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے ،ان کی شریعت پر عمل کرنے ،سرداری ترک کرنے اور منصب و مال کی محبت دل سے نکال دینے کا حکم دیا گیا اور ا س آیت میں ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اے بنی اسرائیل! اپنے نفس کو لذتوں سے روکنے کے لئے صبر سے مدد چاہو اور اگر صبر کے ساتھ ساتھ نماز سے بھی مدد حاصل کرو تو سرداری اورمنصب و مال کی محبت دل سے نکالنا تمہارے لئے آسان ہو جائے گا، بیشک نماز ضرور بھاری ہے البتہ ان لوگوں پر بھاری نہیں جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اے مسلمانو! تم رضائے الٰہی کے حصول اور اپنی حاجتوں کی تکمیل میں صبر اور نماز سے مدد چاہو۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ۱ / ۵۰)
سبحان اللہ! کیا پاکیزہ تعلیم ہے۔ صبر کی وجہ سے قلبی قوت میں اضافہ ہے اور نماز کی برکت سے اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے اور یہ دونوں چیزیں پریشانیوں کو برداشت کرنے اور انہیں دور کرنے میں سب سے بڑی معاون ہیں۔
{اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَ: بیشک نماز ضرور بھاری ہے مگر ان پر جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں۔} آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ گناہوں اور خواہشات سے بھرے ہوئے دلوں پر نماز بہت بوجھل ہوتی ہے اور عشق و محبت ِ الہٰی سے لبریز اور خوفِ خدا سے جھکے ہوئے دلوں پر نماز بوجھ نہیں بلکہ نماز ان کیلئے لذت و سرور اور روحانی و قلبی معراج کا سبب بنتی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ملاقات پر یقین رکھتے ہیں اور اُس مولیٰ کریم کے دیدار کی تڑپ رکھتے ہیں۔
اس میں بشارت ہے کہ آخرت میں مؤمنین کو دیدار الٰہی کی نعمت نصیب ہو گی،نیزاللہ تعالیٰ سے ملاقات اور اس کی طرف رجوع میں ترغیب و ترہیب دونوں ہیں اور ان دونوں کو پیشِ نظر رکھنا نماز میں خشوع پیدا ہونے کا ذریعہ ہے، گویا نماز میں خشوع و خضوع قائم رکھنے کا حکم بھی دیا اور اس کے حصول کا طریقہ بھی بتادیا۔
••┈┈•••○○❁☘️❁○○•••┈┈••
البقرہ آیت 47
بسم اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(47)
ترجمۂ کنز الایمان
اے اولادِیعقوب یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ اس سارے زمانہ پر تمہیں بڑائی دی ۔
تفسیر صراط الجنان
{یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ:اے یعقوب کی اولاد! میرا احسان یاد کرو۔}یہاں سے ایک بار پھر بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد کرنے کاحکم دیا گیا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت ترک کرنے سے ڈریں اور ان پر حجت پوری ہو جائے۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ۱ / ۵۰)
یاد رہے کہ ان آیات میں بنی اسرائیل کے ان لوگوں سے خطاب کیاجا رہا ہے جو سید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقدس زمانے میں موجود تھے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں یاد کرنے کا حکم دیاجارہا ہے وہ یہ ہیں :
(1)…تمام اہلِ زمانہ پر فضیلت و برتری،(2)…دریامیں راستہ بن جانا،(3)…فرعون سے نجات، (4) … تورات کا عطا ہونا، (5)…بچھڑے کی پوجا پر معافی مل جانا، (6)…ایک گروہ کا مرنے کے بعد زندہ کیا جانا، (7)…بادلوں سے سایہ ملنا، (8)…مَن و سَلویٰ نازل ہونا، (9)…پانی کے بارہ چشمے جاری ہوجانا، (10)…زمینی اناج عطا کیا جانا وغیرہ، یہ تمام نعمتیں ان کے آباؤ اجداد کو عطا کی گئی تھیں اور چونکہ جو نعمت آباؤ اجداد کو ملی ہو وہ ان کی اولاد کے حق میں بھی نعمت ہوتی ہے ا س لئے ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اے یعقوب کی اولاد! میرا وہ احسان یاد کروجو میں نے تم پر کیا اور میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی پیروی کر کے اور ان کے دین میں داخل ہو کر میری ان نعمتوں کا شکر ادا کرو۔‘‘ بنی اسرائیل کی نعمتوں کو سامنے رکھ کر امت ِ محمدیہ پر ہونے والے انعامات کو شمار کریں توہم سمجھ سکتے ہیں کہ شکرگزاری کا تقاضا ہم سے کس قدر مطلوب ہے۔
{اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ:میں نے تمہیں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔}اس سے مراد یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام لوگوں پر فضیلت عطا کی گئی ،اور جب حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی آمد ہوئی تو یہ فضیلت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کی طرف منتقل ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کو سب امتوں سے افضل بنا دیاجیسا کہ ارشاد فرمایا:
’’كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ‘‘ (اٰل عمران: ۱۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:(اے مسلمانو!)تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت )کے لئے ظاہر کی گئی۔
••┈┈•••○○❁☘️❁○○•••┈┈••