صراط الجنان فی تفسیر القرآن
سورة البقرة آیت :24
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ۚۖ-اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ(24)
ترجمۂ کنز الایمان
پھر اگر نہ لا سکو اور ہم فرمائے دیتے ہیں کہ ہر گز نہ لا سکو گے تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں تیار رکھی ہے کافروں کے لیے ۔
تفسیر صراط الجنان
{ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ :اس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔}اس آیت میں آدمی سے کافر اور پتھر سے وہ بت مراد ہیں جنہیں کفار پوجتے ہیں اور ان کی محبت میں قرآنِ پاک اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاانکار کرتے ہیں۔ پتھروں کا جہنم میں جانا اُن پتھروں کی سزا نہیں بلکہ اُن کے پجاریوں کی سزا کے لئے ہوگا یعنی پجاریوں کو ان پتھروں کے ساتھ سزا دی جائے گی۔
اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ:وہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دوزخ پیدا ہوچکی ہے کیونکہ یہاں ماضی کے الفاظ ہیں نیز ’’کافروں کیلئے‘‘ فرمانے میں یہ بھی اشارہ ہے کہ مومنین اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جہنم میں ہمیشہ داخلے سے محفوظ رہیں گے کیونکہ جہنم بطورِ خاص کافروں کے لئے پیدا کی گئی ہے۔
🟥🟧🟨🟩🟦🔳▪️▪️🔳🟦🟩🟨🟧🟥
سورۃ البقرہ آیت 25
بسم اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُؕ-كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًاۙ-قَالُوْا هٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُۙ-وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًاؕ-وَ لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌۗۙ-وَّ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(25)
ترجمۂ کنز الایمان
اور خوشخبری دے انہیں جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ ان کے لیے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں رواں جب انہیں ان باغوں سے کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گاصورت دیکھ کر کہیں گے یہ تو وہی رزق ہے جو ہمیں پہلے ملا تھا اور وہ صورت میں ملتا جلتا انہیں دیا گیا اور ان کے لیے ان باغوں میں ستھری بیبیاں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ۔
تفسیر صراط الجنان
{وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ:اور ان لوگوں کوخوشخبری دو جو ایمان لائے اورانہوں نے اچھے عمل کئے ۔} اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ قرآن میں ترہیب یعنی ڈرانے کے ساتھ ترغیب بھی ذکر فرماتا ہے، اسی لیے کفار اور ان کے اعمال و عذاب کے ذکر کے بعد مومنین اور ان کے اعمال و ثواب کا ذکر فرمایا اور انہیں جنت کی بشارت دی۔ صالحات یعنی نیکیاں وہ عمل ہیں جو شرعاً اچھے ہوں ،ان میں فرائض و نوافل سب داخل ہیں۔ یہاں بھی ایمان اور عمل کو جدا جدا بیان کیا جس سے معلوم ہوا کہ عمل ایمان کا جزو نہیں ہیں۔(تفسیر مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۳۸)
{وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا:اور انہیں ملتاجلتا پھل دیا گیا۔} جنت کے پھل رنگت میں آپس میں ملتے جلتے ہوں گے مگر ذائقے میں جدا جدا ہوں گے، اس لیے ایک دفعہ ملنے کے بعد جب دوبارہ پھل ملیں گے توجنتی کہیں گے کہ یہ پھل تو ہمیں پہلے بھی مل چکا ہے مگرجب وہ کھائیں گے تو اس سے نئی لذت پائیں گے اور ان کا لطف بہت زیادہ ہوجائے گا۔اس کا یہ بھی معنیٰ بیان کیا گیا ہے کہ انہیں دنیوی پھلوں سے ملتے جلتے پھل دئیے جائیں گے تاکہ وہ ان پھلوں سے مانوس رہیں لیکن جنتی پھل ذائقے میں دنیوی پھلوں سے بہت اعلیٰ ہوں گے۔
{اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ:پاکیزہ بیویاں۔}جنتی بیویاں خواہ حوریں ہوں یا اور سب کی سب تمام ناپاکیوں اور گندگیوں سے مبرا ہوں گی، نہ جسم پر میل ہوگا نہ کوئی اور گندگی۔ اس کے ساتھ ہی وہ بدمزاجی اور بدخلقی سے بھی پاک ہوں گی۔(تفسیر مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۳۹)
{وَ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ:وہ ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے۔} جنتی نہ کبھی فنا ہوں گے اورنہ جنت سے نکالے جائیں گے۔ لہٰذا جنت اور اہلِ جنت کے لیے فنا نہیں۔
