Visit Our Official Web نور بصیرت Dastan Gou Dastan Gou داستان گو

نور بصیرت




غیر محسوس مگر تباہ کن سزائیں


کسی شاگرد نے اپنے استاذ سے کہا : ہم رات دن اللّٰه تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں مگر اللّٰه تعالٰی ہمیں سزا نہیں دیتا

استاذ محترم نے جواب دیا : ایسی بات نہيں بلکہ اللّٰه تعالی ہمیں کتنی سزائیں دیتا ہے مگر ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا

اللّٰه تعالی کی سزائیں کیا ہوتی ہیں سنو

1- مناجات الہی کی لذت سے محرومی:کیا رب سے مناجات کی لذت تم سے چھین نہیں لی گئی؟

2-قساوت قلبی: اس سے بڑی سزا کیا ہو سکتی ہے کہ انسان کا دل سخت ہو جائے؟

3 -نیکیوں کا توفیق نہ ملنا: ایک بڑی سزا یہ بھی ہے کہ تمہیں نیکیوں کی توفیق بہت کم ملے ۔

4- تلاوت قرآن سے غفلت : کیا ایسا نہیں ہوتا کہ دن کے دن گزر جاتے ہیں مگر تلاوت قرآن کی توفیق نہیں ملتی بلکہ بسا اوقات قرآن کی یہ آیت سنتے ہیں جس ميں اللّٰه تعالى نے فرمایا کہ اگر یہ قرآن پہاڑ پر نازل ہوتا تو اللّٰه کے خوف سے ریزہ ریزہ ہوجاتا ہم یہ آیت سنتے ہیں مگر ہمارے دلوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا؟

5- نیکیوں کے موسم بہار کی ناقدر: نیکیوں کے موسم بہار آتے اور گزر جاتے ہیں جیسے رمضان کے روزے، شوال کے روزے اور ذوالحجہ کے مبارک ایام وغيرہ .... مگر ان موسم میں کما حقہ عبادت کرنے کی توفیق نہیں ملتی اس سے بڑی سزا اور کیا ہو سکتی ہے؟

6- عبادت کو بوجھ محسوس کرنا : کیا تم عبادت کو بوجھ نہیں محسوس کرتے؟

7- ذکر الہی سے لاپرواہی: کیا اللّٰه کے ذکر سے تمہاری زبان خاموش نہیں رہتی؟

8- نفسانی خواہشات کے سامنے شکست :کیا نفسانی خواہشات کے سامنے خود کو کمزور نہیں محسوس کرتے؟

9- دنيا کی محبت: کیا تم مال و دولت اور منصب و شہرت کی بے جا حرص و لالچ ميں مبتلا نہیں ہو؟ اس سے بڑی سزا اور کیا ہو سکتی ہے؟

10- کبیرہ گناھوں کو معمولی سمجھنا: کیا ایسا نہیں کہ تم بڑے بڑے گناہوں کو معمولی اور حقیر سمجھتے ہو جیسے جهوٹ غیبت چغلی؟

11- فضول کاموں میں مشغولیت :کیا بیشتر اوقات تم فضول اور لا یعنی چیزوں ميں مشغول نہیں رہتے؟

12- آخرت سے غفلت: کیا تم نے آخرت کو بھلا کر دنیا کو اپنا سب سے بڑا مقصد نہیں بنا لیا ہے؟

یہ ساری محرومیاں اور بے توفیقی بھی اللّٰه کی طرف سے عذاب اور سزائیں ہیں مگر تمہیں اس کا احساس نہیں ہوتا.

یاد رکھو!!!  اللّٰه تعالی کا یہ بہت معمولی عذاب ہے جسے ہم اپنے مال و اولاد اور صحت میں محسوس کرتے ہیں اور حقیقی عذاب اور سب سے خطرناک سزا وہ ہے جو دل کو ملتی ہے.

اس لئے اللّٰه تعالیٰ سے عافیت کی دعاء مانگو اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو کیونکہ گناہ کے سبب بندہ عبادت کی توفیق سے محروم کر دیا جاتا ہے.

