ولی کی اجازت کے بغیر نکاح
" ولی کی اجازت کے بغیر نکاح "
سوال : کیا بالغ عورت خود اپنا نکاح کر لینے میں مجاز ہے؟ علماء احناف اور علماء اہل حدیث کے درمیان نکاح بالغہ بلا ولی کے مسئلہ میں عام طور پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ آپ اس بارے میں اپنی تحقیق واضح فرمائیں۔
🖋️امام سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ
[فریقین کے دلائل آپ کتاب میں پڑھ سکتے ہیں]
دونوں جانب کے دلائل کا جائزہ لینے کے بعد امام لکھتے ہیں:
ان دلائل پر ایک نگاہ ڈالنے سے ہی یہ محسوس ہوجاتا ہے کہ دونوں طرف کافی وزن ہے اور یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ فریقین میں سے کسی کا مسلک بالکل غلط ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شارع نے فی الواقع دو متضاد حکم دیئے ہیں؟ یا ایک حکم دوسرے حکم کو منسوخ کرتا ہے؟ یا دونوں حکموں کو ملا کر شارع کا منشا ٹھیک طور پر متحقق ہوسکتا ہے؟ پہلی شق تو صریحاً باطل ہے۔ کیوں کہ شریعت کا پورا نظام شارع کی حکمت کاملہ پر دلالت کر رہا ہے اور حکیم سے متضاد احکام کا صدور ممکن نہیں ہے۔ دوسری شق بھی باطل ہے کیوں کہ نسخ کا کوئی مثبت یا منفی موجود نہیں ہے۔ اب صرف تیسری ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور ہمیں اس کی تحقیق کرنی چاہیے۔ میں دونوں طرف کے دلائل جمع کرکے شارع کا جو منشا سمجھ رہا ہوں وہ یہ ہے۔
۱۔ نکاح کے معاملے میں اصل فریقین مرد اور عورت ہیں نہ کہ مرد اور اولیائے عورت۔ اسی بنا پر ایجاب وقبول ناکح اور منکوحہ کے درمیان ہوتا ہے۔
۲۔ بالغہ عورت (باکرہ ہو یا ثیبہ) کا نکاح اس کی رضا مندی کے بغیر یا اس کی مرضی کے خلاف منعقد نہیں ہوسکتا، خواہ نکاح کرنے والا باپ ہی کیوں نہ ہو۔ جس نکاح میں عورت کی طرف سے رضامندی نہ ہو، اس میں سرے سے ایجاب ہی موجود نہیں ہوتا کہ ایسا نکاح منعقد ہوسکے۔
۳۔ مگر شارع اس کو بھی جائز نہیں رکھتا کہ عورتیں اپنے نکاح کے معاملے میں بالکل ہی خود مختار ہوجائیں اور جس قسم کے مرد کو چاہیں، اپنے اولیا کی مرضی کے خلاف اپنے خاندان میں داماد کی حیثیت سے گھسا لائیں۔ اس لیے جہاں تک عورت کا تعلق ہے، شارع نے اس کے نکاح کے لیے اس کی اپنی مرضی کے ساتھ اس کے ولی کی مرضی کو بھی ضروری قرار دیا ہے۔ نہ عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر جہاں چاہے اپنا نکاح خود کرلے، اور نہ ولی کے لیے جائز ہے کہ عورت کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح جہاں چاہے کردے۔
۴۔ اگر کوئی ولی کسی عورت کا نکاح بطور خود کرے تو وہ عورت کی مرضی پر معلق ہوگا، وہ منظور کرے تو نکاح قائم رہے گا، نامنظور کرے تو معاملہ عدالت میں جانا چاہیے۔ عدالت تحقیق کرے گی کہ نکاح عورت کو منظور ہے یا نہیں۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ عورت کو نکاح نا منظور ہے تو عدالت اسے باطل قرار دے گی۔
۵۔ اگر کوئی عورت اپنے ولی کے بغیر اپنا نکاح خود کرلے تو اسکا نکاح ولی کی اجازت پر معلق ہوگا۔ ولی منظور کر لے تو نکاح برقرار رہے گا، نا منظور کرے تو یہ معاملہ بھی عدالت میں جانا چاہیے۔ عدالت تحقیق کرے گی کہ ولی کے اعتراض و انکار کی بنیاد کیا ہے۔ اگر وہ فی الواقع معقول وجوہ کی بنا پر اس مرد کے ساتھ اپنے گھر کی لڑکی کا جوڑ پسند نہ کرتا ہو تو یہ نکاح فسخ کردیا جائے گا اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اس عورت کا نکاح کرنے میں اس کا ولی دانستہ تساہل کرتا رہا ، یا کسی ناجائز غرض سے اس کو ٹالتا رہا اور عورت نے تنگ آکر اپنا نکاح خود کرلیا تو پھر ایسے ولی کو سئی الاختیار ٹھہرادیا جائے گا اور نکاح کو عدالت کی طرف سے سند جواز دے دی جائے گی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔
📗[کتاب رسائل و مسائل باب نکاح]