* اپنی صبح کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کریں
🟥🟧🟨🟩🟦🔳▪️▪️🔳🟦🟩🟨🟧🟥
سورۃ البقرہ آیت: 26
بسم اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَسْتَحْیٖۤ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَاؕ-فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۚ-وَ اَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًاۘ-یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًاۙ-وَّ یَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًاؕ-وَ مَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ(26)
ترجمۂ کنز الایمان
بیشک اللہ اس سے حیا نہیں فرماتا کہ مثال سمجھانے کو کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے مچھر ہو یا اس سے بڑھ کر تو وہ جو ایمان لائے وہ تو جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے رہے کافر وہ کہتے ہیں ایسی کہاوت میں اللہ کا کیا مقصود ہے اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں ۔
تفسیر صراط الجنان
{ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَسْتَحْیٖ:بیشک اللہ اس سے حیا نہیں فرماتا۔} جب اللہ تعالیٰ نے ’’سورہ ٔبقرہ‘‘ (کے دوسرے رکوع ) میں منافقوں کی دو مثالیں بیان فرمائیں تو منافقوں نے یہ اعتراض کیاکہ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بلند تر ہے کہ ایسی مثالیں بیان فرمائے اور بعض علماء نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے کفار کے معبودوں کی کمزوری کو مکڑی کے جالوں وغیرہ کی مثالوں سے بیان فرمایا تو کافروں نے اس پر اعتراض کیا ۔اس کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱ / ۳۶۱، طبری، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱ / ۲۱۳-۲۱۴، ملتقطاً)
چونکہ مثالوں کا بیان حکمت کے مطابق اور مضمون کو دل نشین کرنے والا ہوتاہے اورماہرینِ کلام کا یہ طریقہ ہے اس لیے مثال بیان کرنے پر اعتراض غلط ہے۔
{ یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًا:اللہ بہت سے لوگوں کواس کے ذریعے گمراہ کرتا ہے۔} ان الفاظ سے کافروں کو جواب دیا گیا کہ مثالیں بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ کا کیا مقصو دہے نیز مومنوں اور کافروں کے مقولے اس کی دلیل ہیں کہ قرآنی مثالوں کے ذریعے بہت سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں جن کی عقلوں پر جہالت کا غلبہ ہوتاہے اور جن کی عادت صرف ضد، مقابلہ بازی، انکار اور مخالفت ہوتی ہے اور کلام کے بالکل معقول ، مناسب اور موقع محل کے مطابق ہونے کے باوجودوہ اس کا انکار کرتے ہیں اور انہی مثالوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو غور و تحقیق کے عادی ہوتے ہیں اور انصاف کے خلاف بات نہیں کہتے، جو جانتے ہیں کہ حکمت یہی ہے کہ عظیم المرتبہ چیز کی مثال کسی قدر وقیمت والی چیز سے اور حقیر چیز کی مثال کسی ادنیٰ شے سے دی جاتی ہے جیسا کہ اوپر آیت نمبر17 میں حق کی مثال نور سے اور باطل کی مثال تاریکی سے دی گئی ہے۔ نزولِ قرآن کا اصل مقصد تو ہدایت ہے لیکن چونکہ بہت سے لوگ اپنی کم فہمی کی وجہ سے قرآن کو سن کر گمراہ بھی ہوتے ہیں لہٰذا اس اعتبار سے فرمایا کہ قرآن کے ذریعے بہت سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں۔
{ وَ مَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ:اور وہ اس کے ذریعے صرف نافرمانوں ہی کو گمراہ کرتا ہے۔} شریعت میں ’’فاسق ‘‘اس نافرمان کو کہتے ہیں جو کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو۔ فسق کے تین درجے ہیں ایک تَغَابِی وہ یہ کہ آدمی اتفاقیہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوجائے اور اس کو برا ہی جانتا رہا۔دوسرا اِنْہِمَاک کہ کبیرہ گناہوں کا عادی ہوگیا اور اس سے بچنے کی پروا نہیں کرتا۔ تیسرا جُحُوْد کہ حرام کو اچھا جان کر ارتکاب کرے اس درجہ والا ایمان سے محروم ہوجاتا ہے۔ پہلے دو درجوں میں جب تک سب سے بڑے کبیرہ گناہ یعنی کفر و شرک کا ارتکاب نہ کرے وہ مومن و مسلمان ہے۔مذکورہ آیت میں فاسقین سے وہی نافرمان مراد ہیں جو ایمان سے خارج ہوگئے۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱ / ۸۸)
🟥🟧🟨🟩🟦🔳▪️▪️🔳🟦🟩🟨🟧🟥