اللَّهُم أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ، وحُسنِ عِبَادتِك.  ترجمہ ۔۔۔۔۔۔اے اللہ ! آپ مجھے اپنا ذکر کرنے، شکر کرنے اور بہترین طریقہ پر عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائیں
آمین

🟩🟨🟧🟦🟥🟪⬛⬜🟫🟩


 شہید حضرت حبیبؓ بن زید کا تڑپا دینے والا واقعہ


مسیلمہ کزاب نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خط لکھا:
"میرے ساتھ ایک  معاہدہ کرلیں, جب تک آپﷺ حیات ظاہری میں ہیں، آپ نبی ہیں لیکں جب اپکا وصال ہوجاٸے تو میں نبی" 
یا یہ معاہدہ کرلیں کہ آدھے عرب کے آپ نبی  آدھے عرب کا میں نبی"  معاذاللہ

اسکے خط پر نبیﷺ نے جواب میں لکھا:
"میں تو اللہ کا رسول ہوں جب کہ تو کذاب ہے  جھوٹا ہے"

جب نبی پاکﷺ نے خط میں کذاب لکھا تو فرمانے لگے:
" کون لے کے جاٸے گا یہ خط اس کزاب کے دربار میں" 

اب اسکے دربار میں جانا ہے حالات بڑے خطرناک ہیں, اس کے آگے بھی بندے اور پیچھے بھی بندے ہیں جان کا خطرہ بھی ہے
ایک صحابی تھے چابڑی فروش، سر پر ٹوکرا رکھ کے مدینے کی گلیوں میں کجھوریں بیچتے تھے, گیارہ بارہ بچوں کے باپ تھے جسمانی طور پر بھی کمزور تھے، کجھور کھا رہے تھے فٹافٹ اٹھے ہاتھ کھڑا کر کے کہا:

"حضورﷺ کسی اور کی ڈیوٹی نا لگائیے گا میں جاونگا" 
جب یہ الفاظ جلد بازی میں کہے تو ان کے منہ سے کجھور کے ٹکڑے مجلس میں بیٹھے صحابہ کے چہروں پر گرے، ایک صحابی کہنے لگے:
" اللہ کے بندے پہلے کھجور تو کھا لے" بڑی جلدی ہے تجھے بولنے کی" 

مسکرا کے کہنے لگے:
"اگر کھاتے کھاتے ڈیوٹی کسی اور کی لگ گٸی تو کیا کرونگا مجھے جلدی ہے" (اللہ اکبر)

حضورﷺ نے اپنا نیزہ دیا, گھوڑا دیا ,اور فرمایا:
" ذرا ڈٹ کے جانا اس کذاب کے گھر" 
وہ صحابی عقیدت سے نظریں  جھکا کہنے لگے:
" محبوب خداﷺ !  آپ فکر ہی نا کریں" 

صحابہ کہتے ہے وہ  اس طرح نکلا جیسے کوٸی جرنیل نکلتا ہے,اسکا انداز ہی بدل گیا اس کے طور طریقے بدل گٸے وہ یوں نکلے جیسے کوٸی بڑا دلیر آدمی جاتا ہے, وہ صحابی مسیلمہ کذاب کے دربار میں گٸے، وہاں ایک شحض جو بعد میں مسلمان ہوا وہ بتلاتا ہے:
"وہ صحابی جن کا نام" حضرت حبیبؓ بن زید " تھا جب  وہاں دربار میں پہنچے تو اپنا نیزہ زور سے دربار میں گاڑ دیا 

مسلمہ ٹھٹک کے کہتا ہے:
" کون ہو"؟
آپ نے غراتے ہوئے فرمانے لگے:
" تجھے چہرہ دیکھ کے پتہ نہیں چلا کہ میں رسول اللہﷺ کا نوکر ہو، ہمارے تو چہرے بتاتے ہے کہ نبیﷺ والے ہے ، تجھے پتہ نہیں چلا میں کون ہوں"

