Visit Our Official Web صراط الجنان فی تفسیر القران( سورہ البقرہ) Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

صراط الجنان فی تفسیر القران( سورہ البقرہ)


 سورۃ البقرہ آیت 37

بسم اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(37)

 ترجمۂ کنز الایمان

پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔

 تفسیر صراط الجنان

{فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ: پھر آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھ لئے۔ }حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کئے:

 رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ

’’اے ہمارے رب !ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تُو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘

اور اس کے ساتھ یہ روایت بھی ہے جوحضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،نبیٔ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  سے اجتہادی خطا ہوئی تو(عرصۂ دراز تک حیران و پریشان رہنے کے بعد )انہوں نے بارگاہِ الہٰی میں عرض کی: اے میرے رب!عَزَّوَجَلَّ، مجھے محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے میں معاف فرمادے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تم نے محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)کو کیسے پہچانا حالانکہ ابھی تو میں نے اسے پیدا بھی نہیں کیا؟حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی: اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! جب تو نے مجھے پیدا کر کے میرے اندر روح ڈالی اور میں نے اپنے سر کو اٹھایا تو میں نے عرش کے پایوں پر ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘لکھا دیکھا،تو میں نے جان لیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ اس کا نام ملایا ہے جو تجھے تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تو نے سچ کہا، بیشک وہ تمام مخلوق میں میری بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔ تم اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کرو میں تمہیں معاف کردوں گا اور اگر محمد(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا۔(مستدرک،ومن کتاب آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم التی فی دلائل النبوۃ، استغفارآدم علیہ السلام بحق محمدصلی اللہ علیہ وسلم،۳ / ۵۱۷، الحدیث:۴۲۸۶، معجم الاوسط، من اسمہ محمد،۵ / ۳۶، الحدیث: ۶۵۰۲، دلائل النبوۃ للبیہقی، جماع ابواب غزوۃ تبوک، باب ماجاء فی تحدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، ۶ / ۴۸۹)

بارگاہِ الہٰی کے مقبول بندوں کے وسیلے سے دعا مانگنا جائز ہے:

            اس روایت سے یہ بھی ثابت ہے کہ مقبولان بارگاہ کے وسیلہ سے ،بَحق فلاں اور بَجاہ ِ فلاں کے الفاظ سے دعا مانگنا جائز اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔یہ یاد رہے کہ اللہ  تعالیٰ پر کسی کا حق واجب نہیں ہوتا لیکن وہ اپنے مقبولوں کو اپنے فضل و کرم سے حق دیتا ہے اور اسی فضل و کرم والے حق کے وسیلہ سے دعا کی جاتی ہے ۔ اس طرح کا حق صحیح احادیث سے ثابت ہے جیسے بخاری میں ہے ’’مَنْ اٰمَنَ بِاﷲِ وَبِرَسُوْلِہٖ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ کَانَ حَقًّاعَلَی اﷲِ اَنْ یُّدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ‘‘جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھے اور نماز قائم کرے اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے۔(بخاری،کتاب الجھادوالسیر، باب درجات المجاھدین فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۵۰، الحدیث: ۲۷۹۰)

توبہ کا مفہوم اور اس کے ارکان:

آیت میں توبہ کا لفظ ہے ۔ یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ کیلئے آئے تو اس کا معنیٰ اللہ تعالیٰ کا اپنی رحمت کے ساتھ بندے پر رجوع کرنا ہے یا بندے کی توبہ قبول کرنا ہے اور یہ لفظ جب بندے کیلئے آئے تو دوسرے مفہوم میں ہے ۔توبہ کا اصل مفہوم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ہے۔ امام نووی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام کا خلاصہ ہے کہ توبہ کی تین شرائط ہیں : (۱) گناہ سے رک جانا ،(۲) گناہ پر شرمندہ ہونا، (۳) گناہ کو چھوڑ دینے کا پختہ ارادہ کرنا۔ اگر گناہ کی تلافی اور تدارک ہو سکتا ہو تو وہ بھی ضروری ہے۔(ریاض الصالحین، باب التوبۃ، ص۵)