مسلمہ کہنے لگا:
"  کیسے آٸے ہو"؟
بے نیازی سے فرمایا:
"یہ تیرے خط کا جواب لے کے آیا ہوں"

بادشاہوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ خط خود نہیں پڑھتے تھے، ساتھ ایک بندہ کھڑا ہوتا تھا وہ خط پڑھتا تھا تو مسیلمہ نے خط اس کو دیا کہ "پڑھو" جب اس نے خط پڑھا تو اسمیں یہ بھی لکھا تھا "تو کذاب ہے"

یہ جملہ وہاں موجود سب نے سن لیا اکیلے میں ہوتا تو بات اور تھی, وہ آگ بگولہ ہوگیا انکھیں سرخ ہوگٸیں سامنے حضرت حبیبؓ بن زید تنے کھڑے تھے، غصے سے تلوار لے کے  اٹھا اور کہنے لگا:
"تیرے نبی نےمجھے" کذاب" کہا ہے تیرا کیا خیال ہے"؟
حبیب بن زید مسکرا کے  فرمانے لگے:
"خیال والی بات ہی کوٸی نہیں، جسے میرا نبی کذاب کہے وہ ہوتا ہی کذاب ہے  تو سات سمندروں کا پانی بھی بہا دے تو بھی تیرا جھوٹ نہیں دھل سکتا"

مسلمہ غصے کی شدت سے کانپتے ہوئے کہنے لگا:
"تو پیچھے پلٹ کے دیکھ، سارے میرے سپاہی میرےپہرےدار، تلواریں, نیزے, خنجر , تیر سب تیرے پیچھے کھڑے میرے ماننے والے ہیں"

حضرت حبیبؓ بن زید فرمانے لگے:
"میرے بارہ بچے ہیں ان میں سے کچھ ایسے ہے جو دودھ پیتے ہیں کچھ ایسے ہیں جنہوں نے ابھی چلنا نہیں سیکھا, میں جب رسول اللہﷺ کا پیغام لے کے نکلا تھا تو میں نے پلٹ کے بچے نہیں دیکھے تو تیرے پہرہ دار کیسے دیکھ لوں, جو جی میں آتا ہے کر غلام محمدﷺ جان دینے سے نہیں ڈرتے" 

مسیلمہ نے زور سے تلوار ماری بازو کٹ کے گر گیا کہنے لگا:
" اب بول اب تیرا کیا خیال ہے"؟
آپ فرمانے لگے:
" تو بڑا بیوقوف ہے ہمیں آزماتا ہے، ہمیں تو بدر سے لے کر احد تک سب آزما چکے ہیں، تو ابھی بھی خیال پوچھتا ہے، میرا خیال وہی ہے جو میرے نبیﷺ نے فرمایا"

مسلمہ نےپھر تلوار ماری دوسرا ہاتھ کٹ گیاکہنے لگا:
"میں تجھے قتل کر دونگا باز آجا" 
آپ فرمانے لگے:
" تو بڑا نادان ہے، ان کو ڈراتا ہےجو فجر کی نماز پڑھ کے پہلی دعا ہی شہادت کی مانگتے ہیں، جو کرنا ہے کر لے"

مسلمہ کزاب نے تلوار گردن پر رکھی کہنے لگا:
" میں تیری گردن  کاٹ دونگا"
حبیب بن زید  فرمانے لگے:
"کاٹتا کیوں نہیں"

روایت کرنے والا فرماتا ہے مسیلمہ کے ہاتھ کانپے تھے  تلوار چلاٸی گردن کٹ گٸی، ادھر مدینے میں حضورﷺ کی انکھوں میں آنسو آٸے، صحابہ کرام رض نے پوچھا:
"یا رسول اللہﷺ کیا ہوا"
فرمایا:
"میرا حبیبؓ بن زید شہید ہو گیا ہے اور رب کریم نے اس کے لٸے جنت کے سارے دروازے کھول دٸے ہیں" 

(أسد الغابہ ابن الاثیر)

Next Post Previous Post
No Comment
Add Comment
comment url