جیسے اگر کسی نے نماز یں چھوڑی ہوں تواس کی توبہ کیلئے پچھلی نمازوں کی قضا پڑھنا بھی ضروری ہے ۔ یونہی کسی نے دوسرے کا مال چوری یا غصب یا رشوت کے طور پر لیا ہے تو توبہ کیلئے مال واپس کرنا بھی ضروری ہے۔

••┈┈•••○○❁☘️❁○○•••┈┈••

سورۃ البقرہ آیت 38,39,40


بسم اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًاۚ-فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى فَمَنْ تَبِـعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(38)وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(39)

 ترجمۂ کنز الایمان

ہم نے فرمایا تم سب جنت سے اتر جاؤ پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کا پیرو ہوا اسے نہ کوئی اندیشہ نہ کچھ غم۔اور وہ جو کفر کریں اور میری آیتیں جھٹلائیں گے وہ دوزخ والے ہیں ان کو ہمیشہ اس میں رہنا۔

 تفسیر صراط الجنان

{فَمَنْ تَبِـعَ هُدَایَ:توجو میری ہدایت کی پیروی کریں۔}ہدایت ِ الہٰی کے پیروکاروں کیلئے بشارت ہے کہ انہیں نہ تو قیامت کی بڑی گھبراہٹ کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے بلکہ بے غم جنت میں داخل ہوں گے۔ یہاں جمع کے صیغے کے ساتھ سب کو اترنے کا فرمایا ، اس میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حواء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے ساتھ ان کی اولاد بھی مراد ہے جوابھی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کی پشت میں تھی۔

یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْۚ-وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ(40)

 ترجمۂ کنز الایمان

اے یعقوب کی اولاد یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا اور میرا عہد پورا کرو میں تمہارا عہد پورا کروں گا اور خاص میرا ہی ڈر رکھو ۔

 تفسیر صراط الجنان

{یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ:اے بنی اسرائیل۔} ’’اسراء‘‘ کا معنیٰ ’’عبد‘‘ یعنی بندہ اور ’’اِیل ‘‘سے مراد ’’اللہ‘‘ تو اسرائیل کا معنیٰ ہوا ’’عبداللہ‘‘یعنی اللہ کا بندہ ۔ یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے اور حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا لقب ہے۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰، ص۴۸)

عروج و زوال اور عزت و ذلت کا فلسفہ:

             یہاں آیت نمبر 40سے لے کرآیت نمبر150تک کی اکثر آیات میں بنی اسرائیل کے عروج وزوال، عزت و ذلت، اِقبال و اِدبار، جزا و سزااورقومی و اجتماعی اچھے برے کردار کا تذکرہ ہے۔ پھر اسی بیان کو قرآن پاک میں باربار دہرایا گیا ہے۔ اس باربار کے تکرار میں ایک بڑی حکمت قوموں کے عروج و زوال اور عزت و ذلت کا فلسفہ سمجھانااور مسلمانوں کو اس سے عبرت دلانا ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل پیغمبروں کی اولاد ہونے، جلیل القدر انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی امت ہونے اور تورات جیسی کتاب رکھنے کے باوجود اپنے اعتقادوعمل کے بگاڑ پر ذلیل و رسوا اور مغلوب و مقہور ہوئی جبکہ توبہ و رجوع اور نبی و کتاب کی تعلیمات پر عمل کرنے کی صورت میں معزز و غالب ہوئی اسی طرح امت ِ مسلمہ بھی اپنے عروج و زوال کے اسباب کو اِسی آئینے میں دیکھ سکتی ہے۔ آج سب پوچھتے ہیں کہ مسلمان مغلوبیت، ذلت اور پستی کا شکار کیوں ہیں ؟ قرآن میں بیان کردہ بنی اسرائیل کا قومی اور اجتماعی کردار اور موجودہ دور کے مسلمانوں کا قومی اور اجتماعی کردار سامنے رکھ کر موازنہ کرلیں۔ خود ہی سمجھ آجائے گا کہ اگر بنی اسرائیل کو کانٹے بونے پر کانٹے ملتے تھے تو ہمیں کانٹے بونے کے بدلے آم کیوں ملیں گے؟

{ اُذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ : میرا احسان یاد کرو۔}اس آیت میں نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے زمانے کے یہودیوں کو مخاطب کر کے ان سے فرمایا گیا : اے بنی اسرائیل! میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تمہارے آباؤ اجداد پر کئے جیسے انہیں فرعون سے نجات دی، ان کیلئے دریا میں گزرگاہ بنادی، بادل کو ان پرسائبان بنادیا، کھانے کیلئے ان پر مَن و سَلْویٰ اتارا،ان کے لئے پانی کے چشمے جاری کئے،انہیں طاقتور قوموں پر فتح عطا فرمائی اور توریت جیسی عظیم کتاب انہیں عطا فرمائی اور میرا وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کیا کہ تمہیں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا زمانہ عطا کیا جن کی آمد کی بشارت تورات اور انجیل میں دی گئی ہے۔(جلالین مع صاوی، البقرۃ، تحت الایۃ:۴۰،۱ / ۵۶-۵۷، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰، ص۴۸، ملتقطاً)

خیال رہے کہ یہاں یاد کرنے سے مرادصرف زبان سے تذکرہ کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے مرادیہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی کرکے ان نعمتوں کا شکر بجالائیں کیونکہ کسی نعمت کا شکر نہ کرنا اس کو بھلادینے کے مترادف ہے۔

{ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْ:اور میرا عہد پورا کرو۔} یعنی اے بنی اسرائیل!تم میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لاکر وہ عہد پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا اور میں اس کے ثواب کے طور پر تمہیں جنت میں داخل کر کے تمہارے ساتھ کیا ہوا عہد پور اکروں گا اور اپنے عہد کو پورا کرنے کے معاملے میں کسی اور سے ڈرنے کی بجائے صرف مجھ سے ڈرو۔‘‘

اس آیت میں جس عہد کاذکر ہے ا س کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ عہد ہے جوسورہ مائدہ میں یوں مذکور ہے:

’’وَ لَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَۚ-وَ بَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًاؕ-وَ قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مَعَكُمْؕ-لَىٕنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّكٰوةَ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَ عَزَّرْتُمُوْهُمْ وَ اَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ لَاُدْخِلَنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۚ-فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ‘‘(مائدہ، آیت: ۱۲)

ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیااور ہم نے ان میں بارہ سردار قائم کیے اور اللہ نے فرمایا: بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اگر تم نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم کرو اور اللہ کو قرض حسن دو توبیشک میں تم سے تمہارے گناہ مٹا دوں گا اور ضرور تمہیں ان باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں تو اس (عہد) کے بعد تم میں سے جس نے کفر کیا تو وہ ضرور سیدھی راہ سے بھٹک گیا۔

دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے وہ عہد مراد ہے جواللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ذریعے بنی اسرائیل سے لیاکہ میں آخری زمانے میں حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں ایک نبی کوبھیجنے والاہوں تو جس نےان کی پیروی کی اور اس نور کی تصدیق کی جسے وہ لے کرآئے تو میں ا س کے گناہ بخش دوں گا اور اسے جنت میں داخل کروں گااور اسے دگنا ثواب عطا کروں گا۔(جلالین،البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰، ص۸-۹،خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰،۱ / ۴۸،ملتقطاً

••┈┈•••○○❁☘️❁○○•••┈┈••


 سورۃ البقرہ آیت 41

بسم اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭ بِهٖ۪-وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا٘-وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ(41)

 ترجمۂ کنز الایمان

اور ایمان لاؤ اس پر جو میں نے اتارا اس کی تصدیق کرتا ہوا جو تمہارے ساتھ ہے اور سب سے پہلے اس کے منکر نہ بنو اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑے دام نہ لو اور مجھی سے ڈرو۔

 تفسیر صراط الجنان

{وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ:اور اس پرایمان لاؤ جسے میں نے نازل کیا ۔} یعنی اے بنی اسرائیل کے علماء! اس  قرآن پر ایمان لاؤ جو میں نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل کیا ہے اور وہ تمہارے پاس موجود کتاب تورات و انجیل کی تصدیق کرتا ہے اور تم اہل کتاب میں سے قرآن مجید اور میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے سب سے اَوّلین منکر نہ بنو ورنہ جو لوگ تمہارے پیچھے لگ کر کفر اختیار کریں گے تو ان کا وبال بھی تم پر ہوگا۔

نیکی اور برائی کی ابتداء کرنے والے کے بارے میں ایک اصول:
            یاد رہے کہ نیکی اور بدی کے ہرکام میں یہی اصول نافذ ہے کہ اس کی ابتداء کرنے والوں کو پیروی کرنے والوں کے عمل کا ثواب یا عذاب بھی ملے گا۔ حضرت جریر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو ا س کے لئے ا س طریقے کو ایجاد کرنے کا ثواب ہو گا اور ا س کے بعد جو لوگ اُ س طریقے پر عمل کریں گے ان کا ثواب بھی اس( ایجاد کرنے والے)کو ملے گا اور ان (عمل کرنے والوں ) کے اپنے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی، اور جس نے اسلام میں برا طریقہ ایجاد کیا تو اُس پر اِس کا گناہ ہو گا اور اِس کے بعد جو لوگ اُس پر عمل کریں گے اُن کا گناہ بھی اِسے ہو گا اور اِن(عمل کرنے والوں ) کے اپنے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔(مسلم، کتاب العلم، باب من سنّ سنّۃ حسنۃ او سیّئۃ۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۷، الحدیث: ۱۵(۱۰۱۷))

{وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا:اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی قیمت وصول نہ کرو۔} اس آیت میں دنیاکے حقیر و ذلیل مال کے بدلے اللہ تعالیٰ کی آیات بیچنے سے منع کیا گیا ہے اوریہاں اُن آیات سے توریت و انجیل کی وہ آیات مراد ہیں جن میں حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اوصاف و علامات کا بیان ہے۔ قرآن پاک کی یہ آیات ان یہودیوں کے متعلق نازل ہوئیں جنہیں اپنی قوم سے نذرانے اور وظائف ملتے تھے اور انہیں ڈر تھا کہ اگر قوم کو معلوم ہوگیا کہ تورات میں محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی یہ نشانیاں بیان کی گئی ہیں تو وہ ان سرداروں کو چھوڑکر محمد مصطفٰی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئیں گے اور یوں ان کے نذرانے بند ہوجائیں گے۔ اسی کو فرمایا جارہا ہے کہ دنیا کے قلیل مال کے بدلے اللہ تعالیٰ کی آیتیں بیچتے ہیں۔

عظمت ِمصطفٰی   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چھپانے والے غور کریں:

            اس آیت اور اس کے بعد والی آیت سے معلوم ہوا کہ یہودی علماء اپنے باطل مفادات، نفسانی خواہشات اور جاہلانہ تَوَہُّمات کی بنا پر اپنی کتابوں میں موجود ان آیات کو چھپاتے تھے جن میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان اور ان کے اوصاف بیان کئے گئے اور اگر کبھی کوئی آیت بیان بھی کی تو اس کے ساتھ بعض باطل باتیں ملا کر بیان کرتے تھے حالانکہ علماء کا منصب توحق بات کا اعلان کرنا، حق اور باطل کو جدا کرنا، مالی و ذاتی مفادات کو دین پر قربان کرنااور دین کا محافظ بننا ہے۔ یہودیوں کے بیان کردہ طرزِ عمل اور علماء کے منصب کو سامنے رکھتے ہوئے ان لوگوں کو اپنی حالت پر غور کرنے کی حاجت ہے جن کا حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان بیان کرنے کے معاملے میں سلسلہ کہیں اور ہی جاکر ملتا ہے ۔

••┈┈•••○○❁☘️❁○○•••┈┈••

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url